ذکر کچھ سینئر ساتھیوں کا

سردار قریشی  ہفتہ 24 فروری 2018

محمود یوسفانی ہمارے اخبار میں بطوراسسٹنٹ ایڈیٹرکام کرنے کے ساتھ ساتھ ’’گلن جہڑا بارڑا‘‘ (پھولوں جیسے بچے) کے نام سے اس کا ہفتہ وار صفحہ اور میگزین کی شکل میں ماہانہ ایڈیشن بھی تیارکرتے تھے۔ وہ ایسے لوگوں کے حالات زندگی اور انٹرویوز شایع کرنا چاہتے تھے جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے کامیابیاںسمیٹیں ، عزت کمائی اور نام پیدا کیا۔

یوسفانی نے ایسے کامیاب اور بڑے لوگوں کی جو فہرست تیارکی تھی اس میں جام صادق علی کا نام بھی شامل تھا جو اس زمانے میں سندھ کے وزیر بلدیات ہوا کرتے تھے۔ ان کا اصل روپ تو بہت بعد میں وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سامنے آیا تھا لیکن وہ اْس وقت بھی کچھ کم نہیں تھے۔ سارا کراچی بیچ کرکھا جانے سمیت طرح طرح کی باتیں ان کے بارے میں مشہور تھیں، سندھ اسمبلی میں بھی یہی جام صادق ہوتے تھے جن کی ایک جھلک دیکھ کر حزب اختلاف کے لیڈر شاہ فرید الحق غصے سے کانپنے لگتے تھے اور ظہور الحسن بھوپالی تو وہ اچھل کود مچاتے تھے کہ خدا کی پناہ۔

اسپیکر خان بہادر غلام رسول کیہر کو منت سماجت کرکے جام صادق کو منانا پڑتا تھا تب کہیں جاکر اپوزیشن کی جان میں جان آتی تھی۔ الغرض حکومت اور اسمبلی کی ساری رونق انھی کے دم سے تھی جو ویسے بھی مرنجاں مرنج طبیعت اور نوابی مزاج کے آدمی تھے، اسمبلی بلڈنگ میں ان کے دفتر پر شاہی دربارکا گمان ہوتا تھا۔

جام صادق نے انٹرویو کے لیے بہت مشکل سے وقت دیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی طرح بڑے اورکامیاب لوگوں کے معیار پر پورے نہیں اترتے سو ان کے بارے میں جان کر بچوں کو کیا خاک انسپائریشن ملے گی۔ انھوں نے یوسفانی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی فہرست سے ان کا نام ڈراپ کرکے کسی ایسے آدمی کو شامل کریں جو واقعی بچوں کا آئیڈیل بننے کے لائق ہو، لیکن وہ اس کو ان کی کسر نفسی سمجھ کر انٹرویوکرنے پر بضد رہے، جب وہ کسی بھی طرح نہ مانے تو جام صادق اس شرط پر انٹرویو دینے کے لیے تیار ہوگئے کہ ان کی کہی ہوئی کوئی بھی بات ایڈٹ نہیں کی جائے گی۔

یوسفانی نے فوٹو گرافر ظفر احمد کو ساتھ لے کر جانا تھا، اسے لینے ایشیا ہوٹل پہنچے توکمرہ بند پاکر پریس کلب آنکلے کہ ظفر کا دوسرا ٹھکانہ وہی تھا، لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھا البتہ میں اوپر لائبریری میں موجود تھا، کہنے لگے ظفرکو پتہ ہے کہ آج جام صادق کا انٹرویو کرنا ہے سو خود ہی آجائے گا، تمہیں اگر کوئی دوسرا کام نہیں ہے تو میرے ساتھ چلو، ایک سے دو بھلے کے مصداق ملکر انٹرویو کریں گے۔ قصہ مختصر میں ان کے ساتھ چلا گیا، جام صادق اس وقت بھی دربار لگائے بیٹھے تھے، یوسفانی نے صحیح اندازہ لگایا تھا، ظفر پہلے سے پہنچا ہوا تھا۔

جام صادق اپنے ملاقاتیوں سے معذرت کرکے ہمارے ساتھ ایک طرف ہوکر بیٹھے اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا، اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتاتے ہوئے بولے۔ ’’میرے والد جام کانبھو خان سچ مچ کے نواب تھے اور میں ان کا بگڑا ہوا بیٹا، اسکول کا منہ کبھی نہیں دیکھا، سارا دن آوارہ دوستوں کے ساتھ کھوتیاں دوڑانے میں گزرتا تھا، پڑھانے کے لیے جو اساتذہ مقرر تھے ان کی شکل اس دن دیکھنے کو ملتی تھی جب والد صاحب انھیں یہ پوچھنے کے لیے شرف ملاقات بخشتے تھے کہ ہماری پڑھائی کیسی جارہی ہے، وہ بیچارے وہی جواب دیتے جو ہم نے انھیں رٹایا ہوا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کھوتیوں کے ساتھ انھیں بھی دوڑنا پڑے گا ۔‘‘

جام صادق نے حلق ترکرنے کے لیے پانی کا گلاس اٹھایا تو یوسفانی بولے ’’جام صاحب مذاق بہت ہو گیا، مہربانی کر کے سنجیدہ ہوجائیے۔‘‘ اتنا سننا تھا کہ جام صادق ایک دم طیش میں آگئے ’’بولے میں تم سے مذاق کیوں کروں گا، میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ میرے پاس بتانے کے لیے ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے بچوں کو انسپائریشن ملے، لیکن تم نہیں مانے اور آگئے انٹرویو کرنے، اب اگر چھاپ سکتے ہو تو چھاپو وہ سب کچھ جو میں کہہ رہا ہوں۔‘‘

یوسفانی نے کہا ’’اگر ایسی بات ہے تو ہم واپس چلے جاتے ہیں‘‘ اور یوں ہم جام صادق کا انٹرویوکیے بغیر لوٹ آئے۔ اس کے بعد یہ یوسفانی کی چڑ بن گئی، میں انھیں چھیڑنے کے لیے پوچھتا وہ جام صادق نے کھوتیاں دوڑانے کی کیا بات کہی تھی تو وہ لگتے انھیں گالیاں بکنے اور کہتے(—) وزیر بن گیا ہے اور بات کرنے کی تمیز نہیں۔

ہمارے ایک دوسرے بزرگ ساتھی گرداس وادھوانی تھے جن کا پورا خاندان تقسیم کے بعد انڈیا نقل مکانی کرگیا تھا لیکن انھوں نے سندھ دھرتی کو چھوڑنا پسند نہیں کیا اور ساری زندگی یہاں تن تنہا گزار دی، پہلے ریگل کے پاس میزبان ہوٹل میں رہتے تھے پھر جب زیادہ ضعیف ہوگئے تو پریس کلب کے فراہم کردہ کوارٹر میں منتقل ہوگئے، ان کی ارتھی بھی وہیں سے اٹھی تھی۔ اپنی یادداشتوں پر مبنی کالم لکھا کرتے تھے اور بلاناغہ روز دفتر آتے تھے۔

ایک دن بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ کسی نے پوچھا لوگ کیوں کہتے ہیں کہ اخبارات کی خبریں جھوٹی اور غلط ہوتی ہیں، بولے اس لیے کہ اب اسپاٹ رپورٹنگ نہیں کی جاتی، پہلے کچھ ہوتا تھا تو رپورٹر موقعے پر پہنچتا تھا اور اخبار میں وہی چھپتا تھا جو ہوا ہوتا تھا، تب کوئی اخبارات کو جھوٹا نہیں کہتا تھا، آج کل رپورٹر موقع پر جانے کے بجائے تھانے کو فون کرکے خبر لیتے ہیں جو اکثر و بیشتر حقائق کے برعکس ہوتی ہے۔

گرداس وادھوانی جنھیں سب ’’کاکا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، خان بہادر ایوب کھوڑو کی گرفتاری کا قصہ بھی سنایا کرتے تھے جس کی اسپاٹ رپورٹنگ کرنے کے لیے انھیں پورے 48 گھنٹے بھوکا پیاسا رہ کر ان کی کوٹھی کی نگرانی کرنی پڑی تھی۔

انھی کی طرح ہمارے ایک اور سینئر ساتھی عبدالکریم سعدی تھے جو قیام پاکستان سے قبل اخبار کے اجرا کے وقت اس کے ایڈیٹر بھی رہ چکے تھے، ڈارک گلاسز لگا کر اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے سو رہے ہوتے تھے۔ جھاتیوں (تاک جھانک) کے عنوان سے کالم لکھتے تھے جو ہم میں سے تو کسی نے کبھی نہیں پڑھا لیکن پسندیدگی کے اعتبار سے ہمیشہ دوسرے سب کالموں پر سبقت لیجاتا تھا، اس میں زیادہ تر دیہاتی بھائیوں کے بھیجے ہوئے لطیفے، چٹکلے اور پہیلیاں ہوتی تھیں جو ان کے نام کے ساتھ چھپتی تھیں۔

وہ لوگ ظاہر ہے اخبار بھی خریدتے تھے، یوں ان کا کالم اخبار کی سرکیولیشن بڑھانے میں بھی مددگار مانا جاتا تھا لیکن اس کے معیارکا عالم یہ تھا کہ ایک بارجب وہ حسب معمول بیٹھے اونگھ رہے تھے کسی کے زور سے ہنسنے پر ہڑبڑا کر جاگے اور بنتے ہوئے پوچھا ’’کوئی بتائے گا پاکستان کا قومی جانور کونسا ہے؟ رپورٹر جی این مغل نے، جس کی اپنے چیف رپورٹر عمرالدین بیدار سے نہیں بنتی تھی، مذاقاً کہہ دیا کہ آپ کے ساتھ والی میز پر بیٹھا تو ہے۔ اگلے دن شایع ہونے والے ان کے کالم میں پاکستان کے قومی جانورکا نام عمرالدین بیدار درج تھا۔

ہاشم میمن بھی ہمارے سینئر ساتھیوں میں سے ایک تھے،سراج میمن کے جانے کے بعد کچھ عرصہ ہمارے ایڈیٹر بھی رہے، ورکرز یونین میں میری سرگرمیاں انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں،کسی نہ کسی بہانے ہر دوسرے تیسرے دن مجھے شوکاز نوٹس دینا اور ایکس پلینیشن کال کرنا ان کا معمول تھا، سمجھتے تھے اس طرح مجھے ٹارچر کررہے ہیں۔ وقت بدلا اورمیں ایڈیٹر بنا تو پریشان ہوگئے ،انھیں خدشہ تھا کہ میں ان سے گن گن کر بدلے لوں گا، سو موقع پاکر میرے کمرے میں آئے اور بیٹھتے ہی بولے ’’میں دل کا مریض ہوں، اذیت نہیں جھیل سکتا، چاہو تو میں مستعفی ہونے کو بھی تیار ہوں۔‘‘

میں نے انھیں تسلی دی اور صرف اتنا کہا کہ ’’بد قسمتی سے میں میمن نہیں ہوں۔‘‘ اس کے بعد میں جتنا عرصہ ایڈیٹر رہا وہ اداریہ نویس کے طور پرکام کرتے تھے اور ہمارے درمیان کبھی کوئی ان بن نہیں ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔