حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کے ارشاداتِ عالیہ

مولانا سیّد شہنشاہ حُسین نقوی  جمعـء 23 فروری 2018
’’ نصیحت اُس شخص کے لیے ہوتی ہے جو اُسے قبول کرتا ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

’’ نصیحت اُس شخص کے لیے ہوتی ہے جو اُسے قبول کرتا ہے۔‘‘ فوٹو : فائل

بندوں کے کاموں میں اور اللہ کے کاموں میں بہت فرق پائے جاتے ہیں۔ جب بندے کچھ کرتے ہیں تو وہ ناقص ہوتا ہے۔ اور جب ربّ کوئی اَمر ظاہر کرتا ہے، تو وہ کامل ہوتا ہے۔

بندوں کا کام عارضی ہوا کرتا ہے اور رب کا کام دائمی ہوا کرتا ہے۔ بندے اپنی جہالت کی بنیاد پر اپنے کاموں کو انجام دیتے ہیں اور ربّ اپنے علم کی بنیاد پر اپنے کاموں کو انجام دیتا ہے۔ اللہ کے کاموں اور بندوں کے کاموں میں واضح فرق یہ ہے کہ بندوں کا کام اَبتر ہوتا ہے اور اللہ کا کام کوثر ہوتا ہے۔ جو کام باقی رہنے والا ہو، وہ اللہ کا کام ہے۔

قرآنِ مجید فرقانِ حمید، سورۂ بقرہ، آیت207 میں ارشادِ ربُّ العزت ہے، مفہوم :

’’ اور لوگوں میں سے کچھ جو اللہ کی رضایت کی خاطر اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں، اللہ اپنے ایسے بندوں پہ بہت مہربان ہے۔‘‘

اللہ رحمن و رحیم کے بے پایاں فضل و کرم سے بابِ مدینۃ العلم حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہٗ کے بے مثِل اقوالِ حمیدہ کی خوش بُو سے یقینا ہمارا پورا وجود معطّر ہوجائے گا۔ آج ہمارا معاشرہ جس بے حسی، پستی اور ابتری کا شکار ہے، اُس میں اِن ارشادات عالیہ سے رُوشناس ہونے اور اِن سے مناسب استفادے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں :

’’ نصیحت اُس شخص کے لیے ہوتی ہے جو اُسے قبول کرتا ہے۔‘‘

’’ اولاد میں سب سے بُرے وہ ہیں جو والدین کو اذیت دیں۔‘‘

’’ نافرمان اور اذیت رساں بیٹا رنج و نحوست کا سبب ہوتا ہے۔‘‘

’’ خیانت اور جھوٹ میں برادری ہے ۔‘‘

’’ خیانت نفاق میں سرِفہرست ہے۔‘‘

’’ خیانت اور اخوّت کبھی اکٹھا نہیں ہوسکتیں۔‘‘

’’ جس کی سخت گیری بڑھ جاتی ہے وہ ذلیل ہوتا ہے۔‘‘

’’ حریص کے پاس شرم و حیا نہیں ہوتی۔‘‘

’’ دُشمنی، دِین کو برباد کردیتی ہے۔‘‘

’’ امانت داری، انسان کو صداقت کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘

’’ رشتے داروں سے الگ ہوکے رہنا، بلاؤں میں گرفتار ہونے کا سبب ہے۔‘‘

’’ہٹ دھرمی، اپنے سوار کو پھینک کر اوندھے منہ گرا دیتی ہے۔‘‘

’’ صبح کے وقت مومن کے آنسوؤں سے ڈرو، کیوں کہ یہ اپنے رُلانے والوں کو برباد کردیتے ہیں اور یہ (ان آنسوؤں کے ذریعے) جس کے لیے دُعا کرتے ہیں اس (پر اللہ کے) غضب کے آتشیں دریا کو خاموش کردیتے ہیں۔‘‘

’’ کٹ حجتی اور لڑائی سے دُور رہو، کیوں کہ یہ دونوں دل کو مریض کردیتے ہیں اور اسی کے سبب نفاق پیدا ہوتا ہے۔‘‘

’’ اللہ کے نزدیک مقرب ترین بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ حق کے لیے بولے، بھلے وہ اُس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور سب سے زیادہ اس پر عمل پیرا ہو، بھلے وہ اُسے ناپسند ہو۔‘‘

’’ آپ ؓسے سوال کیا گیا کہ ’’ توبۃ النصوح کیا ہے؟ ‘‘

آپ ؓنے فرمایا: ’’دل سے ندامت، زبان سے استغفار اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم۔‘‘

’’ تین چیزوں میں شرمایا نہیں جاتا، انسان کا اپنے مہمان کی خدمت کرنا اور انسان کا اپنے باپ اور اُستاد کے لیے اپنی جگہ سے اُٹھنا اور اپنا حق مانگنا، بھلے وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

( اہم نوٹ : درج بالا ارشادات عالیہ ’’ تجلّیاتِ حکمت‘‘ سے لیے گئے ہیں)

پروردگارِ عالم کی عظمت و جلالت کے حوالے سے حضرت علیؓ کا ارشادِ گرامی ہے:

’’ پروردگار پر بندوں کے دن و رات کے اعمال میں سے کوئی شے مخفی نہیں ہے۔ وہ لطافت کی بنا پر خبر رکھتا ہے اور علم کے اعتبار سے احاطہ رکھتا ہے۔ تمہارے اعضاء ہی اُس کے گواہ ہیں اور تمہارے ہاتھ پاؤں ہی اُس کے لشکر ہیں۔ تمہارے ضمیر اُس کے جاسوس ہیں اور تمہاری تنہائیاں بھی اُس کی نگاہ کے سامنے ہیں۔‘‘

(نہج البلاغہ۔ خطبہ 199)

نبی کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان میں حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں:

’’یقیناً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے اور دنیا کی ذلّت اور اس کے عیوب کے لیے بہترین راہ نما ہے کہ اس میں ذلّت اور رُسوائی کے مقامات بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ دیکھو اِس دُنیا کے اطراف حضور سے سمیٹ لیے گئے اور غیروں کے لیے ہم وار کردیے گئے۔ آپؐ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کردیا گیا۔‘‘ (نہج البلاغہ۔ خطبہ 160)

’’مشاورت‘‘ کے ضمن میں آپ ؓنے یوں دائمی راہ نمائی فرمائی:

’’ دیکھو اپنے مشورے میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستے سے ہٹا دے گا اور تم کو فقر و فاقے کا خوف دِلاتا رہے گا اور اسی طرح بُزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہر معاملے میں کم زور بنادے گا۔ اور حریص سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقے سے مال جمع کرنے کو بھی تمہارے نگاہوں میں آراستہ کردے گا۔ یہ بخل، بُزدلی او اور طمع اگرچہ الگ الگ جذبات و خصائل ہیں لیکن ان سب کا قدرِ مشترک پروردگار سے سُوئے ظن ہے، جس کے بعد اِن خصلتوں کا ظہور ہوتا ہے۔‘‘

(نہج البلاغہ۔ مکتوب53)

اِسی خط میں ’’طبقۃ السفلاء‘‘ کے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ دُنیا بھر کے حکم رانوں کو ہدایت فرماتے ہیں :

’’ اِس کے بعد اللہ سے ڈرو اُس پس ماندہ طبقے کے بارے میں جو مساکین، محتاج، فقراء اور معذور افراد کا طبقہ ہے، جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اِس طبقے میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت دار بھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔

ان کے جس حق کا اللہ نے تمہیں محافظ بنایا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لیے بیت المال اور ارضِ غنیمت کے غلّات میں سے ایک حصہ مخصوص کردو کہ ان کے دُور افتادہ کا بھی وہی حق ہے جو قریب والوں کا ہے اور تمہیں سب کا نگراں بنایا گیا ہے۔ لہٰذا خبردار کہیں غرور و تکبّر تمہیں ان کی طرف سے غافل نہ بنادے کہ تمہیں بڑے کاموں کے مستحکم کردینے سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے گا۔ لہٰذا نہ اپنی توجّہ کو ان کی طرف سے ہٹانا اور نہ غرور کی بنا پر اپنا منہ موڑ لینا۔ جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انہیں نگاہوں نے گرا دیا ہے اور شخصیتوں نے حقیر بنا دیا ہے، ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمہارا ہی فریضہ ہے، لہٰذا ان کے لیے متواضع اور خوفِ خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جو تم تک ان کے حالات کو پہنچاتے رہیں اور تم ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بنا پر روز ِقیامت پیشِ پروردگار معذور کہے جاسکو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں اور پھر ہر ایک کے حقوق کو ادا کرنے میں پیشِ پروردگار اپنے کو معذور ثابت کرو۔

اور یتیموں اور کبیر سِن بوڑھوں کے حالات کی بھی نگرانی کرتے رہنا کہ ان کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یہ سوال کرنے کے لیے کھڑے بھی نہیں ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا خیال رکھنا حکام کے لیے بڑا سنگین مسئلہ ہوتا ہے، لیکن کیا کِیا جائے، حق تو سب کا سب ثقیل ہی ہے۔ البتہ کبھی کبھی پروردگار اسے ہلکا قرار دے دیتا ہے، اُن اقوام کے لیے جو عاقبت کی طلب گار ہوتی ہیں اور اس راہ میں اپنے نفس کو صبر کا خوگر بناتی ہیں اور اللہ کے وعدے پر اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

اور دیکھو صاحبانِ ضرورت کے لیے ایک وقت معین کردو جس میں اپنے کو ان کے لیے خالی کرلو اور ایک عمومی مجلس میں بیٹھو۔ اُس اللہ کے سامنے متواضع رہو جس نے پیدا کیا ہے اور اپنے تمام نگہبان، پولیس، فوج، اعوان و انصار سب کو دُور بٹھا دو تاکہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکار نہ ہو کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خود سُنا ہے کہ آپؐ نے بار بار فرمایا ہے: ’’ وہ اُمّت پاکیزہ کردار نہیں ہوسکتی ہے جس میں کم زور کو آزادی کے ساتھ،

طاقت ور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے۔‘‘ اس کے بعد ان سے بدکلامی یا عاجزیِ کلام کا مظاہرہ ہو تو اسے برداشت کرو اور دل تنگی اور غرور کو دُور رکھو تاکہ اللہ تمہارے لیے رحمت کے اطراف کشادہ کردے اور اطاعت کے ثواب کو لازم قرار دیدے ۔ جسے جو کچھ دو خوش گواری کے ساتھ دو اور جسے منع کرو اُسے خوب صورتی کے ساتھ ٹال دو۔‘‘

حقیقت یہی ہے کہ آپ ؓکے خطبات، مکتوبات، فرامین ، پیغامات اور پند و نصائح بالعموم ہر معاشرے کی اصلاح اور فوز و فلاح کے لیے ناگزیر ہیں، بالخصوص ہمارے معاشرے کے لیے اِن کی اشد ضرورت ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے انہیں پڑھیں، سُنیں اور سمجھیں تو اِن میں بہت کچھ سامانِ نصیحت و ہدایت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔