حقوق و تحفظ ِنسواں

مولانا محمد راشد  جمعـء 23 فروری 2018
اسلام نے رحمت اور بخشش الٰہی کو مرد و عورت دونوں کے لیے عام رکھا ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام نے رحمت اور بخشش الٰہی کو مرد و عورت دونوں کے لیے عام رکھا ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام سے قبل اگر دنیا کے مختلف مذاہب اور معاشروں کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم، مقہور اور معاشرتی و سماجی عزت وقار سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا۔

عورت کی عزت، احترام اور اس کی صحیح پہچان کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی ممانعت کرکے زمانۂ جاہلیت کی اس قبیح رسم کا خاتمہ کیا اور عورت کو وہ اعلیٰ مقام عطا کیا جس کا تصور ناممکن تھا۔

اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا کہ جس کی وجہ سے عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے مقدس رشتوں میں جُڑتی چلی گئی، اور معاشرے میں اسے وہ مقام ملا جس کی وہ اصل حق دار تھی۔ اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھا۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں، اور عورت کو وہ حیثیت عطا کی جس سے وہ معاشرے میں ویسی ہی عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی، جس کے مستحق مرد تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبے میں رکھا ہے۔ اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبے پر ہے۔

اسلام نے رحمت اور بخشش الٰہی کو مرد و عورت دونوں کے لیے عام رکھا ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک صنف کے لیے اللہ کی رحمت خاص نہیں بل کہ دونوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ جو تگ و دو کرے اور آگے بڑھ کر اسے پالے وہ اسی کا حق اور مقدر ہے۔

اللہ کسی کے عمل کو خواہ مرد ہو یا عورت ضایع نہیں ہونے دیتا۔ تم آپس میں ایک دوسرے کا جز ہو۔ اللہ پاک نے اہل ایمان کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے کہ ان اہل ایمان نے خوب دعائیں کیں۔ ان کی دعائیں معمولی دعائیں نہ تھیں بل کہ ان کی دعائیں بڑی مومنانہ تھیں۔ اگر قرآنی سیاق و سباق پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعائیں مردوں نے کی تھیں، مردوں ہی نے کہا تھا: اے ہمارے رب، ہم نے ایک پکارنے والے سے سنا جو ایمان لانے کو پکارتا تھا کہ اپنے رب پہ ایمان لاؤ، سو ہم ایمان لے آئے۔ یہ مردانہ دعا ہے۔ پیش پیش رہنے والے اور مردار نہ وار لبیک کہنے والے مرد ہی تھے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب ان دعاؤں کی قبولیت اور ان پر اجر و جزا کا ذکر کیا ہے تو صرف مردوں کا ذکر نہیں کیا، بل کہ خاص طور پر عورتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت دیکھیے کہ وہ خالق ذکور و اناث دونوں جنسوں کا خالق ہے اور دونوں پر اس کی یک ساں شفقت کی نظر ہے۔ یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ رحمت اور بخشش الٰہی میں کامل مساوات ہے اور اس میں کوئی تحفظ نہیں۔

زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کے اس طرزِ عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے، مفہوم: ’’ اور (یہ بھی) کہتے ہیں کہ جو (بچہ) ان چوپایوں کے پیٹ میں ہے وہ ہمارے مَردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام کردیا گیا ہے، اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا (پیدا) ہو تو وہ (مرد اور عورتیں) سب اس میں شریک ہوتے ہیں، عن قریب وہ انہیں ان کی (من گھڑت) باتوں کی سزا دے گا، بے شک وہ بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے۔ (سور ۃ الانعام)

اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ زمانہ جہالت میں عورتوں اور مردوں کے درمیان چیزوں کی تقسیم اور لین دین کے معاملات میں نہ صرف تفریق کی جاتی، بل کہ عورت کو مرد کے مقابلے میں نسبتاً کم تر سمجھا جاتا تھا۔ یہی نہیں بل کہ عورت کی حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا جاتا تھا۔ اس لیے وہ لوگ لڑکی کے پیدا ہونے پر غصے میں ہوتے اور انہیں زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔

قرآن کریم میں ان قوموں کے اس طرزِ عمل کی عکاسی یوں کی گئی ہے، مفہوم: ’’ اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ غصے سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بُری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے) خبردار! کتنا بُرا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (سورۃ النحل )

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دورِ جاہلیت کی اس غلط رسم کو بیان فرمایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ دین اسلام نے مرد و عورت کو برابر کا مقام عطا فرمایا بل کہ عورت کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی بھی قدیم اور جدید تہذیب نے نہیں دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا۔ اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا، بل کہ اسے وراثت میں حق دار ٹھہرایا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا میں عورت کے تمام روپ اور کردار کو اپنی زبانِ مبارک سے بیان فرمایا۔ اب جس دور میں عورت ہو، جس مقام پر ہو اور اپنی حیثیت کا اندازہ کرنا چاہے تو وہ ان کرداروں کو دیکھ کر اپنی حیثیت کو پہچان سکتی ہے۔ عورتوں میں بہترین عورتیں چار ہیں، حضرت مریم بنت عمرانؑ، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ، حضرت سیدہ فاطمہ الزہراءؓ اور فرعون کی بیوی آسیہ۔ ان چار عورتوں کی طرف اشارہ فرما کر حقیقت میں چار بہترین کرداروں کی نشان دہی فرما دی گئی ہے اور وہ کردار جس سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہوئے اور اس مقام سے سرفراز فرمایا جو کسی اور کو نصیب نہ ہوا، وہ کردار کیا ہے؟ ایک ماں کا کردار حضرت مریم بنت عمرانؑ، ایک عظیم بیوی کا کردار حضرت خدیجہ الکبریٰؓ، ایک عظیم بیٹی کا کردار حضرت فاطمہ الزہراءؓ، ایک عظیم عورت کا کردار حضرت آسیہ۔ ان چاروں کرداروں پر نظر دوڑا کر ہر عورت اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنے کردار کو متعین کرسکتی ہے کہ وہ کون سی خوبیاں تھیں جنہوں نے ان ہستیوں کو خیر النساء کے لقب سے سرفراز کیا۔

محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں، وہ اچھی طرح ان کی پرورش کرے، تو یہی لڑکیاں اس کے لیے دوزخ میں آڑ بن جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے مردوں کو بار بار تاکید فرمائی کہ وہ عورتوں سے بہتر سلوک کریں۔

آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’ بہترین مسلمان، بہترین صاحب اخلاق اور اپنی بیویوں کے بہترین خاوند ہوتے ہیں۔ تم میں سے بہتر وہ ہے، جو اپنی بیویوں سے بہترین سلوک روا رکھے اور تم میں سے میں اپنی عورتوں سے بہترین سلوک روا رکھتا ہوں۔‘‘

دنیا کی بہترین نعمتوں میں سے بہترین نعمت نیک بیوی ہے ۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ عورت آپ ﷺ کے لیے قابل احترام تھی اس معاشرے میں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کر دیتے تھے رسول اکرمؐ نے انہیں جینے کا حق دیا۔ عورتوں کا تحفظ، جس طرح کیا، اس کی مثال دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام میں عورت کو وہ درجہ دیا جو آج کے جدید مغربی معاشرے میں بھی اسے حاصل نہیں۔

فرمان نبویؐ کا مفہوم ہے کہ اگر ایک عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے، تو اللہ تعالی اس عورت کو حکم دے گا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ، جس دروازے سے بھی چاہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔