سینیٹ انتخابات کے لیے آپشنز اہم ہیں

ایڈیٹوریل  ہفتہ 24 فروری 2018
سیاست دانوں کے پاس سینیٹ انتخابات کے خوش اسلوبی کے ساتھ انعقاد سمیت دیگر ایشوز کے حل کی اسپیس موجود ہے۔ فوٹو: فائل

سیاست دانوں کے پاس سینیٹ انتخابات کے خوش اسلوبی کے ساتھ انعقاد سمیت دیگر ایشوز کے حل کی اسپیس موجود ہے۔ فوٹو: فائل

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دیتے ہوئے پارٹی چیئرمین راجہ ظفرالحق کے جاری کردہ ن لیگ کے نئے ٹکٹ مسترد کر دیے، بادی النظر میں الیکشن کمیشن کے فیصلے سے مسلم لیگ (ن) سینیٹ انتخابات سے باہر ہو گئی ہے مگر یہ فریب نظر ہے۔

ن لیگ آزاد امیدواروں کے ساتھ میدان میں ہے، تاہم پیدا شدہ سیاسی صورتحال میڈیا کے محاذ پرسنسنی خیز ہے، جب کہ الیکشن کمیشن نے وسیع تر تناظر میں ایک معتدل، قابل عمل اور جمہوری و انتخابی راستہ نکالاہے اور بے بنیاد افواہوں، خلفشاراور تکنیکی مغالطوں پر بند باندھ دیا ہے جو اس تواتر سے پھیلائے جارہے تھے کہ عدلیہ کے نواز شریف کو پارٹی صدارت کے عہدہ سے ہٹانے کے نتیجہ میں سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے مطابق انعقاد کے بلڈوز ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے، صورتحال کی سنگینی کثیر جہتی ہے، تاہم یہ امر خوش آیند ہے کہ ملک کی بااثر سیاسی شخصیات نے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے قوم کو تلخ حقائق سے آگاہ رکھنے کا فرض بروقت ادا کیا۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ پارلیمان کی بالادستی اور پولیٹیکل اسٹرکچر خطرے میں ہے، لہذا سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے ادارہ جاتی ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا پارلیمانی بورڈ نے جو ٹکٹ جاری کیے تھے یہ ٹکٹ بھی مسترد ہوگئے ہیں۔اب پارٹی مشاورت ہوگی۔

الیکشن کمیشن نے ملکی سیاسی حالات کے سیاق وسباق میں دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے، ن لیگ کے سینیٹ ٹکٹوں کے استرداد ، امیدواروں کے بطور آزاد امیدوارلڑنے کے آئینی استحقاق کی روشنی میں ایک صائب متبادل مہیا کیا ہے جس سے نظام کو کسی قسم کے امکانی دھچکے سے بھی محفوظ رکھنے کی سعی کی ہے لیکن میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سینیٹ الیکشن لڑنے کے قانونی اور آئینی روڈ میپ کی تشکیل اور اس کے مضمرات و نتائج پر جو بحث جاری ہے اسے سیاسی اور آئینی حلقوں میں انتخابات کے انعقاد کے حوالہ سے محض زیب داستاں کے طور پر زیر بحث لانے میں بھی احتیاط لازم ہے۔

قانونی ماہرین ، میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سینیٹ انتخابات کے حوالہ سے اظہار رائے کی آزادی کو عدلیہ کی آزادی اور اس کی فعالیت سے الگ کرکے نہ دیکھا جائے، قانون کی حکمرانی نہ ہو تو  ریاست دو قدم بھی نہیں چل سکتی، اور نہ انتظامیہ اور پارلیمنٹ کا تشخص اور اس کی بالادستی کی آئینی حیثیت عملًا محفوظ رہ سکتی ہے۔

سیاست دان اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے جمہوریت مخالف ارتعاش سے سیاسی بے یقینی پیدا ہوئی اور نہ سسٹم کے لپیٹے جانے کے کسی سونامی کا جمہوری نظام کو سامنا ہوا، جو بحران ہے اسے حل کیا جاسکتا ہے، جمہوریت نے ثابت قدمی اور سیاسی بلوغت کا عندیہ دیا ہے ، جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، اگر جائز آئینی اقدامات اور قوم کے مفاد میں ترامیم لائی جائیں تو آسمان نہیں ٹوٹے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حقائق کی آنکھ سے صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔

ایک طرف الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ن)کے سابق صدر نواز شریف کی نااہلی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اہم اجلاس منعقد ہوا، اس دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چیئرمین راجہ ظفرالحق کے دستخطوں سے سینیٹ امیدواروں کے نئے ٹکٹ جاری کر دیے۔

مسلم لیگ (ن)کے سینیٹ امیدواروں کے نئے ٹکٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیے گئے تاہم الیکشن کمیشن نے انھیں مسترد کرتے ہوئے امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دیدیا جب کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں الیکشن کمیشن کے چاروں اراکین، سیکریٹری الیکشن کمیشن، چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز ڈائریکٹر جنرل لاء اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں مسلم لیگ (ن)کے سربراہ کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد کی قانونی صورتحال اور سینیٹ انتخابات پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سینیٹ انتخابات ملتوی کرنے، نیا پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے لیے مہلت دینے، امیدواروں کی قانونی حیثیت کے لیے سپریم کورٹ سے رائے لینے اور ن لیگ کے امیدواروں کا آزاد امیدوار قرار دینے جیسے 4 آپشنز پر غور کیا، یہ اہم آپشنل نکات ہیں اور جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو سینیٹ الیکشن کے سلسلہ میں ان ہی نکات پر جامع بحث اور مشاورت کے ساتھ اپنے تحفظات الیکشن کمیشن کے اجلاس میں پیش کرنا چاہئیں، یہی جمہوری طریقہ ہے۔

اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی ، الیکشن کمیشن نے قرار دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو خوش اسلوبی سے چلانے اور سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے یہ مناسب ہو گا کہ سینیٹ اور ضمنی انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں ۔سیاست دانوں کے پاس سینیٹ انتخابات کے خوش اسلوبی کے ساتھ انعقاد سمیت دیگر ایشوز کے حل کی اسپیس موجود ہے۔ وہ کشیدگی ترک کرکے متحد ہوں تو بحرانوں کا رخ موڑا جاسکتا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔