جمہوریت پسندوں کا المیہ

اقبال خورشید  پير 26 فروری 2018

رات گہری اور خنک تھی۔ سری دیوی کے انتقال کی خبر موصول ہوئے چند ہی پل گزرے تھے۔

کھلے آسمان تلے ٹھنڈ اپنی موجودی کا احساس دلاتی تھی۔ دیواروں پر چراغ رکھے تھے، اور میزوں کے نیچے شمع جل رہی تھی، مگر یہ فقط نفاست سے کیا جانے والا اہتمام تھا۔ روشنی مصنوعی تھی، اگرچہ دل پذیر تھی۔ کراچی غنودگی میں تھا۔ کیفے میں، ہفتے کی ہر رات کے مانند، رش تھا۔ میزیں بھر چکی تھیں۔ بیش تر نوجوان آس پاس سے آئے تھے، البتہ چند ایسے بھی تھے، جو پوش ساحلی پٹی سے تجسس کے باعث یا فقط یہ دیکھنے کے شہر کا متوسط طبقہ کس طرح کم داموں میں تفریح تلاش کرتا ہے، اس کیفے کی سمت چلے آئے تھے، جو گلبرگ کے نزدیک واقع تھا۔

ہم مسالے والی چائے پی چکے تھے، سری دیوی کا غم منا چکے تھے، اور اس موضوع کی سمت پلٹنے کو تیار تھے، جس نے ہمارے شب و روز کو، ہمارے عمل، ردعمل ہر دو کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔۔۔ موضوع، جس پر ہم دوران سفر ، دوران گفتگو یہاں تک کہ بے خیالی میں بھی مسلسل غور کرتے رہتے ہیں۔ سیاست، بے شک۔

’’کیا تم دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہو  کہ  مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ کا دامن کرپشن سے پاک ہے؟‘‘

وہ میرا ہم پیشہ تھا۔ میری طرح خبروں کی بے انت، تیزرفتار اور اکتا دینے والی دنیا سے وابستہ۔ میری طرح اس لاحاصل دنیا سے بیک وقت محبت اور نفرت کرنے والا۔

’’کسی بھی دولت مند آدمی سے متعلق یہ کہنا۔۔۔‘‘ میں نے سوچ بچار کے بعد اپنے الفاظ کا چناؤ کیا۔’’دشوار ہے،چاہے وہ سیاست داں ہو یا صحافی!‘‘میں لفظوں کو ڈھال بنانا چاہتا تھا، اور وہ اس بات سے واقف تھا۔

’’اس کے باوجود کہ مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ کے دامن کو کرپشن سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا۔۔۔‘‘اس نے کپ کے کناروں پر انگلی پھیری۔’’ اس کے باوجودکہ وہ منی ٹرائل نہیں دے پائے، اس کے باوجودکہ انھوں نے مختصر وقت میں بے پناہ دولت کمائی، اس کے باوجود کہ ان کی اولاد کم سنی میں ارب پتی ہوگئی،اس کے باوجود کہ انھیں عدلیہ نے نااہل قرار دیا،اوراسی عدلیہ نے، جسے انھوں نے بے بدل اعتماد سے بحال کروایا،جس کے یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کی انھوں نے ببانگ دہل حمایت کی ،تو اس حمایت کے باوجود، اس کالے کوٹ کے باوجود، جو انھوں نے میمو گیٹ میں پہنا، اس موقف کے باوجود جو انھوں نے ماضی میں عدلیہ کی مبینہ کرپشن کے خلاف اقدامات پر اپنایا،آج۔۔۔ اس لمحے میاں نواز شریف کی حمایت کیوں کر ممکن ہے؟‘‘

جواب دینے سے پہلے، اپنی عادت کے مطابق میں نے اس کے فن گفتگو کی تعریف کی، اس کے سوالوں کو اہم قرار دیا، اور چائے کا ایک کپ اور پینے کی دعوت دی۔کیفے، جو ایک عمارت کی چھت پر واقع تھا، گو بھرا ہوا اور پرشور تھا،مگر ہماری تنہائی میں مخل نہ ہوتا تھا۔ کونے میں گٹار لیے بیٹھے چندنوجوان بلھے شاہ کا کلام گا رہے تھے:’’ تیرے عشق نچایا، تیرے عشق نچایا!‘‘میں نے یہ کلام عابدہ پروین کی آواز میں سنا تھا،اور اسی کی آواز پر میرا دل تھیا تھیا کرتا تھا۔۔۔میں اسے عدالتی نظام کے سقم گنوانے لگا، شواہد سے متعلق شبہات کا، قانونی پیچیدگیوں کا تذکرہ کیا۔

’’میاں صاحب کتنی بار ملک کے وزیر اعظم بنے؟‘‘ اس نے پوچھا تھا۔ اور جواب سے قبل خود ہی کہا:’’تین بار۔ وہ تین بار وزیر اعظم بنے۔اگر آج عدالتی نظام میں سقم ہے، انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں ہیں، قانونی ڈھانچا کمزور ہے، تو اس کی درستی کی ذمے داری، سوائے تین بار وزیرا عظم بننے والا شخص سے زیادہ کس پر عاید ہوتی ہے؟ کیا نظام کی ان کمزوریوں، رکاوٹوں اور سقم کے باعث عوام عذاب سے نہیں گزرتے ہوں گے؟اور اگر گزرتے ہوں گے، اور یقیناً گزرتے ہوں گے، تو اس کے سدباب کے لیے اہل اقتدار نے کیا کیا؟‘‘

چائے گرم اور تیز ہے۔ ٹولے نے گٹار کے ساتھ طبلہ بھی شامل کر لیا ہے۔ کہیں دور گولی چلی ہے۔ یہاں سے کچھ دور، بہادر آباد اور پی آئی بی راستے پر ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔میں مسکرا کر وضاحت کرتا ہوں کہ اس کے اعتراضات درست ہوسکتے ہیں۔ البتہ اس وقت میاں صاحب کی حمایت کرنے والا طبقہ، جن کی اکثریت خود کو لبرل کے طور پر شناخت کرواتی ہے، دراصل سویلن بالادستی اور جمہوری اقدار کی جنگ لڑ رہا ہے۔’’یہ طبقہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل اور استحکام چاہتا ہے۔‘‘

’’جمہوریت!‘‘ شاید اس کا لہجہ طنزیہ تھا۔’’کیا ہمارے پاس ان اقدامات کی فہرست ہے، جو ن لیگ نے سول بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کیے، جنھوں نے پارلیمان کو مضبوط کیا؟‘‘ہاں، میں چند اقدامات کی جانب اشارہ کرتا ہوں۔البتہ میرے الفاظ سے ایک تجریدی، نامکمل تصور ابھرتی ہے۔ میں کسی ٹھوس شے تک پہنچنے میں ناکام رہتا ہوں، اور آخر اُن سازشوں کا تذکرہ کرکے چپ ہوجاتا ہوں، جو گذشتہ پانچ برس میں جمہوریت کے خلاف ہوتی رہیں۔ ’’دھرنے، دھمکیاں ، فیصلے وغیرہ وغیرہ!‘‘

وہ سر ہلاتا ہے۔’’سازشیں تو ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔ کوئی جمہوری دور اِن سے خالی نہیں رہا، یہاں تک کہ یہ اپنی شکلیں بھی نہیں بدلتیں مگر ہر باران سازشوں کا سہولت کارکون بنتا ہے؟ خود سیاستداں۔ جو بھی، جب بھی اپوزیشن میں رہا، اس نے وہی سیاست کی،جو موجودہ اپوزیشن کر رہی ہے۔

کیا ن لیگ نے یہ سیاست نہیں کی؟‘‘ میں تھک چکا ہوں،بحث بے انت ہے، ٹولے نے گیت بدل لیا ۔ وہ فیض کے الفاظ دہرا رہے ہیں:’’ہم دیکھیں گے!‘‘ اب کپوں میں چند ہی گھونٹ رہ گئے ہیں اورمیں اپنے دوست اعظم معراج کی کتاب’’شان سبز و سفید‘‘ کے بارے میں سوچ رہا ہوں،جو اس خطے کی مسیحی برادری کی تحریک آزادی، تعمیر ،دفاع و ترقی پاکستان کی کوششوں کا احاطہ کرتے ہوئے اس ملک کی تاریخ کے پوشیدہ گوشے آشکار کرتی ہے۔

میں اُسے اعظم معراج کی ان تھک محنت اور دیوانگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں،علامہ محمد اسد کی کتاب Road to Makkah کے تازہ، مسحور کن مطالعے میں شریک کرنا چاہتا ہوں، یا نیویارک سے آئے ممتاز حسین سے متعلق بتانا چاہتا ہوں جس کی مصوری اور فکشن کے مانند اس کی شخصیت بھی انوکھی ہے مگر میں خاموش رہتا ہوں۔ رات گہری ہے، ٹھنڈ بڑھ گئی ہے۔ ’’جانتے ہو، ہم جمہوریت پسندوں کا المیہ کیا ہے؟‘‘ اس کی آواز میں کرب تھا۔ مجھے اطمینان ہوا کہ اب وہ ’’ہم ‘‘ کاصیغہ استعمال کر رہا ہے۔

’’ہمارا المیہ اور مجبوری یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا سیاسی رول ماڈل نہیں، جو جمہوریت کا استعارہ بن سکے، ایسا شخص، جو جمہوریت کا فقط Beneficiary نہ ہو بلکہ اس کے طفیل جمہوریت کو بھی کچھ فائدہ ہوا ہو۔ہم جمہوریت پسندوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم آج نواز شریف کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں جن کی اپنی پارٹی میں جمہوریت کا فقدان ہے، جو جانشینی کے بحران سے دوچار ہے،پارٹی۔۔ ۔جس میں وہ افراد مستحکم ہیں جو کل تک آمروں کے ہاتھ مضبوط کیا کرتے تھے، جسکے ووٹرز قیادت کو سونے کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں، جو اپوزیشن کی سیاست بھی کرنا چاہتی ہے، مگر کرسی نہیں چھوڑ رہی۔کیا اس ملک میں کوئی ایک شخص بھی دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ ن لیگ کے جلسوں میں حکومتی مشینری اور سرمایہ خرچ نہیں ہوتا؟‘‘

بات وہیں پہنچ چکی تھی، جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ اس کا اور میرا المیہ ایک تھا۔ہم جمہوریت پسند تھے، مگر بے بس تھے، جانتے تھے، ابھی ہم جن کی آواز بنیں گے، جن کے ساتھ چلیں گے، وہ حالات سازگار پاتے ہی کاررواں سے الگ ہوجائیں، اور ہم صحرا میں تنہا درخت کے مانند کھڑے رہے جائیں گے۔ ٹھیک ماضی کے مانند!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔