ایک اور ’’عام پاکستانی‘‘ لاپتا ہوگیا!

رضوانہ قائد  جمعـء 23 فروری 2018
لگتا ہے جیسے ہم اسلام کے نام پر بننے والے ملک ’’پاکستان‘‘ میں نہیں بلکہ کسی پولیس ریاست میں رہ رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لگتا ہے جیسے ہم اسلام کے نام پر بننے والے ملک ’’پاکستان‘‘ میں نہیں بلکہ کسی پولیس ریاست میں رہ رہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’میرا بیٹا شام تک واپس آ جائے گا ناں؟‘‘ چند گھنٹوں قبل اغوا اور لاپتا ہو جانے والے بیٹے کی دکھیاری ماں کے منہ سے بار بار یہی جملہ نکل رہا تھا۔ افسوس کےلیے آنے والی خواتین انہیں مسلسل تسلیاں دے رہی تھیں مگر مامتا کا مدوجذر تھا کہ تھمنے کو ہی نہ آئے۔ کئی بار رونے کے باعث ان کی آنکھیں خشک ہونا ہی بھول گئی تھیں۔ اس ناگہانی پر گھر کا ہر فرد ہی نہایت غمناک تھا مگر بیٹے کی محرومی پر ماں کی بےقراری حقیقتاً ناقابلِ برداشت تھی۔ ان کی کیفیت بیان کرنا مشکل ہے، جیسے انتہائی قیمتی چیز یکایک ہاتھوں سے نکل جائے۔ وہ بیٹے کی واپسی کی امید کی تکرار کے ساتھ ساتھ بے ربط سے جملوں میں اپنی بپتا بھی سناتی رہیں۔

رات تقریباً تین بجے وہ لوگ گھر کا بیرونی مقفل دروازہ کسی خودکار اوزار کے ذریعے کھول کر گھر میں اچانک داخل ہوگئے۔ آنے والے تعداد میں تقریباً پچیس تھے۔ وہ دو عدد پولیس موبائل گاڑیوں، ایک ویگو اور تین کاروں میں آئے تھے۔ کچھ افراد پولیس کی وردی میں تھے اور کچھ سادہ لباس میں۔ وہ اسلحے سے لیس تھے اور چہرے ڈاکوؤں کی طرح ڈھاٹوں سے چھپا رکھے تھے۔ اچانک شور اور اس دہشت ناک منظر سے گھر کے سب افراد جاگ گئے۔ فوری طور پر چیخ و پکار مچ گئی۔

نوواردوں نے دھمکا کر خاموش کروا دیا۔ نوبیاہتا بیٹا بہو کے کمرے سمیت تمام گھر کی خوب اچھی طرح تلاشی لی۔ خودکار چابی سے ہر مقفل الماری کو کھولنے میں انہیں ذرا دیر نہ لگی۔ گھر کے تمام موبائل فونز اور لیپ ٹاپ سب سے پہلے اپنے قبضے میں لیے۔ تلاشی میں باریک بینی اتنی کہ کتابوں کے صفحات اور ہیلتھ کیئر کے آلات وغیرہ کو بھی کھول کھول کر دیکھا۔ نہ جانے انہیں کس چیز کی تلاش تھی۔

گھر والوں نے ان سے بہت منت سماجت کی کہ انہیں جو کچھ بھی مطلوب ہے اس کے بارے میں شرافت کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ تمام کارروائی قانون کے دائرے میں شریفانہ طریقے سے کریں، سب تعاون کریں گے۔ مگر وہ اپنے ایجنڈے پر بدستور عمل پیرا رہے اور ان کے نوجوان بیٹے کو اپنے قابو میں کرلیا۔ بیمار اور دہشت زدہ ماں رحم اور انصاف کےلیے ان ظالموں کے قدموں میں پڑ گئی لیکن گھر والوں اور ماں کو روتا بلکتا چھوڑ کر ان کے نوجوان لختِ جگر کو رات کی تاریکی میں اغوا کرکے لاپتا کردیا گیا!

یہ واقعہ کراچی کے علاقے نیوکراچی کا ہے جہاں کے رہائشی شرافت صدیقی کا نوجوان بیٹا عبدالغفار صدیقی اس نام نہاد پولیس ایکشن میں لاپتا کردیا گیا۔ شرافت صدیقی صاحب کا کہنا ہے کہ ان کا 27 سالہ بیٹا پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہے جبکہ اسے گرفتار کرنے والے پولیس اہلکار جن موبائلوں میں بیٹھ کر آئے تھے، وہ درخشاں تھانے کی تھیں۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ جب شرافت صدیقی صاحب اس واقعے کی رپورٹ درج کروانے نیوکراچی تھانے گئے تو وہاں کے عملے نے بھی ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔

اس تمام دہشت ناک داستان کو سن کر لگا کہ جیسے ہم سلامتی کے مذہب اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں نہیں بلکہ کسی پولیس ریاست میں ہیں۔ اگرچہ پولیس کا کام عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی ہے۔

قصور یا شبہ کسی کا بھی ہو مگر اس طرح دہشت ناک طریقے سے کسی کی پرائیویسی کو تہس نہس کرنا کہاں کا طریقہ ہے؟ بغیر وارنٹ کسی کے گھر میں رات کی تاریکی میں گھسنا اور گن پوائنٹ پر گرفتار کرکے لے جانا، کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں؟ کیا پاکستان کے قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا یہ ریاستی اور عوامی دہشت گردی نہیں؟

ہمارے پولیسنگ سسٹم کو انسانیت اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی پر شک ہو تو عدالت بلاکر ثبوت پیش کیا جائے۔ پکڑا جائے تو ضمانت پر رہا کرکے تفتیش کی جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کے نظام کی بہتری میں جدید ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جانا چاہیے۔ فیس میچنگ سسٹم کے ذریعے، کیمرے کے سامنے جاتے ہی کیمرہ تصویر لے کر تمام بایوڈیٹا کھول دیتا ہے۔ اہم راستوں، عوامی مقامات کو اس سسٹم سے مربوط کرکے مجرموں کو آسانی سے پکڑا جاسکتا ہے۔

جدید دنیا میں موبائل فونز اہم ریاستی ٹول ہیں۔ ہمارے ہاں بھی موبائل کمپنیوں کو آواز کی شناخت کے سسٹم لگانے کی حکومتی پابندی ہوجائے تو مجرم تک پہنچنا مشکل نہ رہے۔

یہ اور اسی طرح کی دیگر معاون تدبیریں اسی وقت ممکن ہیں جب حکومت عوام کی واقعی خیرخواہ ہو۔ ہمارے دوہرے اور منافقانہ نظامِ عدل کی بدصورتی ہے کہ صرف شک کی بنیاد پر عام شہریوں کو قتل کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو عام معافی مل جاتی ہے، راؤ انوار کو بھی محفوظ پناہ گاہ فراہم کردی گئی، اس لیے کہ یہ لوگ ’’خواص‘‘ ہیں۔

سلامتی کے نام پر بنے اس ملک کے ’’عام آدمی‘‘ کی سلامتی، عدل اور انصاف کےلیے پیمانے کب مساوی ہوں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔