استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے پرانا طریقہ بحال نہ ہوسکا

بزنس رپورٹر  جمعـء 23 فروری 2018
پرانے طریقے سے سرمایہ کاری کودھچکہ لگنے کااندیشہ،آٹومینوفیکچررز کوبھی بحالی پر اعتراض۔  فوٹو : فائل

پرانے طریقے سے سرمایہ کاری کودھچکہ لگنے کااندیشہ،آٹومینوفیکچررز کوبھی بحالی پر اعتراض۔ فوٹو : فائل

 کراچی:  بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی جانے والی گاڑیوں کی کلیئرنس نہ ہونے سے ایف بی آر کوریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے جبکہ گاڑیوں پرڈیمرج کی رقم 35کروڑ روپے سے تجاوز کرگئی۔

دو ماہ قبل اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایس آر او کے تحت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے طریقہ کار کو تبدیل کرتے ہوئے مشکل بنا دیا تھا جس کے باعث 9 ہزار سے زائد گاڑیاں 2 ماہ سے کراچی پورٹ میں پھنسی ہوئی ہیں، 7 فروری کوای سی سی نے پرانے درآمدی طریقہ کار کو بحال کرنے کی منظوری دی لیکن اسے وفاقی کابینہ کی منظوری سے مشروط کر دیا لیکن ایس آ ر او جاری نہیں کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گاڑیوں پر ڈیمرج 35 کروڑسے تجاوز کرچکا ہے،ساتھ ہی اوورسیزپاکستانیوں کے اربوں روپے پھنس گئے اورایف بی آر کو بھی شارٹ فال کا سامنا ہے کیونکہ ان گاڑیوں کی کلیئرنس سے 10ارب کا ریونیو ملتا۔

کاریں اور پرزہ جات بنانے والی صنعت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کیلیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو دی جانے والی سہولت کا غلط استعمال معیشت کے ساتھ آٹو انڈسٹری کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہورہا ہے تاہم حکومت نے ایک اچھا قدم اٹھاتے ہوئے پالیسی کے غلط استعمال کو تکنیکی لحاظ سے ناممکن بنادیا تھاجس سے پرزہ جات بنانے والی صنعت اور کار اسمبلرز نے اطمینان کا سانس لیا تھا کیونکہ مقامی آٹو انڈسٹری کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

دنیا کی 3 مزید بڑی کمپنیاں پاکستان میں گاڑیوں کی تیاری میں سرمایہ کاری کررہی ہیں اور آئندہ 2 سال میں نئی کمپنیاں بھی گاڑیوں کی پاکستان پیداوار شروع کردیں گی تاہم استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی چند ماہ میں تبدیل کیے جانے سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی دھچکہ پہنچا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔