قرضوں کا بوجھ…

ایم آئی خلیل  اتوار 31 مارچ 2013

دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے وزیر اعظم نے منتخب ہونے کے فوراً بعد اعلان کیا کہ حکومت اپنے اخراجات میں مزید کمی لائے گی، حال ہی میں چین سے واپس آنے والے ایک پاکستانی تاجر کا کہنا ہے کہ وہاں توانائی کی بچت کے لیے تمام تر اقدامات بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ حکومت نے کفایت شعاری کا عزم کر رکھا ہے جس کے تحت تمام تر غیر ضروری اخراجات کو ختم کیا جا رہا ہے، حالانکہ وہاں نہ تو زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اور نہ ہی معاشی ترقی گراوٹ کا شکار ہے، جب کہ پاکستان میں کچھ عرصے سے حکومت اپنے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کرتی چلی آ رہی ہے۔

آمدنی کم ہونے کے سبب اخراجات پورا کرنے کے لیے قرض کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ مرکزی بینک، تجارتی بینکوں اور غیر ملکی ذرایع سے قرضوں کے حصول میں تیزی لائی گئی۔ حکومت کی جانب سے حاصل کردہ قرض کو سرکاری قرض کا نام دیا جاتا ہے، اس طرح حکومت کو ملکی اور بیرونی سطح پر قسطوں اور سود کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے، بعض اوقات اس کے لیے اونچی شرح سود اور سخت ترین شرائط کے ساتھ مزید قرض لینا پڑتا ہے، جس سے قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے، حکومت کی طرف سے کفایت شعاری کو نہ اپنانے، فضول اخراجات کا سلسلہ ترک نہ کرنے اور قرض گیری کو حد میں نہ رکھنے کی بھاری قیمت پاکستانی غریب عوام کو چکانی پڑ رہی ہے، جو مختلف صورتیں اختیار کر کے معیشت کو نڈھال کر رہی ہے، کہیں بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔

مہنگائی کی بلا آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بجلی کے بل دیکھ کر عوام پر غشی کے دورے پڑ رہے ہیں، گیس کی بڑھتی ہوئی قیمت سے غریبوں کے چولہے بجھ رہے ہیں۔ اگرچہ مرکزی بینک نے سابقہ حکومت کو بار بار متنبہ کیا تھا کہ سرکاری قرضے حد سے بہت بڑھ رہے ہیں، لہٰذا حکومت بڑھتے ہوئے اخراجات کو کنٹرول کرے ، اس کے ساتھ ہی مرکزی بینک نے تجارتی بینکوں کو مشورہ دیا کہ وہ حکومت کو قرض فراہم کرنے میں احتیاط سے کام لیں قرض فراہمی کے سلسلے میں نجی اداروں کا بھی خیال کیا جائے کیونکہ کاروباری اور صنعتی اداروں کو قرض کی کم یا عدم فراہمی کے باعث روزگار کے مواقعے نہیں بڑھ رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ سود اور قسطوں کی ادائیگی کے سبب پاکستان قرضوں کے جال میں پھنستا چلا جا رہا ہے، کچھ عرصے قبل تک حکومتی قرض129 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے در اصل قلیل المعیاد قرضوں پر حد سے زیادہ انحصار کے سبب قرضوں کے واپسی کا بوجھ بڑھ گیا ہے، لہٰذا بینک کی طرف سے یہ بات بھی کہی گئی کہ ملک کی معاشی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان قرض کی دلدل میں دھنس جائے گا۔

اب جب کہ نگران حکومت قائم ہو چکی ہے اسے پہل کرتے ہوئے تمام غیر ضروری اخراجات کو ختم یا انتہائی ضرورت کے درجے پر خرچ کرنے اور کفایت شعاری کو اختیار کرتے ہوئے ایسی معاشی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے کہ آنے والی حکومت کے لیے مثال قائم ہو جائے، جس کے لیے سب سے پہلے قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے مزید قرضوں کے لیے انتہائی احتیاط سے کام لینا ہو گا، گزشتہ دنوں یہ بتایا گیا کہ پاکستان پر واجب الادا قرضوں کی مالیت 13254 ارب روپے ہو گئی، غیر ملکی قرضہ4922 ارب روپے اور ملکی قرضہ 8332 ارب روپے ہے۔

2012ء کی آخری سہ ماہی میں حکومت نے بڑی تیزی سے قرض لینا شروع کیا تھا جس کی وجہ سے مقامی قرضوں میں1.6 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا، جو گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کی نسبت 30 فیصد زیادہ تھا، اگرچہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ سرکاری قرضہ مجموعی قومی پیداوار GDP کے62.6 فیصد تک پہنچ گیا ہے لیکن بعض ماہرین اسے68 فیصد تک بتا رہے ہیں، اگر سرکاری قرضے اور GDP کی نسبت سے متعلق عالمی اعداد و شمار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی حکومتیں ایسی ہیں جو بہت کم قرض حاصل کرتی ہیں اور وہاں پاکستان جیسے مسائل نہیں ہیں۔

جو کہ سرکاری قرضوں کے بوجھ کے باعث ناقابل حل ہو چکے ہیں اور یوں ملک بہت ہی پیچھے چلا گیا ہے، عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سارک ممالک میں بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی پیچھے ہے، آیئے ان ممالک میں سے چند کے اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں جن کی مجموعی حکومتی قرض بلحاظ جی ڈی پی40 فیصد سے بھی کم ہے جو کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے فراہم کردہ برائے 2011ء کے ہیں (ابھی تک2011کے ہی حتمی اعداد و شمار دستیاب ہیں) حکومتی قرض بلحاظGDP آسٹریلیا22.9 فیصد، آذربائیجان10 فیصد قازقستان11 فیصد، الجزائر، چلی10 فیصد، انگولا، کوسٹا ریکا30 فیصد، کیمرون 13 فیصد، بحرین اور بنگلہ دیش36 فیصد، کولمبیا 35 فیصد، ایتھوپیا37 فیصد، لکسبرگ 20 فیصد، یونان جہاں کی معاشی صورتحال بد ترین ہوتی چلی جا رہی ہے اور آئی ایم ایف نے بھی اسے قرضوں کے سلسلے میں سہولیات دے رکھی ہیں لیکن مسلسل قرض کے حصول کے باعث وہاں حکومتی قرضے بلحاظ جی ڈی پی16 فیصد ہیں اور قرض کا حصول وہاں کی بگڑتی معیشت میں کوئی سدھار نہ لا سکا۔

گزشتہ کئی سالوں سے حکومتی قرضوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے، ملک میں دولت کی تقسیم کا منصفانہ نظام نہ ہونے کے باعث ان قرضوں کا بوجھ غرباء پر ہی پڑا ہے، کیونکہ قرضوں کے باعث تقسیم دولت اور پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، حکومت قسطوں اور سود کی ادائیگی کے لیے ٹیکس عائد کرتی ہے، نوٹ چھاپتی چلی جاتی ہے، بجلی گیس، پیٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دولت غریبوں کے ہاتھوں سے نکلتی رہی، غربت کی شرح بڑھتی رہی، حکومت کے شاہانہ اخراجات کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑا، معاشرے میں خودکشی، چھینا جھپٹی، لوٹ مار، چوری، ڈاکہ زنی کے واقعات بڑھتے رہے اور غریب مزید غریب تر ہوتا رہا اور امیر، امیر تر ہوتے رہے اور یوں طبقاتی فرض بڑھتا چلا جا رہا ہے یوں آگے چل کر اپنا رنگ دکھائے گا۔

بتایا گیا کہ ملک کی مجموعی ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی تعداد130 ارب ڈالر کے برابر ہے، سابقہ حکومت نے تمام عرصہ قرضہ لینے میں  گزارا، اس دوران تجارتی بینکوں کی طرف سے بڑی تعداد میں حکومت کو قرضے فراہم کرنے کے باعث نجی افراد کو تجارت اور نہ ہی صنعتوں کے لیے قابل ذکر قرضوں کا اجراء کیا جا سکا۔ اس دوران اسٹیٹ بینک کے مطابق تجارتی بینکوں کے ذریعے نجی شعبے کو قرضوں کا اجراء محض4 فیصد ہو سکا جب کہ حکومت کو بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضوں کا اجراء60 فیصد ہوا، اس طرح سابقہ حکومت مسلسل مالیاتی نظم و ضبط کو ختم کرنے پر تلی رہی۔

نومبر2008ء میں جب یہ بات طے کر لی گئی تھی کہ مرکزی بینک سے قرضے لینے کے بجائے تجارتی بینکوں سے رجوع کیا جائے گا، اس طرح حکومت کو بغیر کسی پابندی کے قرضوں کا حصول آسان ہو گیا اور تجارتی بینکوں کے لیے بھی منافع کمانے کے مواقعے تیزی سے بڑھتے چلے گئے جس سے معیشت میں ترقی کرنے کی صلاحیت بتدریج کم ہوتی چلی گئی، ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے7 ماہ میں آئی ایم ایف کو 1.4 ارب ڈالر کے قرضے واپس کیے گئے جب کہ1.6 ارب ڈالر کی ادائیگی باقی ہے، قرضوں کی ادائیگی سے زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑتا ہے۔

2012ء میں زرمبادلہ کے ذخائر 10.8 ارب ڈالر سے کم ہو کر اب8.7 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، اس طرح ڈالر کی قدر بڑھتی ہے اور روپے کی قدر گرتی ہے، بہر حال نگراں حکومت نے طے کرنا ہے کہ اس دو ماہ کے دوران آئی ایم ایف سے مزید قرض لینا ہے یا یہ کام نئی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے، نگراں حکومت اگر کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے فضول اور بے تحاشا بے جا اخراجات کا سدباب کر دیتی ہے تو ایک طرف قرضوں کے بوجھ کے منفی اثرات میں بھی کمی واقع ہو گی اور آنے والی حکومت کے لیے بھی ایک نئی راہ متعین ہو جائے گی۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔