چاہ بہار بہ مقابلہ گوادر! دو مقابل منصوبے

فرحین شیخ  ہفتہ 24 فروری 2018

چین اور بھارت کی معاشی میدان میں سبقت کی دوڑ نئی تو نہیں! بھارت، چین کی برتری کو اپنے لیے ہمیشہ سے ہی خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے وہ چین کی معاشی بالادستی کا مقابلہ کرنے کے لیے عموماً عسکری طریقوں پر عمل پیرا رہتا ہے۔ چین کو شکست دینے کے دیرینہ بھارتی خواب کی لاحاصل تکمیل میں کئی طاقتیں بھی بھارت کی پیٹھ ٹھونکتی ہیں۔

اسی مخاصمت کی وجہ سے معاشی میدان میں چین کی ترقی کو بھارت نے ہمیشہ ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا،کبھی ون بیلٹ اینڈ ون روڈ منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹیں ڈالیں، توکبھی ڈوکلام میں چینی فوجیوں کے سامنے صف آراء ہو ا اور رہ گئی بات گوادر کی! تو یہاں چین کی موجودگی بھارت کو پہلے دن سے ہی بری طرح کھٹکتی ہے۔ بھارت جو خطے میں چین پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہے، اس نے گوادر میں چین کی موجودگی کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے، اس کا جواب ایران کی بندر گاہ چاہ بہار میں لنگرانداز ہوکر دیا ہے۔

بھارت اب ایران کی جنوب مغربی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے وسطی ایشیا اور افغانستان تک اپنا شکنجہ کسنا چاہتا ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ گوادر سے فقط 72 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یعنی بھارت چین کے بالکل نزدیک سفرکرتے ہوئے، اسے تنہا کوئی میدان بھی مارنے نہیں دے گا۔ ان سب باتوں کے باوجود بیجنگ اب تک نئی دہلی کو طاقتور حریف نہیں سمجھتا، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ مستقبل میں بھارت کی برتری کو چین کسی طور پر بھی قبول نہیں کرے گا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایران اور پاکستان نے خطے میں پرانی دوستیاں نبھانے کے لیے دوسروں کو اپنی سرزمین پر بے جا دسترس کا موقع دیا۔ اس طرح انھیں نہ صرف افریقا، لاطینی امریکا اور دنیا کے دیگر خطوں تک بلا روک ٹوک رسائی فراہم کردی بلکہ اپنی اپنی قومی خود مختاری بھی خطرے میں ڈالی ہے۔ جب بقا کا ان دیکھا اور ان جانا خوف لاحق ہو، تو قومیں اپنی سلامتی کی بَلی چڑھانے کے لیے جانے کیوں خوشی خوشی تیار ہوجاتی ہیں۔

بھارت کئی سال سے چاہ بہار پورٹ پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا۔ ایرانی صدرکے حالیہ دورۂ بھارت میں دونوں ممالک کے درمیان نو معاہدے طے پائے۔ ان میں یہی معاہدہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے جس کی رو سے بھارت کو اٹھارہ ماہ کے لیے چاہ بہار پورٹ کے ایک فیز ’’شاہد بہشتی‘‘ کا مکمل کنٹرول سونپ دیا گیا ہے۔2007ء میں شروع ہونے والے شاہد بہشتی پورٹ منصوبے کا ابتدائی تخمینہ ایک بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔

گزشتہ سال نومبر میں اسی راستے سے جب ایک بھارتی جہاز افغانستان کے لیے بھاری مقدار میں گندم لے کر روانہ ہوا تو ایران کے وزیر برائے سڑک اور شہری ترقی، عباس اخوند نے اس موقعے پر نیک خواہشات کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہد بہشتی پورٹ کو ایران اور بھارت دونوں مل کر آپریٹ کریں گے۔ نریندر مودی کی خواہش کے مطابق اب چاہ بہار اور ایران کے جنوب مشرقی شہر زاہدان کے درمیان پانچ سوکلومیٹر ریلوے لنک بھی تعمیر کیا جائے گا، جوکہ انتہائی متنازعہ لنک ہے، جس کے بعد بھارت کی شمال تک رسائی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔

اس سے یہ بات تو ظاہر ہے کہ بھارت نے بلاوجہ ہی تو اس منصوبے میں پانچ سو ملین ڈالرکی سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ اس کا مقصد نہ صرف دنیا تک اپنی رسائی کو یقینی بناکر تمام تر مفادات کا حصول ہے، ساتھ ہی پاکستان پر اپنی برتری کی دھاک بٹھانا اور چین کی ترقی کے سفر کو گرد آلود کرنا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی، ایرانی صدر حسن روحانی کے دورۂ بھارت کو بار آور قرار دے رہے ہیں۔

چین کی گوادر میں موجودگی سے خوفزدہ بھارت ایران پر اس معاہدے کے لیے زور ڈال رہا تھا، تاکہ جلدازجلد خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرکے چین کے مقابلے پر آسکے۔ چاہ بہار پر بھارت کی نظریں ایک عرصے سے گڑی ہوئی تھیں۔ 2003ء میں اٹل بہاری واجپائی نے سب سے پہلے اس منصوبے کے لیے آواز بلند کی تھی اور اسے بھارت کی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا تھا۔ اس دیرینہ خواب کی تکمیل آخرکار ان کے جانشینوں نے کر ہی دی۔2016ء میں بھارت، ایران اور افغانستان نے اس بندرگاہ کی ترقی کے لیے سہ فریقی مذاکرات بھی کیے تھے۔

انڈیا سے900 کلو میٹر کی دوری پر واقع ایران کی اس واحد بندرگاہ چاہ بہارکی براہ راست رسائی بحیرۂ ہند تک ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چاہ بہار اپنے محل وقوع اور اسٹریٹجک پوزیشن کے باعث خطے میں کسی بھی لمحے بازی پلٹ سکتا ہے۔ وقت کسی کے لیے بھی بے رحم ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کے خدشے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

ایران اور بھارت کے ان مشترکہ منصوبوں کا ایک بڑا مقصد جہاں مفادات کا حصول ہے، وہیں پس پردہ مقاصد میں سے ایک پاکستان کو تنہا کرنا بھی ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ جنگی اہمیت کی حامل ہے، جب کہ گوادر میں چین کا بھی ملٹری بیس موجود ہے۔ یہاں چلنے والی مرطوب ہوائیں اگر نادیدہ خطرے کی بو سونگھ رہی ہیں تو ایسا غلط بھی نہیں۔

چاہ بہار پورٹ کے منصوبے سے منسلک تینوں ممالک، ایران، افغانستان اور بھارت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خوش گوار نہیں۔ بھارت کے ساتھ تنازعات تو کس سے ڈھکے چھپے ہیں؟ لیکن ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی ہمیشہ سے گرم جوشی کا فقدان رہا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ سردمہری ضرورت سے زیادہ بھی بڑھ گئی۔ حتی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان وقتاً فوقتاً اٹھنے والے تنازعات میں ایران کا پلڑا بھارت کی طرف ہی جھکتا ہے۔ ایسے معاملات میں ایرانی میڈیا بھی بھارت کی حمایت میں سرگرم رہتا ہے۔ اس کا بڑا سبب یقیناً پاکستان کے سعودی عرب سے قریبی تعلقات ہیں۔

پاک عرب اتحاد کے سامنے اپنی قوت کے اظہار کے لیے ایران نے مصلحت کے تحت بھارت کا بڑھایا ہوا دوستی کا ہاتھ ہمیشہ تھامے رکھا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بھارت اور ایران کی دوستی یکطرفہ ہر گز نہیں، بھارت صرف ایران کا پڑوسی ہی نہیں بلکہ ایرانی تیل کا ایک بڑا خریدار بھی ہے۔

ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے دور میں بھی بھارت نے امریکا کی ناراضگی کی پروا نہ کی اور ایران سے تعلق نہ توڑا۔ لہٰذا بھارت کے افغانستان میں قدم جمانے کی خواہش کی تکمیل میں ایران نے چاہ بہار پورٹ کا کنٹرول بھارت کو دینے کا وعدہ نبھاکر دوستی کی دیوار کو مزید اونچا کردیا ہے۔ یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ ایران نے بھارت سے دوستی کے معاملے میں مکمل سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔

بھارت، اسرائیل اور سعودی عرب سے بھی قریبی تجارتی تعلقات رکھتا ہے، جب کہ ایران کے ان ممالک کے ساتھ سنگین نوعیت کے اختلافات ہیں، لیکن ایران اس حقیقت کو تسلیم کرچکا ہے کہ دہلی، تہران کی خاطر خود کو دیگر ممالک سے ملنے والے معاشی اور سیاسی فوائد سے محروم نہیں کرسکتا۔

دوسری جانب بھارت کے افغانستان کی موجودہ حکومت سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔ وہاں تعمیر نوکی خواہش لیے وہ پُرعزم ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے اب بھارت، پاکستان کی محتاجی کے بغیر افغانستان تک رسائی حاصل کر سکے گا۔ یعنی بھارت نے افغانستان تک پہنچنے کے لیے ’’ راستے کا کانٹا ‘‘ ہٹا دیا ہے۔

گزشتہ سال چاہ بہار پورٹ کے افتتاح کے وقت ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ اس پورٹ سے خطے میں مثبت مسابقت کی راہیں ہموار ہوں گی۔ ملکوں کے درمیان اتحاد اور یگانگت میں اضافہ ہوگا۔ ہونا بھی یہی چاہیے کہ بنائے جانے والے نئے منصوبے خطے میں نئی سیاسی امنگیں جگانے کا کام کریں، دوستی کے نئے پل ہموار ہوں، باہمی اعتماد اور محبت کی فضا قائم ہو، لیکن بدقسمتی سے قوموں کی جدید تاریخ، بقا کے جدید تصور سے قدرے نابلد ہے۔ پھر بھی ایک روشن صبح کی امید کو دم نہیں توڑنا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ گوادر اور چاہ بہار’’سسٹر پورٹ‘‘ ثابت ہوں اور مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا کروڑوں عوام سکھ کا سانس بھریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔