یہ ہے پاکستانی کیلنڈر۔۔۔

زاہد نثار  اتوار 25 فروری 2018
غلام عباس چغتائی اپنی کاوش کو قومی کیلنڈر کا درجہ دلوانے کے لیے کوشاں ۔  فوٹو : فائل

غلام عباس چغتائی اپنی کاوش کو قومی کیلنڈر کا درجہ دلوانے کے لیے کوشاں ۔ فوٹو : فائل

قرآن مجید میں سورہ 10 آیت 5 کے مطابق،’’وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کردیں، تاکہ تم اس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بامقصد ہی بنایا ہے وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔‘‘ اسی بنیاد پر تاریخ کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب انسان نے سورج کی مختلف حالتوں اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کا مشاہدہ کرنا شروع کیا اور اپنی سمجھ کے مطابق اوقات متعین کیے۔

بعدازاں یہ دن اور رات میں تقسیم ہوئے اور پھر مہینوں اور سالوں کے حساب سے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے صدیوں تک پھیل گئے۔ انسان جس خطے میں بسا وہاں جیسے ہی زبان نے جڑ پکڑی کیلنڈر نے خودبخود جنم لے لیا۔ ایشیائی ممالک سے یورپی و افریقی لاطینی امریکی ممالک ہر قوم نے اپنے اپنے کیلنڈر ترتیب دیے۔ قدیم یونانی ادوار ہوں، مایا تہذیب ہو، رومی ادوار، فراعین مصر کے تہذیبی ادوار یا پھر ہندوستان میں دیگر ادوار موہنجودڑو اور ہڑپہ کے ازمنہ قدیم ادوار سب ہی دن مہینے اور سال کی اپنی اپنی ترتیب اور انداز سے چلتے رہے۔

اسی بنیاد پر علم نجوم اور علم فلکیات کو بنیادی اہمیت حاصل رہی اور ان علوم سے وابستہ شخصیات کو سرکاری سطح پر خاص عزت اور پذیرائی حاصل رہی، اور ہر دور میں مذہبی و روحانی علمی افراد نے آنے والے ادوار کے بارے میں پیش گوئیاں بھی اسی نظام کے تحت کیں۔ دن اور مہینوں کے نام تو ہر زبان میں مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ مثلاً آج اتوار ہے تو ہر زبان و رنگ نسل کے لوگ اس بات پر بلاشک وشبہہ متفق ہوں گے۔

اسی اہمیت کے پیش نظر ہر کیلنڈر کی ساخت اور منسوب ہونا بھی تہذیب اور خطے کے معاشرتی مزاج پر منحصر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علاقے و وطن کی ثقافت و تاریخ سے محبت اسی نسبت سے اپنی علیحدہ شناخت کی حامل ہوتی ہے جو ہر محب وطن کا فطری خاصہ ہوا کرتی ہے اور اس کی رگ رگ میں خون بن کر دوڑتی ہے۔ زبان رنگ و نسل ثقافت و مذاہب سے جُڑی مٹی کی محبت اس قدر گہری و دیرپا ہوتی ہے کہ اس کا اندازہ دھرتی سے وقتی یا مستقل جدائی سے لگایا جاسکتا ہے۔

ایسی ہی ایک بے مثال دھرتی پاکستان اللہ کریم کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جو دنیا بھر میں ممتازو منفرد ہے جنوبی ایشیا اور دنیا بھر کے لیے جس کی کثیرجہتی جغرافیائی اہمیت وافادیت مسلمہ ہے۔ پاکستان بے تحاشا ٹیلنٹ کا حامل اور افرادی قوت سے مالامال ملک ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے نسبتاً پسماندہ اور معدوم دریائے ہاکڑہ کی تہذیب کے وارث ضلع رحیم یار خان کے نواحی علاقے کوٹ سمابہ کے رہائشی مقامی48 سالہ پرائمری اسکول ٹیچر غلام عباس چغتائی نے وطن عزیز کی محبت سے سرشار ہوکر پاکستانی کیلنڈر تخلیق کیا ہے، جس کا محرک ایک ایسا بچہ بنا جو ان کے اسکول میں اپنی والدہ کے ساتھ داخلہ لینے آیا تھا۔

یہ 31 مئی 2015 کا دن تھا اور اگلے روز سے سرکاری اسکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات شروع ہونا تھیں۔ یہ اسکول کا تعطیلات سے قبل آخری دن تھا۔ غلام عباس چغتائی نے اسے داخلہ دے دیا کہ بچہ کی عمر پانچ سال سے زائد تھی۔ بچے کے معصوم سے استفسار پر کہ اسے کب آنا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ 14 اگست 2015 کے اگلے دن، جس دن کی خاص بات یہ ہے کہ لوگ پرچم والی جھنڈیاں لگاتے ہیں، جس دن پاکستان بنا تھا۔

بچے نے اب جو سوال کیا وہی غلام عباس چغتائی کے لیے قومی کیلنڈر کی تخلیق کا موجب بنا۔ بچے کا سوال تھا کہ پاکستان کو بنے کتنے سال ہو گئے؟ اس سوال سے ان کو تحریک ہوئی کہ یہ تو بہت بڑا خلا ہے، جسے پر کیا جانا قومی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس پر کام کرنا شروع کردیا۔ چوںکہ اکثر ممالک کے اپنے قومی کیلنڈر ہیں، جیسے مشرق و ایشیائی ممالک، جاپانی کیلنڈر، چینی کیلنڈر ایرانی گاہ شماری کیلنڈر، جسے شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے2500 سو سالہ ایرانی شہنشاہی کی قدامت ظاہر کرنے کے لیے ہجری کیلنڈر کی جگہ قدیم ایرانی فرماںروا سائرس اعظم کی تاج پوشی کے سال سے شروع کیا۔ سیدنا عیسٰی علیہ السلام سے منسوب عیسوی کیلنڈر دنیا بھر میں رائج ہے۔

ہمارے برصغیر میں ہندی مہینوں اور دیسی مہینوں یعنی بکرمی کیلنڈر کا بھی استعمال ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہجرت مدینہ سے شروع ہونے والا اسلامی کیلنڈر بھی رائج ہے، کیوںکہ پاکستان کا اپنا قومی پرچم اپنا قومی ترانہ، قومی کھیل، قومی لباس، قومی زبان، قومی پھول اور قومی علامات و شناختی اشیا ہیں، اسی طرح ایک قومی کیلنڈر کی اشد ضرورت و اہمیت ہے، تاکہ اس اہم قومی ضرورت کے خلا کو پُر کیا جا سکے۔ پاکستان سے اپنی لازوال محبت و دھرتی کا سپوت ہونے کا فخر لیے غلام عباس چغتائی نے اس پر ریسرچ کی اور باقاعدہ کام شروع کیا۔ یہ خاصا پیچیدہ اور دقتوں سے پُر منصوبہ تھا، جس کا بیڑا انہوں نے اٹھایا اور اس پر کام شروع کردیا اور اس کو پاکستانی کیلنڈر کا نام دیا۔

انہوں نے عیسوی ع و ہجری ھ کیلنڈر کی طرح اس کو پاکستان کی پ سے اختصار کرتے ہوئے منسوب کیا۔ پاکستانی کیلنڈر کا آغاز قیام پاکستان سے کیا گیا ہے، لہٰذا 14 اگست 1947 کو پاکستانی کیلنڈر کی تاریخ 01-01-01 شمار کی گئی ہے۔ اس طرح 14 اگست 2017 سے پاکستانی کیلنڈر کا اکہترواں سال شروع ہوا ہے۔

انہوں نے مہینوں کے نام بھی اسی مناسبت سے تجویز کیے ہیں، پہلا مہینہ الفتح کے نام سے تجویز کیا گیا ہے، جو صدیوں سے جاری غلامی سے نجات پر فتح کے نام سے پکارا گیا، کہ اس روز برصغیر کے محکوم مسلمانوں کو اللہ نے فتح نصیب فرمائی۔ اس کو الفتح کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی یکم الفتح ایک پاکستانی سال، اس کو عیسوی سال سے موازنہ کیا جائے تو پاکستانی کیلنڈر میں یہ اس کی تاریخ یکم الفتح 71 پاکستانی تصور کی جائے گی۔ غلام عباس چغتائی نے مذکورہ کیلنڈر دو حصوں میں تخلیق کیا ہے اور کیلنڈر کے مہینوں کے ناموں کا چناؤ بہت عرق ریزی کے بعد کیا گیا۔ نیز اسلامی معاشرتی خصوصیات اور پاکستانی واقعات کے تناظر میں یہ نام تجویز کیے گئے ہیں، 31 دنوں پر مشتمل پہلا مہینہ الفتح، 30 دنوں پر مشتمل دوسرے مہینہ الاخواہ کا نام ہجرت کے بعد پاکستانی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد اخوت و بھائی چارے پر رکھا گیا ہے۔

31 دنوں پر مشتمل تیسرے مہینے القواہ کا نام پاکستانی قوم کی بہادری و جرأت پر رکھا گیا ہے۔30 دنوں پر مشتمل چوتھے مہینے النظم کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات ایمان اتحاد تنظیم سے چنا گیا ہے۔ 31 دنوں پر مشتمل پانچویں مہینے الضبط کی بنیاد بھی یہی سنہرے اصول ہیں، جب کہ31 دنوں ہی پر مشتمل چھٹے مہینے الربط کا نام باہمی رابطوں میل جول اور گہرے پاکستانی سماجی رشتوں کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔

28/29 دنوں پر مشتمل ساتویں مہینے المختصر کو فروری کے کم دنوں کی مناسبت سے مختصر کا نام دیا گیا ہے۔ 31 دنوں پر مشتمل آٹھویں مہینے العزم کا نام قومی ارادوں اور اولوالعزمی کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔30 دنوں پر مشتمل نویں مہینے الاستقامہ کا نام پاکستانی قوم کی ہمت و استقامت کو ظاہرکرتاہے۔31 دنوں پر مشتمل دسویں مہینے التکبیر کا نام یوم تکبیر کی مناسبت سے ہے۔ 30 دنوں پر مشتمل گیارہویں مہینے العدل کا نام پاکستانی معاشرے میں عدل و انصاف کی اہمیت پر ہے، جب کہ پاکستانی کیلنڈر کے آخری اور 31 دنوں پر مشتمل بارہویں مہینے کا نام الامامہ ہے، جو عالم گیری قوت کا اظہار ہے، جس کو بطور ایٹمی معاشی و فوجی طاقت دنیا کی راہ بری سے منسلک کیا گیا ہے۔

پاکستانی کیلنڈر کا پہلا سال عیسوی سن 1947 اور 1948 پر مشتمل ہے، اس لیے 1948 لیپ کا پہلا سال تھا اور پاکستانی کیلنڈر کا ساتواں مہینہ، یوں پہلا سال ہی لیپ کا سال تصور ہو گا۔ پاکستانی کیلنڈر کے خالق نے اس کا موازنہ دیگر کیلنڈروں سے بھی کیا ہے اور تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تاریخ ماہ و سن تجویز کیے ہیں اور باقاعدہ قومی تہوار بھی آئندہ سو سال تک کے لیے کیلنڈر میں شامل کیے ہیں۔ ان کے بقول عیدین، عاشورہ، محرم شبِ معراج اور دیگر اسلامی مہینوں کے تہوار قبل از وقت متعین کرنا محال ہے، کیوںکہ چاند کے مختلف اوقات سے اسلامی مہینوں کے دن کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ہر عیسوی ماہ میں پاکستانی مہینوں کا نصف نصف آتا ہے ان کے موازنہ کردہ کیلنڈر میں عیسوی اور پاکستانی تاریخ کو بٹوں کی جیسے 14/1 کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ یعنی شمارکنندہ عیسوی اور مخرج پاکستانی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے، ایسے ہی عیسوی ماہ کی ہر 14 تاریخ 1 14/1 یا 2 14/2 کی شکل میں واضح کی گئی ہے۔ یوں دائیں طرف تیسرا ہندسہ ہر ماہ تبدیل ہوتا جائے گا۔ یہ تیسرا ہندسہ مہینے کے نمبر کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستانی کیلنڈر کی یہ خاصیت ہے کہ کوئی بھی پاکستانی تاریخ عیسوی تاریخ میں اور کوئی بھی عیسوی تاریخ پاکستانی تاریخ میں آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے نیز بکرمی و ہجری تواریخ کو بھی ساتھ ساتھ چلایا جا سکتا ہے۔ مہینوں کے دورانیے دنوں کی مناسبت سے کچھ اس ترتیب سے ہیں: 14 اگست تا 13 ستمبر پہلا مہینہ “الفتح” 14 ستمبر تا 13اکتوبر دوسرا مہینہ “الاخواہ” 14اکتوبر تا13 نومبر تیسرا مہینہ “القواہ” 14نومبر تا 13 دسمبر چوتھا مہینہ “النظم” 14دسمبر تا13 جنوری پانچواں مہینہ “الضبط” 14 جنوری تا13 فروری چھٹا مہینہ “الربط” 14فروری تا13 مارچ ساتواں مہینہ “المختصر” 14مارچ تا13اپریل آٹھواں مہینہ”العزم” 14اپریل تا13 مئی نواں مہینہ “الاستقامہ” 14 مئی تا13جون دسواں مہینہ “التکبیر”14جون تا 13 جولائی گیارہواں مہینہ “العدل” اور اسی ترتیب سے 14 جولائی تا 13اگست سال کا آخری مہینہ “الامامہ” ہے۔

غلام عباس چغتائی نے آئندہ سو سال تک کا پاکستانی کیلنڈر تخلیق کیا ہے جسے آنے والے ہزاروں سالوں تک اسی تیکنیک سے بڑھایا جاسکتا ہے، اس کیلنڈر کو غلام عباس چغتائی نے تحریکِ آزادی کے قائدین کارکنان اور شہداء کے نام کیا ہے، جن کی بے پناہ قربانیوں کی بدولت پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ غلام عباس چغتائی کے بقول انہوں نے دھرتی کا قرض چکانے کی کوشش کی ہے، ان کی جدوجہد اس کیلنڈر کو قومی کیلنڈر کا درجہ دلوانے کے لیے جاری ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے حکومتی عمائدین اور اعلی حکام کو متعدد خطوط بھی لکھے، جن میں قومی کیلنڈر کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے، مگر کہیں سے بھی جواب نہیں آیا۔ اس بات سے بھی وہ مایوس نہیں ہوئے اور کوشاں ہیں کہ ان کا تخلیق کردہ پاکستانی کیلنڈر قومی کیلنڈر کے طور پر حکومت پاکستان تسلیم و منظور کرلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔