غلام للکار اور دھاڑ رہے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 24 فروری 2018

سقراط نے کہا تھا ’’وہ ریاست کبھی برقرار نہیں رہتی جہاں جب کسی کو سزا سنائی جائے تو وہ نافذالعمل نہ ہوسکے‘‘سزائے موت کی تجویز منتخب ہونے کے بعد سقراط کو سزا کے دن تک جیل میں بھیجنے کا فیصلہ ہوا، چنانچہ اس کو جیل بھیج دیا گیا۔ جب وہ قید میں گیا تو اس کے عقیدت مند بہت دکھ اور تکلیف میں تھے کیونکہ وہ اسے اس حال میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔

انھوں نے سقراط کو جیل سے فرار ہونے کی پیشکش کی جس کو سقراط نے مسترد کردیا اور اس کی وجوہات یہ بتائیں (1) اگر لو گ عدالتی فیصلوں کو تسلیم نہیں کریں گے تو کوئی ریاست نہیں چلے گی۔(2) ان ہی قوانین کے سہارے اس نے بچپن سے بڑھا پے کا سفرطے کیا ہے جس کی وجہ سے اس پر اب یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان قوانین کی اطاعت کرے۔ اس نے کہا تھا کہ ایک شہری کو جوکہ اپنے ملکی قوانین کے تحت زندگی گزارتا ہے ایک ایسی عدالت کے فیصلے کو جس کی آئینی وقانونی تشکیل پر اسے کبھی اعتراض نہیں رہا ہر صورت میں ماننا ہوگا۔

یہ اس شخص کے نظریات تھے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آج تک اس سے زیادہ ذہین آدمی پیدا ہی نہیں ہوا، لیکن جب ہم دوسری طرف نگاہ اٹھا کردیکھتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ انسان اپنے فائدے اور نقصان کی خاطر ریاست تک کو داؤ پر لگانے کو تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو ریاست سے بھی زیادہ اہم اور قیمتی سمجھ بیٹھتے ہیں۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، ان میں عقل کی کمی ہوتی ہے یا وہ نرگسیت کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آئیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسان ترقی کرتا کرتا جنگل سے شہر میں آبسا اور سماجی جانورکہلانے لگا لیکن طاقت، دولت، بھوک اور خواہشوں کے کھیل میں وہ ہمیشہ واپس جنگلی جانور بن جاتا ہے جو اپنے علاوہ کسی اورکو برداشت ہی نہیں کرتا۔ آخر میں وہ اس حد تک چلا جاتا ہے کہ اسے اپنے آپ سے وحشت ہونے لگتی ہے۔

یہ وہ واحد کھیل ہے جس میں انسان جیت کے علاوہ سب کچھ حاصل کرلیتا ہے اور آہستہ آہستہ ہارتا چلاجاتا ہے۔ اسے اپنی ہارکا علم اس وقت ہوتا ہے جب وہ تنہا رہ جاتا ہے تنہا ہونا یہ نہیں ہوتا کہ آپ کے پاس کوئی نہیں ہوتا بلکہ تنہاہونا دراصل یہ ہوتا ہے کہ سب آپ کے پاس ہوتے ہیں لیکن آپ کاکوئی نہیں ہوتا ہے حتیٰ کہ آپ بھی اپنے نہیں رہتے ہیں۔ پھر طاقت ، دولت ، بھوک اور خواہشوں کے غلام ہوجاتے ہیں۔

آپ اگر اپنے سماج پر نظریں دوڑائیں تو آپ کو چھوٹے بڑے ہزاروں غلام با آسانی نظر آجائیں گے جو بظاہر اپنے آپ کو آقا سمجھ رہے ہیں۔ آقاؤں جیسی حرکات ، سکنا ت اور اداکاری کر رہے ہیں لیکن ہیں اصل میں غلام ہی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ان جیسے اور چھوٹے چھوٹے غلام ان آقاؤں کی جو کہ اصل میں ان ہی جیسے غلام ہیں غلامی میں مصروف ہیں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سب غلام ایک دو سرے کو دھوکا اور فریب دینے میں مست ہیں غلاموں کی یہ چھوٹی سی فوج اپنے آپ کو ہر قانونی ، آئین اور ریاست سے بالا ترسمجھی بیٹھی ہے اور سب سے مزے کی بات جب لگتی ہے جب یہ غلام للکار رہے ہوتے ہیں اورد ھاڑ رہے ہوتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیرکہ وہ سب کے سب تنہا ہیں انسان دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں بس یہ ہی حقیقت اور سچائی ہے دوسری جانب ریاستیں قائم و دائم رہتی ہیں ان کی شکلیں بدل سکتی ہیں لیکن وہ ہمیشہ حقیقت اور سچائی ہی رہتی ہیں جب سے ریاستوں کا وجود عمل میں آیا ہے اسی وقت سے انھیں چلانے کے لیے قانون بھی وجود میں آیا ہے کوئی بھی ریاست قانون اور آئین کے بغیر چل ہی نہیں سکتی ہے۔

آج دنیا بھرکے دانشور ٹھوس انداز میں بر ملا کہتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی ہی سب کے لیے بہتر ہے مغربی ممالک میں یہ تصور مکمل طورپر تسلیم شدہ ہے اس کو سب سے پہلے ڈیکلر یشن آف ڈیموکریٹک ویلیوز میں شامل کیاگیا جسے دنیا کی سات بڑی صنعتی جمہوریتوں کے سربراہوں کی طرف سے جاری کیاگیا یہ اعلامیہ کہتا ہے ’’ ہم قانون کی حکمرانی میں یقین رکھتے ہیں جوکسی خوف یا لالچ کے بغیر ہر شہری کے حقوق اور آزادیوں کا نہ صرف احترام کرتی ہے بلکہ ان کا تحفظ کرتی ہے او وہ ماحول مہیا کرتی ہے جس میں انسانی روح آزادی اورتنوع کے ساتھ بالیدگی حاصل کرتی ہے ‘‘ امریکی حکمرانوں کا کہنا ہے ’’ امریکا ہمیشہ انسانی عظمت ووقارکے ناقابل بحث مطالبہ ’’ قانون کی حکمرانی کے لیے ڈتا رہے گا ‘‘ جب کہ چینی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ ’’ وہ قانون کی حکمرانی کے قیام کی حمایت کرتے ہیں ‘‘۔

صدر جیانن زی من نے قانون کی حکمرانی کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں بھی اس بات کا اعادہ کیا ان کے جانشین ہوجنتاؤ نے اپنے انتخاب کے بعد کہا ’’ ہمیں قانون کی حکمرانی پر مبنی نظام استوارکرنا ہوگا تاکہ ہماری امیدیں محض کسی شخصیت سے وابستہ نہ رہیں‘‘ انڈونیشیا کے صدر عبدالرحمن واحد نے اقتدار میں آنے کے سات ماہ بعد کہا تھا ’’ہماری بڑی بڑی کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی کا آغازکررہے ہیں ‘‘ میکسیکو کے صدر وائی سینٹ فاکس کیسا ڈا نے کہا تھا کہ ’’ قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہی میکسیکوکے عوام کی سب سے بڑی پریشانی ہے ‘‘ افلاطون کا اصرار تھا کہ حکومت کوقانون کا پابند ہوناچاہیے۔ پہلی صدی قبل مسیح میں سسرو اپنی کتاب The Republic میں ایسے بادشاہ کی مذمت کرتا ہے جو قانون کی پاسداری نہیں کرتا اور مطلق العنان بن جاتا ہے وہ اسے انتہائی متعفن اور نفرت انگیز مخلوق قرار دیتا ہے۔

آج پوری دنیا ’’ قانون کی حکمرانی ‘‘ پر متفق ہوچکی ہے اور تقریباً پوری دنیا پر قانون کی حکمرانی قائم ہوگئی ہے لیکن جب ہم اپنے ملک میں غلاموں کی ایک چھوٹی سی ٹولی کو ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے بجائے اپنی حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کرتے دیکھتے ہیں تو پھر اپنا سر پیٹنے کو چاہتا ہے ۔ یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ آیاان میں عقل کی کمی ہے یا پھر یہ سب نرگسیت کے مریض ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔