بیرون ملک سے کالا دھن لانے کے جتن

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 24 فروری 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

’’ناقابل وضاحت دولت‘‘ کا قانون برطانیہ میں نافذ ہوگیا ہے اور اس پر عمل در آمد بھی شروع ہوگیا ہے۔ برطانیہ کے بعد پاکستان میں بھی کرپشن کی دولت واپس لانے کے لیے ایک کمیٹی سپریم کورٹ کی زیر سرپرستی بنادی گئی ہے جو سوئس اکاؤنٹس اور بیرون ملک ناجائز دولت لانے کے لیے کام کرے گی ۔

پاناما لیکس میں شامل 10 ’’کاریگروں‘‘ کو نوٹس دے دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہاہے کہ بیرون ملک رکھی گئی دولت واپس لائی گئی تو پاکستان کا قرضہ ختم ہوجائے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہاہے کہ اس سلسلے میں سوئزر لینڈ سے معاہدہ ہوگیا ہے جس کی توثیق کا انتظار ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے جس میں چیئرمین ایف بی آر اور سیکریٹری خزانہ شامل ہیں۔ کمیٹی ایک ہفتے میں بیرون ملک سے رقم لانے کے حوالے سے گائیڈ لائن فراہم کرے گی۔ کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی ادارے سے معلومات حاصل کرسکے گی۔

عدالت نے پاناما لیکس میں شامل 10 افراد کو اس حوالے سے نوٹس دے کر انھیں اگلی سماعت پر طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاہے کہ بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے بیرون ملک اکاؤنٹس کھولے ہوئے ہیں اور املاک بنا رکھی ہے۔ بیرون ملک دولت لے جانے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو غیر قانونی طریقوں سے دولت باہر لے گئے ہیں۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہاہے کہ جرمنی اور سوئزر لینڈ سے اس حوالے سے معلومات حاصل کی جائیں۔ بھارت نے بھی سوئزر لینڈ سے معلومات حاصل کی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے باہر بھیجی گئی رقم واپس لائی جائے۔

پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد ساری دنیا میں کرپشن کے خلاف مہم کا آغاز ہوگیا ہے۔ ہر ملک کی با اثر اشرافیہ نے کرپشن کے ذریعے اربوں روپے کمائے ہیں اور انھیں بیرون ملک بینکوں میں جمع کر رکھا ہے اور اس کالے دھند سے اربوں ڈالر کی جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ یہ اربوں ڈالر غریب اور محنت کش لوگوں کی رات دن کی محنت کی کمائی ہے جو اشرافیہ غیر قانونی طریقوں سے حاصل کرکے عیش وعشرت کی زندگی گزارتی ہے۔

یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ بیرون ملک سے پیسہ واپس لانے والی کمیٹی نے پاناما لیکس کے مجرموں میں سے دس کو نوٹس دے کر عدالت میں طلب کرلیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاناما لیکس میں صرف دس ہی لوگ شامل ہیں؟

میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاناما لیکس کے مرتکبین کی تعداد 435 ہے۔ 435 میں سے ابھی صرف دس کو نوٹس دیے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی 425 افراد ایسے ہیں جنھیں نوٹس دینا ہے اس حوالے سے ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے کہ پاناما لیکس کے تمام پاکستانی مرتکبین کو تسلسل کے ساتھ قانون کے شکنجے میں لایاجائے اور بلا امتیاز ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔

برطانیہ سمیت کئی ملکوں میں کرپشن کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہو رہا ہے۔ ہمارے ترقی یافتہ ملک دنیا کے غریب ملکوں کی غربت دور کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرتے ہیں اس امداد کا بڑا حصہ بھی کرپشن کی زد میں آجاتا ہے اگر دنیا سے کرپشن کا خاتمہ کردیاجائے تو غربت کا ویسے ہی خاتمہ ہوجائے گا۔ کیونکہ غریبوں کی غربت کا سب سے بڑا سبب بھاری کرپشن ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ملکوں میں کرپشن قومی جسم میں خون کی طرح دوڑتی رہتی ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے کرپشن کا مکمل خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے جرائم کو چھپانے اور ان کی پردہ پوشی کے لیے جمہوریت کا ایک خوشنما بت کھڑا کردیا ہے جس کے پردے میں کرپشن کی بھی جاتی ہے اور کرپشن کو بچانے کے لیے اسی سرمایہ دارانہ جمہوریت کو استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

کرپٹ اشرافیہ نے اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے جمہوریت کا استعمال شروع کردیا ہے اور اہل فکر، اہل دانش حیرت سے جمہوریت کے اس مجرمانہ استعمال کو دیکھ رہے ہیں اور زبان کھولنے کی جرأت اس لیے نہیں کرسکتے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اوتاروں نے جمہوریت جہاں عوام کو دھوکا دینے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنی ہوئی ہے وہیں بڑی اشرافیہ کے لیے ایک ایسی ڈھال بھی بن گئی ہے جس پر نہ کسی تلوار کا کوئی اثر ہوتا ہے نہ کسی گولی کا۔ ہماری سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی اشرافیہ کے لیے ایک ایسی بلٹ پروف گاڑی بن گئی ہے جس پر کسی اپوزیشن، کسی قانون کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

یہ سارے عیارانہ تماشے عوام کے ساتھ اہل خرد، اہل دانش بھی دیکھ رہے ہیں لیکن اس عیارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اس کی رکھوالی اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی ماں اپنے اکلوتے بچے کی کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بطن سے پیدا ہونے والی اس جمہوریت کے کپڑے پاناما لیکس جیسی تنظیمیں اتار رہی ہیں اور اس جمہوریت کا ننگا بدن دیکھ کر اہل خرد کو گھن آرہی ہے لیکن اس کے تقدس میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔

یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہماری  عدلیہ نے بیرون ملک سے لوٹا ہوا پیسہ لانے کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بنادی ہے لیکن اندرون ملک اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپوں کی لوٹ مار جاری ہے اس کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ڈھائی کھرب روپے بینکوں سے قرض لے کر معاف کرالیا گیا یہ کیس عدالت تک گیا لیکن اس کے خلاف اب تک غالباً کارروائی اس لیے نہیں ہوسکی کہ یہ ڈھائی کھرب کا قرض لے کر ہڑپ کرجانے والے با اثر لوگ ہیں ۔ کہاجا رہا ہے کہ 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں جن کے مالک پاکستانی ہیں کیا یہ پاکستانی مزدور ہیں، کسان ہیں، مڈل کلاس ہیں، صحافی ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں، فنکار ہیں؟

جب سے عدلیہ نے اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف ڈنڈا اٹھایا ہے اہل سیاست، اہل جمہوریت چیخ رہے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن اورکھلی لوٹ مارکو روکنا کس ادارے کی ذمے داری ہے؟ کیا وہ ادارہ یا ادارے اپنی ذمے داری پوری کررہے ہیں۔ کیا بھاری کرپشن کو روکنا جن اداروں کی ذمے داری ہے وہ ادارے اپنی ذمے داری پوری کررہے ہیں؟ اگر ذمے دار ادارے اپنے دائرۂ کار کے اندر کی ذمے داریاں پوری نہیں کریںگے تو کسی نہ کسی ادارے کو یہ ذمے داری تو پوری کرنا پڑے گا نا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ چوکیدار ہی چوری کا ارتکاب کرے تو پھر کس پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک کے چور اس قدر سیانے ہیں کہ چوری بھی کرتے ہیں اور چور آیا چور آیا کا شور بھی مچاتے ہیں ایسے سیانے چوروں کے خلاف ڈنڈا اٹھانا بھی بڑے دل گردے کا کام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔