پارلیمنٹ کی بالادستی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 24 فروری 2018
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ہمیں چور ، ڈاکو اور مافیا کہا جاتا ہے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق نہیں، معزز ایوان اس صورتحال پر غورکرے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دھیمے لہجے میں تقریرکرتے ہوئے ایک بنیادی سوال منتخب اراکین کے سامنے پیش کردیا۔ چیف جسٹس کا ارشاد ہے کہ سب سے مقدس آئین ہے جس کے سب تابع ہیں۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سال پاناما لیکس مقدمے میں وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور شریف خاندان کے خلاف مقدمہ نیب عدالت میں بھیج دیا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی نگرانی کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل ایکٹوازم کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

معزز عدالت نے پانی، ملاوٹ ، خواتین کے خلاف جرائم، ماورائے عدالت قتل، میڈیکل اور قانون کی تعلیم دینے والے اداروں کی حالت زار، بینکوں کی ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن نہ دینے، میڈیا ہاؤسزکی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سمیت اہم مسائل کی سماعت کی۔ معزز چیف جسٹس نے قیدیوں کے اسپتالوں میں داخلے اور شاہ زیب ملزم کی دیت آرڈیننس کے تحت رہائی جیسے مقدمات میں مداخلت کی اور پھر اسپتالوں کے دوروں پر نکل گئے۔

اس کے ساتھ ہی نادیدہ قوتوں کی بلوچستان  حکومت کی تبدیلی ، ایم کیو ایم میں توڑ پھوڑ اور فیض آباد دھرنے میں کردار کے بارے میں سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں زور پکڑ گئیں۔ مقتدرہ سے توانائی حاصل کرنے والے سیاسی مبصرین نے ٹی وی ٹاک شوز میں آئین سے ماورا اقدامات، ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے قیام اور انتخابات کے غیر معینہ مدت تک التواء کی پیشگوئیاں کرنی شروع کیں۔ اگرچہ سینیٹ کے انتخابات کے تمام مراحل پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں اور موجودہ حکومت کی 11مئی 2018ء کو آئینی میعاد ختم ہوجائے گی ۔

پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی ایک ایسا خواب ہے جو گزشتہ 70 برسوں سے محض خواب ہی ہے۔ 1973ء کے آئین کے تحت انتظامیہ، پارلیمنٹ اور عدلیہ ریاست کے بنیادی ستون ہیں اور پارلیمنٹ کو تمام اداروں پر بالادستی حاصل ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے موجودہ آئین تیار کیا۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں پارلیمنٹ کو تمام اداروں پر بالادستی حاصل تھی مگر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو (سرحد) خیبرپختون خواہ اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومتوں کی وجہ سے رکاوٹیں تھیں، یوں بھٹو صاحب نے نیپ اور جے یو آئی کی حکومتوں کو برطرف کیا۔ عوامی نمایندوں کی بے توقیری سے پارلیمنٹ کی حرمت پر حرف آیا اور پھر خود بھٹو حکومت مقتدرہ کے دباؤ کا شکار ہوگئی۔

ضیاء الحق نے جب وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور قومی اسمبلی کے منتخب اراکین کے دباؤ پر مارشل لاء کا خاتمہ کیا تو آئین میں آٹھویں ترمیم کی۔ اس آٹھویں ترمیم میں ایک شق 58(2)B شامل کی گئی جس کے تحت صدر کو منتخب حکومتوں کی برطرفی کا اختیار حاصل ہوا، یوں پارلیمنٹ ایک طرح سے صدرکے سامنے سرنگوں ہوگئی۔ ضیاء الحق نے اس ترمیم کے ذریعے محمد خان جونیجو حکومت کو برطرف کیا۔ سابق صدر غلام اسحق خان نے پہلے وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور پھر میاں نواز شریف کی حکومتوں کو رخصت کیا۔

سپریم کورٹ نے بے نظیر بھٹو حکومت کی برطرفی کو درست اور قانونی اقدام قرار دیا۔ پھر میاں نواز شریف حکومت کی برطرفی کو غیر قانونی کہا گیا۔ ویسے تو صدر غلام اسحق خان نے ان حکومتوں پر بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے مگر دراصل غلام اسحق خان ان دونوں حکومتوں کی آزاد خارجہ پالیسی اور خاص طور پر بھارت سے دوستی، امریکا سے ایٹمی پروگرام پر بات چیت کی پالیسی کی وجہ سے ناراض تھے۔

بابائے بیوروکریٹ کو زیادہ شکوہ میاں نواز شریف سے تھا جو 1988ء سے غلام اسحق خان کی سرپرستی میں کامیابی حاصل کرتے آئے تھے مگر اب بنیادی پالیسیوں پر خود فیصلے کررہے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی تیسری حکومت کو ان کے اپنے نامزد کردہ صدر فاروق لغاری نے بدعنوانی اورکراچی میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات کی آڑ میں برطرف کیا۔ سپریم کورٹ نے ایک دفعہ پھر صدر فاروق لغاری کے فیصلے کو قانونی قرار دیا تھا۔

میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے دوسری دفعہ وزیر اعظم بنے۔ انھوں نے بے نظیر بھٹو سے مفاہمت کی اور آئین میں کی گئی شق 58(2)Bکو ختم کردیا۔ اب 1977ء کے بعد ایک دفعہ پھر پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہوگئی۔ جب صدر مشرف نے 2002ء میں عام انتخابات کرائے تو عبوری آئینی حکم کے ذریعے شق 58(2)B کو بحال کردیا گیا۔ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے صدر مشرف کے مواخذے کی تحریک پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا جس پر پرویز مشرف خود مستعفی ہوگئے اور آصف زرداری صدر منتخب ہوگئے۔

پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے آئین میں اٹھارویں ترمیم منظورکی جس کی بناء پر صدر کا اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم ہوا اور صوبوں کو ملک کی تاریخ میں پہلی بار صوبائی خودمختاری حاصل ہوئی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی اور وزراء کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کو یقینی بنایا۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مختلف امور پر پارلیمانی کمیٹیاں قائم کیں جنہوں نے قانون سازی کے علاوہ مختلف وزارتوں کے احتساب کا عمل شروع کیا۔ پہلی دفعہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ قائد حزب اختلاف کو بنانے پر اتفاق ہوا مگر چیف جسٹس افتخار چوہدری کے جوڈیشل ایکٹوازم نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو مفلوج کردیا ۔ آصف علی زرداری سمیت وزیر اعظم اور وزراء کے اثاثوں اور بدعنوانی کے اسکینڈل اور حکومت کے ہر فیصلے پر جسٹس چوہدری کے ازخود نوٹس نے پارلیمنٹ کی حیثیت کو محدود کیا۔

سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے سوئز بینکوں میں خفیہ اکاؤنٹس کی تحقیقات کے معاملے پر وفاقی حکومت کو مفلوج کردیا۔ صدر زرداری سے وفاداری نبھانے پر یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا ہوئی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اہم اداروں کے سربراہوں کی تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیا۔

آئین میں کی گئی اٹھارویں ترمیم کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کے لیے عدالتی کمیشن کے علاوہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کی منظوری قانونی طور پر لازمی تھی مگر جسٹس افتخار نے ایک فیصلے کے ذریعے اس آئینی شق کو بے اثرکردیا۔ میاں نواز شریف اس دوران جسٹس افتخار چوہدری کے ہم نوا بن گئے۔ ان کے قریبی ساتھی خواجہ آصف نے براہِ راست سپریم کورٹ سے گیلانی حکومت کے متعدد فیصلوں کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے رجوع کیا اور جسٹس افتخار چوہدری نے فوری سماعت کے بعد حکم امتناعی جاری کیے۔

میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کو اہمیت نہیں دی۔ میاں صاحب نے قومی اسمبلی کے گنتی کے اجلاسوں میں شرکت کی۔ وہ اپنے وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت پر آمادہ نہیں کر سکے۔ جب پاناما اسکینڈل پر شور مچا تو پیپلز پارٹی نے تجویز پیش کی کہ پارلیمنٹ اس مسئلے پر کمیٹی بنا کر تحقیقات کرے مگر میاں نواز شریف نے اس تجویز پر توجہ نہیں دی اور سپریم کورٹ چلے گئے۔

اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج صاحبان کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے کلچر اور بدترین طرز حکومت کی بناء پر عام آدمی کا مفاد جوڈیشل ایکٹوازم میں ہی پوشیدہ ہے۔ جمہوریت کی ملکہ برطانیہ کو کہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں 12ویں صدی میں میگنا کارٹا معاہدے کے بعد پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی قائم ہوئی جس کی  بناء پر برطانیہ جمہوریت کی سب سے بڑی یونیورسٹی بن گئی۔

جسٹس ثاقب نثار کی یہ بات درست ہے کہ آئین سب سے سپریم ہے اور آئین کی بالادستی ہر ادارہ پر لازم ہے لیکن پاکستان میں ابھی جمہوری عمل اتنا مضبوط نہیں ہوا کہ اس بات پر بحث کی جائے کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی خدوخال کو تبدیل کرسکتی ہے مگر سپریم کورٹ نے کئی دفعہ ایسی آئینی ترامیم اور قوانین کو منسوخ کیا جو آئین سے متصادم تھے۔بعض فیصلوں سے سیاسی بے چینی بڑھتی ہے اور جمہوری نظام کے عدم استحکام کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

انسانی حقوق کی عظیم کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ آئین میں ترمیم اور قوانین کی منظوری پارلیمنٹ کا کام ہے، اگرکسی قانون میں ابہام ہے تو اس کو بہتر بنانے کی ذمے داری پارلیمنٹ کی ہے۔ عاصمہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ توہین عدالت کے مقدمات میں معزز ججوں کو آزادئ اظہار کے بنیادی حق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

اس ضمن میں عدالت کے لیے برداشت سب سے مؤثر ہتھیار ہوسکتا ہے۔ تمام ادارے پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کریں اور پارلیمنٹ کے اراکین شفافیت کو یقینی بنانے والی روایات پر عمل پیرا ہوں تو ہی جمہوری نظام مستحکم ہوگا جس کا ثمر عوام کو ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔