کرپٹ بیوروکریسی کس کے اشارے پر بغاوت پر آمادہ ہوئی ؟

رحمت علی رازی  اتوار 25 فروری 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

اسلام آباد سے ڈھاکا اور نئی دہلی سے ریاض تک کرپٹ اور بدعنوان عناصر کے خلاف تادیب،دارو گیر اور پُرسش کی ہوائیں چل رہی ہیں۔وہ اہم ترین شخصیات جنھوں نے اقتدار اور شہزادگی کی مطلق طاقت رکھتے ہُوئے کبھی یہ سوچا تھا کہ اُنہیں کوئی گرفت میں لاسکتا ہے نہ اُن پر کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے، عدالتوں کے رُوبرو ہیں اور اپنے کیے کی سزا پا رہے ہیں۔ رعایا اور عوام خوشی اور مسرت سے جھوم رہے ہیںکہ اُن کے منصفین عدالت کی بلند اور محترم  کرسیوں پر تشریف فرما طاقتوروں کو اُن کے گناہوں کی سزائیں دے رہے ہیں۔ یہ نہائیت غیر معمولی منظر ہے۔بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء اور اُنکے صاحبزادے طارق رحمن کو ڈھاکا کے جج اخترالزماں پانچ سال کی سزا دے چکے ہیں۔

دونوں ماں بیٹے کوکرپشن کرنے اور قوم سے جھوٹ بولنے کا صلہ مل چکا ہے۔خالدہ ضیاء کو تو ڈھاکا کی جیل میں ڈالا جا چکا ہے۔سعودی عرب میں کرپٹ شہزادوں کو ہتھکڑیاں ڈالی جا چکی ہیں۔سعودی عرب سے امریکا اور برطانیہ تک پھیلی اربوں ڈالر کی بزنس امپائر کے مالک سعودی شہزادے الولید بن طلال کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ شاہی خاندان سے گہرا تعلق رکھنے والے اس شہزادے نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ اُس پر بھی دارو گیر کا ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے لیکن وہ بھی گرفتار ہُوا ۔ اب اُس سے بھی کرپشن کے اربوں ڈالر نکلوائے اور اگلوائے جا چکے ہیں۔ بھارت کی مشہور اور طاقتورکاروباری شخصیت نارو مودی کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

نارو مودی نئی دہلی کے حکمرانوں سے گہرا اور قریبی یارانہ رکھتا تھا۔ سارے ملک میں اُس کی جڑیں پھیلی ہُوئی تھیں۔کرپشن اور لُوٹ مار کی داستانوں کے باوجود کوئی اُس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کررہا تھا مگر گذشتہ ہفتے اُسے بھی ہتھکڑیوں کا ’’زیور‘‘ پہنا دیا گیا۔ اُس کی کرپشن کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس نے مشرقی پنجاب کے ایک سرکاری بینک سے گیارہ ہزار کروڑ روپے کا قرضہ لیا اور ہڑپ کر گیا۔

اب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ہے اور بڑھکیں ماررہا ہے کہ’’جَلد ہی باہر آجاؤں گا۔‘‘سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں نے حالیہ ایام میں جو شاندار فیصلے سنائے ہیں اور ہماری ’’نیب‘‘ نے جو اقدام کیے ہیں،پوری قوم نے فخر سے سینہ تان لیا ہے۔ یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے قوم میں ایک نئی جان اور نیا حوصلہ پیدا ہُوا ہے۔ جیسے سوکھے دھانوں پر کرم اور رحم کی بارش برس گئی ہو۔ہماری تاریخ میں ہمارے ان عظیم ججوں کے اِن فیصلوں کو طلائی حروف سے لکھا جائے گا۔ تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ جب ساری قوم مایوسی اور پژمردگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے والی تھی، پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ میں انصاف کا ترازو تھامنے والوں نے عین وقت پر قابلِ فخر فیصلے سنا کر قوم کی دستگیری کی اور اُنہیں گہرائیوں میں گُم ہونے سے بچا لیا ۔ قوم اور ملک پر کیا گیا یہ احسانِ عظیم ہم کبھی نہیں بھول سکیں گے۔میاں محمد نواز شریف کے خلاف سنائے گئے ہماری سپریم کورٹ کے تین عزت مآب ججوں(جن کی قیادت محترم جسٹس میاں ثاقب نثار کررہے تھے) کے تازہ ترین فیصلے کی باز گشت بلا شبہ ساری دنیا میں سنائی دی گئی ہے۔

تین بار وزیر اعظم بننے کا منفرد اعزاز حاصل کرنے والے نواز شریف کے حصے میں یہ ’’اعزاز‘‘ بھی آیا ہے کہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے اُنہیں دو بار نااہل قرار دیا گیا ہے۔تقریباً سات ماہ قبل سپریم کورٹ کی طرف سے اُنہیں نااہل قرار دیا گیا تھا۔اس فیصلے کی رُو سے وہ ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ نہیں رہے تھے؛ چنانچہ اُنہیں وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا ۔ سارے ملک میں اس تاریخ ساز اور تاریخی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ۔ امیدوں کے نئے چراغ روشن ہُوئے اور قوم میں اِک نیا عزم پیدا ہُوا۔ نئے سرے سے امنگیں پیدا ہُوئیں۔ ہر پاکستانی کی زبان پر صرف ایک ہی جملہ ہے کہ سپریم کورٹ کا پرچم نئی شان اور نئی آن بان سے لہرانے لگا ہے۔اللہ کے فضل و کرم سے ہم ایک جوہری طاقت ہیں۔ ہماری افواج منظم، مضبوط اور مستحکم ہیں ۔

اور ہماری عدلیہ نے نئے اور بے نظیر فیصلے صادر فرما کر ثابت کر دیا ہے کہ اس مملکتِ خداداد کو کسی بھی میدان میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ سات ماہ پہلے نااہل ہونے کے بعد نواز شریف نے نہائیت ہوشیاری سے قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کی اکثریت کے بَل پر وہ ترمیم منظور کروا لی تھی جس کی بنیاد پر وہ دوبارہ پارٹی صدر بن گئے تھے۔ اُن کا تعاقب کرنے والے مگر پیچھے نہ ہٹے۔ اُنھوں نے عدالتِ عظمیٰ کے دروازے پر داد رسی کے لیے دستک دے ڈالی۔ اور اب سات ماہ بعد معزز جج صاحبان نے نواز شریف کوایک بار پھرنااہل قرار دیدیا ہے، یہ کہہ کر کہ جوشخص صادق اور امین نہ ہونے کی ناطے ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتا ، وہ شخص اِسی قانون کے تحت کسی سیاسی پارٹی کا صدر اور سربراہ بھی نہیں رہ سکتا۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 62اور63پر پورا نہ اترنے والاشخص مسلم لیگ نون کی صدارت سے بھی محروم ہو گیا ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے وضع کیے گئے اس قانون کو یقیناً نواز شریف ختم کرسکتے تھے کہ وہ اس قانون کے بننے کے بعد تین بار وزیر اعظم بنے لیکن وہ یہ کام نہ کرسکے۔ قدرت نے اُن سے یہ کام لیا ہی نہیں حالانکہ پیپلز پارٹی نے اُنہیں دو مرتبہ اس کے خاتمے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن وہ اس طرف نہ آئے۔ اُن کا خیال تھا کہ اُن کے ’’دشمن ‘‘ ہی اس کی زَد میں آئیں گے اور وہ اس سے ہمیشہ محفوظ رہیں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔نواز شریف سات ماہ پہلے بھی عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نااہلی کے سنائے جانے والے فیصلے سے ناراض تھے، اب بھی نارض ہو رہے ہیں۔اُنکی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف بھی غصے میں عدلیہ اور جج صاحبان پر برس رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف کو اُنکے گناہوں کی دوبار سزا ملی ہے اور ابھی مزید بھی ملنے والی ہے۔ اُن کی پرائم منسٹرشپ کے دوران قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف نامے میں دانستہ جو ترمیم کرنے کی شرمناک جسارت کی گئی، دراصل اﷲ کی طرف سے اُنہیں نئے فیصلے کی شکل میں سزا ملی ہے۔

ہمارا تو یہ ایمان اور یقین ہے کہ جو بھی شخص ختمِ نبوت کے بارے میں ذرا سی بھی بد نیتی رکھے گا،اﷲ کی طرف سے فوری سزا پائیگا۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام بھی اُس کا محاسبہ کرینگے۔ نواز شریف اپنے سیاسی، خاندانی اور معاشی مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے مبینہ طور پر بھی مزید آئینی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کیے بیٹھے تھے اور اُن کی پارٹی کے کئی لوگ ان کے ساتھ عہد بھی کر چکے تھے کہ عین موقع پر اﷲ تعالیٰ نے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے توسط اور توسّل سے اُنہیں پارٹی صدارت سے بھی فارغ کر دیا ہے۔ نون لیگ اب سینٹ کے انتخابات سے بھی مائنس ہو گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے نئے فیصلے کے تحت 28جولائی 2017ء سے 21فروری2018ء کے درمیانی عرصے میں نواز شریف کے تمام فیصلے اور اقدامات کالعدم قرار پائے ہیں۔ یوں سینیٹ کے لیے جاری کردہ نواز شریف کے دستخطوں سے تمام ٹکٹ بھی منسوخ ہو گئے ہیں۔ اب تمام نون لیگی امیدوار آزاد حیثیت میں ایوانِ بالا کا الیکشن لڑیں گے۔نواز شریف اور اُنکے وابستگان کو اﷲ کی طرف سے سزاؤں کا سامنا ہے۔

عدالتوں کے فیصلے تو محض بہانہ اور وسیلہ کہے جا سکتے ہیں۔لیکن حیرانی اس امر کی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز شریف کی عدلیہ مخالف مہم تو رکھئے ایک طرف، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی ناراض ہو رہے ہیں۔ ساری قوم اُنکے اس طرزِ عمل پر حیرت زدہ ہے۔ سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد ترکمانستان روانہ ہونے سے قبل شاہد خاقان عباسی نے یہ بیان دینا ضروری خیال کیا کہ’’نواز شریف کو احتساب عدالت سے انصاف نہیں ملے گا۔‘‘تو یہ ہیں ہمارے وزیر اعظم جنہیں اپنے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے برعکس اپنے سیاسی قائد کی حرمت اور تکریم کا زیادہ پاس ہے!لیکن یاد رکھا جائے کہ مسلم لیگ نون کے دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود سپریم کورٹ اور دیگر پاکستانی عدالتوں کا پرچم پوری آزادی اور شان کے ساتھ لہراتا رہے گا۔ انشاء اﷲ۔کسی کو یقین نہ آئے تو وہ ’’نیب‘‘ کی طرف سے اُس حکم کو بھی دیکھ لے جس کی بنیاد پر لاہور ڈویلپمنٹ اٹھارٹی(ایل ڈی اے) کے سابق ڈی جی احد چیمہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یہ شخص خود کو بہت طاقتور اور طاقتوروں کا معتمدساتھی خیال کیے بیٹھا تھا مگر اب سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اُسے پنجاب کے حکمرانوں کا فرنٹ مَین بھی کہا جاتا ہے۔ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم میں مختلف النوع مبینہ کرپشنوں کا مرتکب بھی۔ اپنی اوقات اور اپنے ذرائع سے بڑھ کر اربوں روپے کے اثاثے بنانے کے سنگین الزامات بھی اس پر عائد کیے جا چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے فرار ہونے کی تیاریاں بھی مکمل کیے بیٹھا تھا کہ ’’نیب‘‘حکام نے عین وقت پردھر لیا۔

پنجاب بیوروکریسی کے وہ ارکان جو اپنے پیٹی بھائی احد چیمہ کو بظاہر بچانے نکلے ہیں،ان کا خیال ہے کہ اگر یہ نیب سے عدم تعاون کرینگے تو شاید احد چیمہ بچ جائینگے حیران کن بات تو یہ ہے کہ وہ نہ جانے کس کے اشارے پربغاوت پر بھی اتر آئے ہیں ان کا خیال یہ بھی ہے کہ اگر وہ مزاحمت نہیں کرینگے تو باقی کرپٹ افسران کو بھی دھر لیا جائے گا انھیں خوش فہمی ہے کہ وہ ایسی مضحکہ خیز بغاوت سے اپنے دیگر ساتھیوں کوبھی بچا لیں گے انھیں اندازہ نہیں کہ وہ جلد منہ کی کھا کر زمین پر آگرینگے۔ اب تو پنجاب حکومت بھی ان کی حمایت میں سامنے آگئی ہے لیکن مسلمہ دیانت دار، محنتی اور مثبت سوچ کے حامل افسران کبھی ان کرپٹ افسروں کی حمایت نہیں کرینگے۔ صو بائی سروس کے افسران نے تو پہلے ہی واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ بدعنوان افسران کی پشت پناہی نہیں کریں گے۔

بلکہ وہ اس سلسلے میں نیب سے بھرپور تعاون کریں گے۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد اسے فوری معطل کیا جانا چاہیے تھا لیکن انھوں نے نیب کے منہ پر طمانچہ مارتے ہوئے انھیں اگلے روز ہی ان کی گریڈ 20 میں ترقی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ خبردار!میزان نہیں جھکے گی۔صرف مجرم اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ان سب کے باوجود حیرت خیز منظر یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم مسلم لیگ نون کی قیادت کی محبت میں سراسر بھیگے ہیں۔کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اپنے قائدکی محبت و عقیدت میں اتنے سرشار ہو چکے ہیں کہ اُنہیں بھی سوائے نواز شریف کے اور کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔

شریف خاندان کی محبت نے اُنہیں عدالتِ عظمیٰ اور اس کے عزت مآب ججوں کی عظمت اور تقدیس بھی بھلا دی ہے۔ ججوں کے بارے میں کیے گئے اُن کے اعلان اور بیان نے پاکستان کے بیس کروڑ سے زائد عوام کو ششدر کر رکھا ہے۔ حیرت اور استعجا ب کے مارے پاکستانی عوام نے بجا طور پر کہا اور سوچا ہے کہ کیا پاکستان کا کوئی وزیر اعظم اتنی دیدہ دلیری سے ملک کے معزز ججوں کے کنڈکٹ کے بارے میں یہ بیان دے سکتا ہے؟ اپنے سیاسی قائد کے عشق میں مبتلا ہو کر عدلیہ کی عظمت کو روندنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ نواز شریف کی پارٹی نے ایک پچھلے دَور میں سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملہ کرکے ایک ’’منفرد‘‘ مثال قائم کی تھی اور اب نواز شریف کے منتخب کردہ اور چنیدہ وزیر اعظم نے ججوں اور عدالتوں کے بارے میں نیا اور شرمناک بیان دے کر ایک بار پھر ’’منفرد‘‘ مثال قائم کی ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کی محبت سے مغلوب ہو کرارشاد فرمایا:’’ججوں کا طرزِ عمل پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔ ‘‘جس نے بھی وزیر اعظم کے یہ الفاظ سُنے ہیں ، انگشت بدنداں رہ گیا ہے۔ عوام کو اپنے کانوں پر پہلے تو یقین ہی نہیں آیا تھا کہ وزیر اعظم ایسی غیر آئینی بات بھی کہہ سکتے ہیں!!لیکن حقیقت میں ایسا کہا جا چکا تھا ۔ آسمان گرانے کے لیے نواز شریف کا منتخب کردہ وزیر اعظم اپنے قائد کی خوشی اور خوشنودی کی خاطر حدیں عبور کر چکا تھا۔پاکستان کی سات دہائیوں پر پھیلی تاریخ میں آج تک کسی وزیر اعظم، صدر، آرمی چیف، رکن اسمبلی، وزیر ، کسی سیاستدان نے ایسی بات کہنے اور کرنے کی جسارت نہیں کی تھی لیکن نواز شریف کی شہ میں شاہد خاقان عباسی ایسا کہہ گزرے ۔پورے ہوش وحواس میں آنجناب نے یہ الفاظ ادا کیے ہیں اور عدالتِ عظمیٰ کو للکارا ہے۔

کیا شاہد خاقان عباسی اپنے قائدکی محبت میں غرق ہو کر یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ آئین کے تحت کسی جج کا کنڈکٹ زیر بحث لایا ہی نہیں جا سکتا ؟ کیا یہ ہوشربا الفاظ ادا کرتے ہُوئے وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ آئین کے آرٹیکل 68میں کیا لکھا گیا ہے؟ اگر وہ نہیں جانتے تو اُنہیں وزیر اعظم رہنے اور وزارتِ عظمیٰ سے لطف اندوز ہوتے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔اگر آئین سے محبت اور ہر حالت میں اس کا دَم بھرنے والی کوئی قوم ہوتی تو اب تک وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بیک بینی و دوگوش اقتدار، حکومت اور اسمبلی سے نکالا جا چکا ہوتا۔اگر مسٹر عباسی نے معزز اور عزت مآب ججوں کے بارے میں آئینِ پاکستان میں مندرج الفاظ نہیں پڑھے ہیں تو ہم اُن کی خدمت میں یہ الفاظ رکھ سکتے ہیں۔ آئین ِ پاکستان کہتا ہے:No discussion shall take place in (Majlis e Shoora ,Parliament) with respect to the conduct of any Judge of the Supreme Court or of a High Court in the discharge of his duties.aاس کا عام مفہوم یہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی جج کا کنڈکٹ (طرزِ عمل)مجلسِ شوریٰ یاپارلیمنٹ میں زیر بحث لایا ہی نہیں جا سکتا۔

تو پھر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس حد کو کیسے عبور کرنے کی جرأت کی؟ کیا اُنہیں کسی کی پرسش اور احتساب کا ڈر اور خوف نہیں تھا؟حیرانی کی بات یہ ہے کہ نواز شریف اور اُن کے سنگی ساتھی آئے روز یہ مطالبہ کرتے سنائی دیتی ہے کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کا احتساب کیا جائے کیونکہ اُس نے آئین کو پامال کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اب جب کہ وزیر اعظم شاہد خاقان’’ بقلم خود‘‘ آئین کی صاف خلاف ورزی اور توہین کر چکے ہیں، اُن کا احتساب کون کریگا؟ کب کیا جائے گا؟ہمیں ڈر ہے کہ اگر آئین کی تشریح اور توضیح کرنیوالے ہمارے عظیم ادارے شاہد خاقان کے اس سنگین اقدام کی بازپرس نہ کر سکے تو ملک میں کوئی بڑا طوفان آ سکتا ہے۔

اگر ایسے لوگوں کے سامنے کوئی بند نہ باندھا گیا تو پھر ہر کوئی آئینِ پاکستان کی بے حرمتی کرنے میں بے لگام ہو جائے گا۔وزیر اعظم یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ منتخب نمایندوں کو چور اور ڈاکو کہنا قبول نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کون منتخب نمایندگان کو ڈاکو اور چور کہہ رہا ہے؟ عدلیہ میں بیٹھے معزز جج صاحبان میں سے ایک نے تو صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ہم نے تو کسی کا نام لے کر کسی کو ڈاکو اور چور نہیں کہا ہے تو پھر شاہد خاقان کس طرف اشارے کررہے ہیں؟کسے سنا رہے ہیں؟ تو کیا ہم اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن کے ان الفاظ پر یقین کر لیں کہ ’’مریم نواز شریف ہر چور اچکے کے ذکر کو اپنے والد سے تعبیر کرتی ہیں۔‘‘ہم شاہد خاقان عباسی سے چلتے چلتے یہ بھی پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں : کیا منتخب نمایندے کرپشن کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اگر ہُوئے ہیں اور یقیناً ہوئے ہیں تو کیا یہ کرپشن قوم کی جیب کاٹنے کے مترادف نہیں ہے؟

کیا یہ چوری نہیں ہے؟ کیا یہ پاکستان کے عوام پر دن دیہاڑے ڈاکہ زنی کی واردات نہیں ہے؟ کیا کرپشن کرنیوالے کئی منتخب نمایندگان عدالتوں کے روبرو چور اور کرپٹ ثابت نہیں ہُوئے ہیں؟تو پھر ایسے منتخب نمایندگان کو چور اور ڈاکو کہنا گناہ کیسے ہو گیا؟ یہ منتخب نمایندگان کب سے پاک، پوتّر بن گئے؟ واضح ہونے لگا ہے کہ نواز شریف ، شاہد خاقان عباسی، مریم نواز شریف اور نون لیگ کے دیگر چھوٹے بڑے قائدین کی طرف سے عدلیہ اور عدالتوں میں تشریف فرما عزت مآب ججوں کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محاذ آرائی کی جارہی ہے۔اب یہ راز کوئی راز نہیں رہا کہ شاہد خاقان عباسی نے ججوں کے طرزِ عمل کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے والا خطرناک بیان داغنے سے قبل جاتی عمرہ میں اپنے قائد سے طویل ملاقات کی تھی۔

شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس بار عدلیہ کے خلاف نئی محاذ آرائی کا فیصلہ اسی ملاقات میں کیا گیا ہے۔ پہلا پتھر تو شاہد خاقان نے پھینک دیا ہے جس پر سارے ملک کے سارے عوام وزیر اعظم اور اُن کے پشت پناہوں کے خلاف اپنی ناراضی کا اظہار کررہے ہیں۔یہ بیان دیکر وزیر اعظم نے دراصل عدلیہ اور ججوں کی برداشت اور صبر کا امتحان لیا ہے۔ عدلیہ تو شائد صبر کر لے لیکن بیدار مغز عوام مزید برداشت نہیں کرینگے اور نہ ہی کسی سیاستدان کو مطلق شہنشاہ بننے کی اجازت ہی دینگے۔ جس روز شاہد خاقان عباسی نے ججوں کے بارے میں متذکرہ بیان دیا، اُسی روز ہی وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی عدالتوں پر اپنی طرز کی انوکھی سنگباری کی۔ اُنہوں نے کہاکہ ’’ کوئی ادارہ مقدس نہیں ہے‘‘ اور یہ کہ’’ انتظامی کی طرح عدالتی نظام بھی ابتر ہے۔‘‘چہ خوب!!یک نہ شد، دو شد!عدلیہ کو دشنام دینے اور بے وقار کرنے میں جو تھوڑی سی ’’کسر‘‘ شاہد خاقان عباسی نے چھوڑی تھی، اُسے وزیر داخلہ احسن اقبال نے پورا کر دیا۔

وہ سینہ ٹھونک کر یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نواز شریف،مریم نواز شریف اور کیپٹن صفدر کے نام ای سی ایل میں نہیں ڈالوں گا۔ اُن کے الفاظ یوں ہیں:’’نواز شریف، مریم نواز کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے نیب سفارش کے پابند نہیں ہیں۔‘‘نیب حکام نے پچھلے ہفتے ہی یہ سفارش کی تھی کہ ان لوگوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے جائیں اور ہم نے گذشتہ اتوار کے اپنے کالم میں ان خدشات کا اظہار کیاتھا کہ احسن اقبال کی اتھارٹی کو اب چیلنج درپیش ہے، لگتا نہیں ہے وہ اس امتحان میں پورا اُتریں گے۔ ہُوا بھی ایسا ہی۔ ہمارے خدشات درست ثابت ہُوئے ہیں۔

احسن اقبال فرماتے ہیں کہ نواز شریف اور اُن کی اولاد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے ’’نیب‘‘ ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔ سوال یہ ہے کہ ’’نیب‘‘ نے جب سید یوسف رضا گیلانی اور شرجیل میمن کے نام ای سی ایل میں ڈالے تھے تو کیا نواز شریف اور اُن کے وزیر داخلہ نے ’’نیب‘‘ کوٹھوس ثبوت فراہم کیے تھے؟ سابق وزیر اعظم گیلانی کا نام تو اب بھی ای سی ایل میں شامل ہے۔ ایسے میں کیا سندھ اور پیپلز پارٹی کی صفوں سے یہ آواز نہ اُٹھے کہ اُن سے ہمیشہ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے؟جب احسن اقبال ایسے جانبدار اور بے انصاف لوگ وزیر داخلہ ہونگے، ایسی شکوہ کناں آوازیں اُٹھتی رہیں گی۔ اور یہ شکوے وفاق کے لیے کبھی مثبت پیغام ثابت نہیں ہُوئے۔یہ سبق یاد رکھ لیا جائے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔