کبھی سوچا ہے آپ نے؟؟

شیریں حیدر  اتوار 25 فروری 2018
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہم سب لوگ ہر روز کسی نہ کسی طرح خبر سے آگاہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اخبار، ٹیلی وژن، انٹر نیٹ یا آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور گرما گرم، چٹ پٹی خبریں ہمہ وقت گردش میں رہتی ہیں۔ آپ کو ملتی ہے خبر تو آپ مجھے بھیجتے ہیں، میں اسے دلچسپ پاتی ہوں، بغیر تصدیق کے دس اور لوگوں کو ثواب کمانے کی خاطر بھیج دیتی ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

کبھی کسی کی نااہلی اہم ہو جاتی ہے تو کسی کی تیسری شادی گرما گرم موضوع۔ سیاسیات، مذہب ( جن پر ہم سب کی رائے ناقص ہوتی ہے) اور لطائف (جن میں زوجین کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لطائف سب سے زیادہ ہوتے ہیں)… عموما ساری پوسٹ انھی موضوعات پر ہوتی ہیں۔ کسی حوالے سے چند اہم حقائق پڑھنے کو ملے تو میں سوچ میں پڑ گئی، ہم ہر وقت ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤ اور اپنے نام نہاد لیڈروں کی سرگرمیوں کے بارے میں اتنا متفکر رہتے اور اس حوالے سے ٹوہ میں رہتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ ہم ایک اسلامی ملک کے باسی ہیں جو چاروں طرف سے مشکل سرحدوں میں گھرا ہوا ہے اور ان سرحدو ں پر مسائل کے انبار ہیں، ہم چین سے جیتے اور سکون سے جاگتے ہیں، ہنسی خوشی دن گزارتے ہیں تو ا س کس سہرا کس کے سر بندھتا ہے؟

کبھی سوچا کہ ہم جیسے بے حس لوگوں کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے کون دیتا ہے۔ کون ہیں وہ اللہ کے پراسرار بندے جنھیں اپنی زندگی، خوشی اور آرام سے غرض نہیں کہ انہو ں نے اس ملک کی اور اس ملک کے باسیوں کی حفاظت کی قسم کھائی ہے۔ ہم اندرونی محاذوں پر لڑ لڑ کر مر رہے ہیں، ہمارے حکمرانوںکو اپنی چمڑی بچانے کی فکر ہے، کیا کوئی متفکر ہے اس کے لیے کہ اس ملک کی سرحدوں پرکیا ہو رہا ہے؟؟ صرف وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ …

’’اے ایمان والو تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لیے تیار رہو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو تا کہ تم مراد کو پہنچو۔‘‘ سورہ آل عمران۔ آیت 200’’دشمن سے ملی ہوئی سرحد پر ایک دن اور رات کا پہرہ دینا، ایک ماہ کے روزوں اور قیام الیل سے بہتر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

اللہ تعالی سب نگہبانوں میں سب سے بڑا نگہبان ہے مگر اس نے اپنی اس خاصیت کو ان لوگوں کو تفویض کیا ہے اور انھیں چنا ہے جو ہماری سرحدوں کے نگہبان ہیں، ہمارے رکھوالے ہیں۔

پاکستان کی تخلیق کے وقت سے ہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ٹھنی اور پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت پر دشمن کی طرف سے صرف ایک سال سے کم عرصے (اکتوبر 1947ء سے جنوری1948ء) ہی جنت نظیر کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے در اندازی نے اس جدوجہد کرتے ہوئے ملک کو دفاع کی جنگ لڑنے کے لیے مجبور کر دیا۔ ہماری افواج ابھی تک اس حالت میں نہ تھیں کہ فورا ہی جنگ کے لیے تیار ہوتیں۔ اقوام متحدہ کی دخل اندازی سے سیز فائر کروادیا گیا اور جن علاقوں کو پاکستان کی مختلف فورسز نے دشمن کے قبضے سے آزاد کروا لیا تھا وہ آزاد کشمیر کہلاتے ہیں اور جو دشمن کے قبضے میں چلے گئے وہ مقبوضہ کشمیر کہلاتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سرحد کی طوالت اندازا 2600 کلو میٹر اور کشمیر اور ہندوستان کا بارڈر یعنی لائن آف کنٹرول 600 کلو میٹر ہے۔

ہندوستان کی طرف سے اکتوبر 1947ء میں دراندازی او ر پھر جنوری 1948ء میں خود ہی اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے کے بعد، اپریل 1948 ء میں اقوام متحد ہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے یہ لائن آف کنٹرول اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کی گئی اور ان کے منتخب کیے گئے پانچ نمایندہ ملکوں (ارجنٹائن، بیلجیم، کولمبیا، چیکو سلواکیہ اور امریکا) کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے دورے کے بعد اس لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ تاہم یہ دراندازی یکم جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کی طرف سے سیز فائر کرنے کے حکم تک جاری رہی۔27  جولائی 1949ء کو سیز فائر کراچی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ مارچ 1951  ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے (UNMOGIP )  United Nations Monitors Observer Group for India and Pakistan تشکیل دی گئی۔ اس کا مقصد اس کے نام سے ہی واضع ہے مگر 1972 ء سے ہندوستان نے اس ٹیم کو سرحدوں کی مانیٹرنگ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ سرحد پہلے CFLسیز فائر لائن کہلاتی تھی،  اب یہ LOC لائن آف کنٹرول کہلاتی ہے۔

ہم اپنی مصروفیات میں گم، اپنی زندگیوں میں محو اور اندرون ملک سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں الجھے ہوئے، کون ہے جو ان لوگوں کا پرسان حال ہے جو سرحدوں کے محافظ ہیں اور وہ جو سرحدوں کے قریب آباد ہیں یا جن کا ٹھکانہ ہی سرحدوں کے قریب ہے۔ چند اعداد و شمار دیکھیں۔ 2018ء کے آغاز سے ہی سرحد پار سے سیز فائر کی خلاف ورزی کے کئی واقعات ہو چکے ہیں، صرف سال 2017 ء میں ہی 1300  واقعات سیز فائر کے 2003 ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کے ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں 52 لوگ شہید ہوئے اور 175 پچھتر زخمی ہیں۔ ہندوستان کے حالیہ وزیر اعظم مودی جو کہ غاصب سوچ کے حامل سربراہ ہیں اور انھیں خطے میں اپنی اجارہ داری کرنے اور بالاد ستی منوانے کا شوق ہے، ان کے دور حکومت میں ہندوستان نے اپنی بالا دستی کو ثابت کرنے کے لیے کل 7000 دفعہ سرحدوں پر سیز فائر کی خلاف ورزی کی ہے جو کہ تاریخ کا ایک ریکار ڈ ہے۔2014 ء سے 2017 تک881 دفعہ  ایسے واقعات کے نتیجے میں 300 بے گناہ شہید اور 1121 زخمی ہوئے، ان میں زیادہ تعداد سول، نہتے شہریوں کی ہے۔

اس سے قبل کے اعداد و شمار میں2003 ء سے 2013 ء تک کل 1062 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ اگر ہم سرحد پار سے دراندازی کا ان برسوں کے انفرادی اعداد و شمار کے نتاظر میں جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعداد بتدرریج بڑھتی رہی ہے اور مودی کے دور حکومت میں ان دراندازیوں کی انتہا ہو گئی ہے۔

2003ء میں گیارہ مرتبہ، 2004ء میں چھ مرتبہ، 2006ء میں نو مرتبہ، 2007ء میں اٹھارہ مرتبہ، 2008ء میں تیس مرتبہ، 2009ء میں چھیالیس مرتبہ،  2011 میں ایک سو چار مرتبہ، 2012ء میں دو سو بیاسی مرتبہ، 2013ء میں چار سو چونسٹھ مرتبہ مودی کے دور حکومت کے شروع ہوتے ہی ان اعداد وشمار کا گراف بھی تیزی سے اوپر جانا شروع ہوا اور دکھ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے حکم نامے کی روگردانی پر بھی دنیا خاموش ہے، بڑی طاقتیںخاموش تماشائی ہیں اور ہم سب لاعلم ہیں۔ ہندوستان علاقے میں غنڈہ بنا ہوا ہے اور ہم … ہم ان سے عشق و محبت کے ترانے گانے، ان کے ساتھ کاروباری روابط قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس میںہمارے جیسا عام آدمی بھی ہے، ہمارے فنکار بھی اور حکمران بھی۔

جن قوموں کو اپنی عزت نفس کا احساس نہ ہو، جنھیں اپنے دشمن کی پہچان نہ ہو اور یہ علم نہ ہو کہ دشمن سے فاصلہ کیوں رکھنا ہے اور کس حد تک رکھنا ہے، اسے دشمن تر نوالہ سمجھ لیتا ہے۔ ہم جنگی جنون میں مبتلا اس دشمن کو جنگ کے ذریعے دانت کھٹے کرنے کے قابل تو ہیں مگر دشمن کے نیچ اور اوچھے ہتھکنڈوں کا سامنا فہم اور فراست سے کیا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے ثقافتی یلغار نے پوری مسلم امہ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، بہت زیادہ آبادی کی وجہ سے کاروباری کشش بھی وہاں بہت ہے، ا س لیے ہمارے حکمرا ن بھی اس جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر وہ کس منہ سے شکایت کریں کہ صاحب آپ ہمارے ہاں غیر قانونی طور پر اور خواہ مخواہ مداخلت کر رہے ہیں۔ جہاں انسانوں کے ذاتی مفادات ملک اور قوم سے اہم ہو جائیں وہاں وہ ظلم اور جبر کے خلاف خاموشی اختیار کر لیتا ہے جو کہ ملکوں کے لیے زہر قاتل کاکام دیتی ہے۔

دنیا بھر میں جہاں ظلم ہوتا ہے ہم سب فیس بک پر آواز اٹھاتے ہیں، خواہ شام ہو، فلسطین، یمن، میانماریا کوئی بھی اور خطہ، مگر ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کبھی ہندوستان کی طرف سے پاکستانی سرحدوں کے ساتھ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں، بے گناہ شہریوں کے قتل اور بلا جواز فائرنگ کی مذمت کی ہو اور اپنی فیس بک، ٹویٹر یا کسی اور فورم پر آواز اٹھائی ہو… شاید اس لیے کہ ہم ایک بے حس اور سوئی ہوئی قوم ہیں، سوئے ہوئے کو کوئی مزید کیا سلائے گا؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔