انشورنس سیکٹر کی ترقی میں ادارہ وفاقی انشورنس محتسب کا اہم کردار

حسن عباس / احتشام مفتی  پير 26 فروری 2018
بیمہ داروں اور انشورنس کمپنیوں کے تنازعات تیزی سے حل کرائے جارہے ہیں، مقررین۔ فوٹو: ایکسپریس

بیمہ داروں اور انشورنس کمپنیوں کے تنازعات تیزی سے حل کرائے جارہے ہیں، مقررین۔ فوٹو: ایکسپریس

دنیا کے ترقیاتی یافتہ ممالک میں انشورنس کے حوالے سے اگر آپ کسی شخص سے سوال پوچھیں تو اس کو اس بات کی مکمل آگاہی ہوگی کہ انشورنس کے کیا فوائد ہیں جو اسے جس نے پالیسی لے رکھی ہے حاصل ہوں گے یا اس کے اہلخانہ کو اس کا کس قدر فائدہ پہنچے گا ان ممالک کے علاوہ اگر آپ نظر دوڑائیں تو بنگلہ دیش اور بھارت کی صورتحال پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر نظر آتی ہے۔

پاکستان میں انشورنس کے حوالے سے عام آدمی کو مکمل اور درست معلومات حاصل نہیں ہیں دوسرا پالیسی لیتے وقت مختلف کمپنیوں اور پالیسی ہولڈر کے درمیان کچھ ایسے معاملات رہ جاتے ہیں جو آگے جاکر کچھ پیچدگیوں کا باعث بنتے ہیں اور پھر یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ بیمہ پالیسی کیوں لی جائے ۔ ان تمام پیچدگیوں کے خاتمے، کمپنیوں اور بیمہ پالیسی ہولڈرز کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے وفاقی محتسب انشورنس کا ادارہ کام کررہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ نے عوام میں انشورنس کے حوالے سے آگاہی مہم کے لیے گزشتہ دنوں ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا ’’انشورنس انڈسٹری کی نمواورمحتسب کا کردار‘‘ اس سیمینار میں بیمہ کمپنیوں کی  سربراہی کرنے والوں’’ وفاقی محتسب انشورنس‘‘ اور دیگر شعبوں کی شخصیات کے علاوہ عام لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی سیمینار میں جو باتیں زیر بحث آئیں وہ قارئین ایکسپریس کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں ۔

محمد رئیس الدین پراچہ ( وفاقی محتسب انشورنس)

پاکستان میں انشورنس بزنس کی افزائش میں اعتماد اہم ستون ہے ادارہ انشورنس محتسب تنازعات کے تصفیوں کے ساتھ کمپنیوں اور صارفین کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کرکے انشورنس انڈسٹری کی تیزرفتارترقی کے لیے بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔ بیمہ داروں میں انشورنس کمپنیوںکی بیمہ پالیسیوں سے متعلق اعتماد کی بحالی سے ہی ملک میں انشورنس کے تحفظ کا رحجان بڑھایا جاسکتا ہے، ادارہ وفاقی انشورنس محتسب کے قیام اورکارکردگی کے ذریعے پالیسی ہولڈرز میںعمومی طور پر یہ احساس پیداکیا جارہا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والا ایک قومی ادارہ موجود ہے اور اسی احساس تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ادارہ انشورنس محتسب بیمہ دارشکایت کنندگان کوکم سے کم مدت میں ان کی دہلیز تک مفت انصاف فراہم کررہا ہے،  بینک ایشورنس میں بہتری کی وسیع گنجائش موجود ہے اوربینک ایشورنس سے متعلق ادارہ انشورنس محتسب کے پاس شکایات کی شرح بڑھ رہی ہے۔ ادارہ انشورنس محتسب بینک ایشورنس کے حوالے سے انڈسٹری سے تعاون حاصل کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔

پاکستان میں ایک فیصد لوگ بھی انشورنس پالیسی کی دستاویزکو لفظ بہ لفظ نہیں پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں اپنے حقوق اور ذمے داریوں کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوتی ہے۔ محتسب کی بطورادارہ ایک تاریخ ہے یہ ایک پرانا انسٹی ٹیوشن ہے جو حکومتی اہلکاروں اور ان کی کارکردگی پر نظررکھنے کے لیے خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ کے دور تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔آج کے دور میں محتسب ادارے کی ابتدا سوئیڈن سے ہوئی اور آج دنیا کے100 سے زائد ممالک میں ادارہ محتسب عوام کی خدمت کررہا ہے، پاکستان میں پہلا وفاقی محتسب کا ادارہ1983 میں قائم ہوا اور اس کے بعد صوبائی محتسب اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں صوبائی محتسب سندھ اولین ادارہ ہے۔

وفاقی انشورنس محتسب آرڈیننس مجریہ2000 کے تحت وجود میں آیا لیکن اس ادارے نے عملی طور پرسال2006ء میں کام کرنا شروع کیا اس طرح سے اس ادارے کوآپریشنل ہوئے صرف11 سال ہوئے ہیں، اس ادارے کی خصوصیت یہ ہے کہ جہاں دیگر محتسب ادارے سرکاری افسران اور اداروں اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں یہ ادارہ نجی شعبے کے اداروں کی کارکردگی کو جانچتا ہے اوریہ خصوصیت اسے دنیا بھر کے محتسب اداروں میں ممتاز کرتی ہے۔ اس ادارے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کے لیے ہمیں پاکستان میں انشورنس انڈسٹری کے معاملات کو دیکھنا ہوگا،ریویو1947 میں قیام پاکستان سے لیکر1971 تک انشورنس انڈسٹری نجی شعبے میں تھی لیکن جب لائف انشورنس کو قومیالیا گیا اور سرکاری انشورنس کمپنی وجود میں آئی مگر جنرل انشورنس بدستور نجی شعبے کے ہاتھوں میں ہی رہی۔ 1990 کے بعد انشورنس سیکٹرڈی ریگولیٹ ہونا شروع ہوا اور نجی شعبے نے لائف انشورنس کمپنیاں قائم کیں

یہی وجہ ہے کہ انشورنس بزنس کی افزائش ہوئی، کاروبار میں ترقی کے ساتھ ساتھ انشورنس پالیسی سے بڑے جھگڑوں میں بھی اضافہ ہوا اور یہ جھگڑے تصفیے کے لیے عدالتوں میں پہنچنا شروع ہوئے لیکن ان معاملات کے تصفیے کی شرح انتہائی سست رہی جس کی وجہ سے سیکڑوں اور ہزاروں معاملات عدالتوں میں تصفیہ طلب رہے، اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی انشورنس محتسب کا قیام عمل میں لایا گیاتاکہ یہ تنازعات بغیرکسی رکاوٹ کے تیزرفتاری سے حل کیے جاسکیں۔ محتسب انشورنس کی ذمے داریوں میں بنیادی بات طے کی گئی کہ تنازعات کا جلد ازجلد یا فوری حل نکالا جائے اور اس کے لیے فریقین کی باہمی رضامندی  کی بھی کوششیں کی جائیں اور یہی عمل اس ادارے کا بنیادی نظریہ ہے۔

انشورنس محتسب کا یہ امتیاز ہے کہ کوئی بھی شکایت60 یوم کے اندرنمٹادی جاتی ہے۔ اس ادارے میں کوئی بھی شکایت کنندہ اپنی شکایت ایک سادہ کاغذ پر بغیرکسی وکیل کے اور فیس کے داخل کرسکتا ہے، ہمارے یہاں پیشیاں نہیں ہوتیں صرف ایک سماعت کے بعد فیصلہ کردیا جاتا ہے، یہ فیصلہ کیسے ہوتا ہے یقیناً پیش کی گئی دستاویزات کی بنیادپر اور ضرورت پیش آنے پر شکایت کنندہ اور متعلقہ انشورنس کمپنی کو بھی سنا جاتا ہے۔ ادارہ انشورنس محتسب کوموصول ہونے والی شکایات کے 90 فیصد فیصلے ایک ہی سماعت میں ہوجاتے ہیں، یہی تیز رفتار فیصلہ سازی ہی ادارہ انشورنس محتسب کی کامیابی کا راز ہے یہاں داداکی دائرکردہ شکایت کا فیصلہ اس کا پوتا نہیں سنتا۔

انشورنس آرڈیننس مجریہ 2000 سے جڑے معاملات کے لیے فورمز تجویز ہوتے ہیں یعنی انشورنس ٹریبونل جوکہ عدالت ہے، انشورنس محتسب اور ایس ای سی پی کی اسمال ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی جو کہ ایس ای سی پی کے افسران کے ماتحت کام کرتی ہے اور یہ کمیٹی کم مالیت کی شکایات سنتی ہے، انشورنس ٹریبونل جو کہ ایک مکمل عدالت ہے وہ تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ کرتا ہے جس میں وقت اخراجات بنیادی عناصر ہیں جہاں ایک عام کیس کا فیصلہ ہونے میں3 سے5 سال لگتے ہیں اور وکلا کی فیسیں کاروباری نقصان وغیرہ بھی سائل کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔

قانون کے تحت انشورنس محتسب کے فیصلے کے خلاف ریویو کے لیے محتسب سے رجوع کیا جاسکتا ہے یا اگرکوئی پارٹی فیصلہ سے مطمئن نہیں ہے تو وہ صدرمملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس اپیل داخل کرسکتی ہے اور ان کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ انشورنس محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی شرح1.5 تا2 فیصد ہے، انشورنس محتسب کے ادارے کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال تقریباً30 فیصد فیصلے باہمی رضامندی سے کیے گئے، باہمی رضامندی کا ماحول ازخود پیدا نہیں ہوتا بلکہ شکایت موصول ہونے کے بعد اسے سننے کے عمل کے دوران اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ فریقین میں سے جوغلطی پر ہے اسے اپنی غلطی کا احساس دلایا جائے اور اس عمل کی کامیابی سے باہمی رضامندی کا ماحول پیدا ہوتا ہے، انھوں نے کہاکہ کاروباری معاملات میں تنازعات کے تصفیے میں تاخیرکا الزام بین الاقوامی ادارے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک تواتر سے لگاتے ہیں اور اس حوالے سے پاکستانی رینکنگ آخری نمبروں پر ہے، پچھلے دنوں عالمی بینک کی ایک سروے ٹیم اس سلسلے میں اسسمنٹ کے لیے پاکستان کے دورے پر آئی تھی جنھیں جب انشورنس محتسب کی کارکردگی پر بریفنگ دی گئی تو انھوں نے اس ادارے کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے دیگر اداروں میں بھی یہی میکنزم اختیارکرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

زاہد برکی (گروپ ہیڈ جوبلی لائف انشورنس کمپنی)

آزادی کے بعد انشورنس کے شعبے میں77 نجی کمپنیاں خدمات انجام دے رہی تھیں اور5 پانچ سرکاری کمپنیاں تھیں،1970 کی دہائی میں تمام نجی کمپنیوں کو ایک بڑی سرکاری کمپنی میں ضم کردیاگیا تاہم جنرل انشورنس کمپنیوں کو نجی شعبے میں کام کرنے دیاگیا جس میں ایک سرکاری کمپنی بھی فعال تھی۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں حکومت نے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے لائف انشورنس کمپنیوں کو ایک بار پھر نجی شعبے میں خدمات انجام دینے کی اجازت دی۔

1938 کے انشورنس ایکٹ کوانشورنس آرڈیننس2000 ء سے بدل دیا گیااور کنٹرولر آف انشورنس کی جگہ ایس ای سی پی نے ریگولیٹرکی حیثیت لے لی، فی الوقت بیمہ کی صنعت میں مجموعی شرح نمو اوسطاً13 فیصد ہے جس میں لائف انشورنس23 فیصد اور نان لائف انشورنس سیکٹر8 فیصد کی شرح سے ترقی کررہا ہے، 2016 ء میں گراس ریٹرن پریمیم256 ارب روپے رہا جس میں لائف انشورنس180 ارب اور نان لائف انشورنس کا حصہ85 ارب روپے تھا، فی الوقت لائف انشورنس سیکٹر میں9 کمپنیاں خدمات انجام دے رہی ہیں جس میں ایک سرکاری6 نجی روایتی انشورنس کمپنیاں اور2 فیملی تکافل کمپنیاں شامل ہیں، نان لائف انشورنس سیکٹر میں41 کمپنیاں کام کررہی ہیں جن میں سے ایک سرکاری35 نجی روایتی اور3 جنرل تکافل کمپنیاں شامل ہیں۔

ملک میں سال2016 ء تک بیمہ کا تناسب جی ڈی پی کے حساب سے0.91 فیصدتک پہنچ گیا ہے جو2012 ء میں0.67 فیصد تھا، اس مدت میں لائف انشورنس کا تناسب0.37 فیصد سے بڑھ کر0.62 فیصد اور نان لائف انشورنس کا تناسب0.30 فیصد سے معمولی گھٹ کر0.29 فیصد رہ گیا، لائف انشورنس سیکٹرکے نئے کاروبار کے حوالے سے سرکاری کمپنی کا حصہ 48 فیصد اور نجی شعبے کا حصہ 55 فیصد ہے جو نجی شعبے کی بہترکارکردگی کی عکاسی ہے، نجی شعبے کی اس کامیابی کے پس منظر میں جوبلی لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ آج فخریہ طور پرنجی شعبے میں سب سے بڑی لائف انشورنس کمپنی بن گئی ہے اگرچہ نجی شعبے کا اس سیکٹر میں واپس آنے کے بعد سے لائف انشورنس کمپنیوں نے وسیع ترقی کی ہے تاہم دیگر معیشتوں کے مقابلے میںیا جنوبی ایشیائی خطے کے پس منظر میں ابھی بہت کام باقی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم عالمی معیارات کے حوالے سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔

انشورنس آرڈیننس کے نفاذ کے نتیجے میں وفاقی انشورنس محتسب کا قیام عمل میں آیا ، ماضی کے مقابلے میں موجودہ دور انشورنس محتسب کی فعالیت کے حوالے سے انتہائی بہتر ہے، بلاشبہ بیمہ کی صنعت ترقی کررہی ہے اور اس کے ساتھ متعدد چیلنجز بھی درپیش ہیں مگر ان میں سے گڈگورننس کو درپیش خطرات کے مقابلے میں کوئی بھی اہم نہیں ہے۔ ادارہ انشورنس محتسب کے قیام سے لوگوں نے انشورنس کی جانب غورکرنا شروع کیا جس کی وجہ سے مقامی انشورنس کمپنیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی، ادارہ انشورنس محتسب کے فوری فیصلوں ، سستے اور آسان طریقہ کار کی وجہ سے نہ صرف انشورنس کمپنیوں بلکہ انشورنس کنندہ میں اعتماد پیدا ہوا ہے۔

ادارہ انشورنس محتسب کی فعالیت سے بیمہ صارفین میں سیکیورٹی میکنزم کی آگاہی ہوئی ، اس ادارے نے عوام میں آگہی پیدا کرنے کے لیے میڈیا سے بھرپوراستفادہ کیا ہے۔  پاکستان میں متعدد نوعیت کے انشورنس بزنسز ہیں جنھیں جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، انشورنس پروڈکٹ کے ابتدائی درخواست فارم سے لیکر تمام دستاویزات انگریزی اور اردو زبان میں متعارف کرائے جانے سے انشورنس کا معلوماتی مواد عام آدمی تک پہنچ سکا ہے اور عام آدمی کو انشورنس پالیسی کو سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے۔

ناصر علی سید ( سی ای او پاک قطرفیملی تکافل)

انشورنس، تکافل انڈسٹری اور وفاقی انشورنس محتسب سے متعلق معلومات پر مبنی ایکسپریس میڈیا گروپ کا یہ سیمینار عام بیمہ داروں کے لیے شعور وآگاہی کا باعث بنے گا، انشورنس سیکٹر دنیا بھر میں اہم معاشی شعبہ ہے جو نقصانات کے ازالوں کا باعث بنتا ہے اور لوگوں کو معاشی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انشورنس کا شرعی متبادل ’’تکافل ‘‘ایک پول بناکر شراکت داروں کے ساتھ ملکر شرعی اصولوں کے مطابق نقصانات کا ازالہ کرتا ہے، تکافل میں رسک کو منتقل نہیں بلکہ پول بناکرشراکت داروں میں شیئرکیا جاتا ہے، پاکستان میں20 سال کے عرصے میں تکافل انڈسٹری کی نمو حوصلہ افزا ہے، پاکستان کے تعلیمی نظام میں انشورنس یا تکافل سے متعلق کوئی تعلیم نہیں دی جاتی ہے لہٰذا عام آگاہی اور رسک موٹی ویشن  کے لیے تمام ٹولز انشورنس یا تکافل کے بارے میں تعلیم دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تعلیمی نظام میں انشورنس کی عدم شمولیت سے مسائل بڑھ رہے ہیں اور ممکنہ نقصانات سے بچاؤ کے لیے اقدامات سے آگاہی کا فقدان ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پالیسی خریدتے وقت کسی پڑھے لکھے شخص کو گواہ بنایا جائے اور پالیسی کی خریداری میں عجلت سے گریز کیا جائے کیونکہ عجلت میں خریدی جانے والی پالیسی سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور وفاقی انشورنس محتسب میں90 فیصد شکایات اسی نوعیت کی ہوتی ہیں، عمومی طور پر انشورنس کے لیے درخواست فارم کو پڑھے بغیر دستخط کردیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بیمہ کنندگان اکثر مسائل کا شکار ہوتے ہیں، پاکستان میںوفاقی ادارہ انشورنس محتسب اپنے قیام کے قلیل مدت میں انتہائی کم وقت میں سستاانصاف فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے جس کی کارکردگی لائق تحسین ہے۔

انھوں نے کہا کہ انشورنس کا نظام متعارف کرائے671 سال ہوگئے ہیں  اور متعلقہ ریگولیٹر ہی اس نظام کو رائج کرتے ہیں، اس شعبے میں انشورنس کمپنیوں کے علاوہ بنیادی کردار عوام اور وفاقی انشورنس محتسب کا ہے جو تنازعات کا تصفیہ کرکے انصاف فراہم کرتا ہے، سال1972 میں سرکاری کارپوریشن کے طور پر انشورنس سیکٹر میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن قائم کیا گیا جبکہ 1995 میں نجی انشورنس کمپنیوں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی گئی، جہاں سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان انشورنس اصلاحات کو اور قوانین کو احسن طریقے سے ریگولیٹ کررہا ہے وہاں وفاقی انشورنس محتسب کی بہترین کارکردگی اور نشاندہی پر انشورنس وتکافل انڈسٹری کو اپنی کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے جنھیں دور کیا جاتا ہے۔

سید مظہرعلی ناصر ( سینئرنائب صدر وفاقی ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان)

لوگ اپنی زندگی کو سہل بنانے مختلف قسم کے تحفظ اور آرام کے لیے انشورنس کا تحفظ حاصل کرتے ہیں، دنیا بھر میںانشورنس100 فیصد لازم وملزوم ہے لیکن پاکستان میں انتہائی محدود ہے جو قابل توجہ امر ہے، ہم آج تک اسی نقطہ نظر میں پھنسے ہوئے ہیں کہ آیا انشورنس اسلام میں جائز ہے یا نہیں، بین الاقوامی سطح پر انشورنس انڈسٹری ترقی کی کئی منازل طے کرچکی ہے لیکن پاکستان کا انشورنس سیکٹر بہت پیچھے ہے کیونکہ ہم ابھی تک انشورنس کی افادیت اور ضرورت سے تاحال مکمل طور پر آگاہ نہیں ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نصاب خصوصاً بزنس ایڈمنسٹریشن میں انشورنس کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔

ایف پی سی سی آئی اور وفاقی انشورنس محتسب کراچی یونیورسٹی میں انشورنس سے متعلق آگاہی کے لیے سیمینار کرانے کی پیش کش کرتا ہے۔ پاکستان میں تھرڈ پارٹی انشورنس صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جس سے کسی کوکوئی فائدہ نہیں ہے پاکستان میں خطے بھر کے ممالک میں جی ڈی پی کے تناسب سے  انشورنس کی شرح سب سے کم ہے جبکہ بنگلہ دیش بھارت کا تناسب زیادہ ہے۔

پاکستان میں اسلامی ذہن رکھنے والوں نے اسلامی بینکاری کی جانب اپنا رخ موڑلیا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کی نموتیزرفتار ہے لیکن اس کے برعکس روایتی انشورنس کے مقابلے میں تکافل کی نمو سست ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے ذہن میں انشورنس مخالف نقطہ نظر کے تدارک کے لیے مقامی انڈسٹری اپنا کردار ادا کرے، پاکستان میں ہرکاروبار کو انشورنس یا تکافل سے مشروط کیا جائے، انشورنس وتکافل دستاویز اور ٹرمینالوجی کو مزید سہل بنایا جائے تاکہ عام آدمی آسانی سے سمجھ سکے، معلومات کو آسان اور قابل دسترس بنایا جائے جبکہ تعلیمی اداروں جامعات میں انشورنس سے متعلق باقاعدہ آگاہی مہم کے لیے ورکشاپس سیمینارز منعقد کیے جائیں۔

پاکستان میں ری انشورنس بزنس کے فروغ کے وسیع مواقع ہیں جو انشورنس انڈسٹری کی نمو کی رفتار کو تیز تر کرسکتی ہے، مقامی انشورنس انڈسٹری بیمہ داروں کو زیادہ سے زیادہ اپنی جانب راغب کرنے کے لیے سہولیات پر مشتمل پروڈکٹ متعارف کرائے،  وفاقی انشورنس محتسب کے قیام سے صدرمملکت نے عام اور کاروباری بیمہ دار کی سہولت کے لیے یہ انقلابی قدم اٹھایا ہے کیونکہ یہ قومی ادارہ عدلیہ پر مقدمات کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے تناظر میں بیمہ داروں کے لیے ایک نعمت ہے۔

جسٹس رٹائرڈ اطہر سعید (مہمان خصوصی)

وفاقی انشورنس محتسب بیمہ تنازعات کے تصفیوں کا ایک متبادل ادارہ ہے یہ ایسا ادارہ ہے جہاں فریقین کو آمنے سامنے بٹھاکر بھی تصفیے کیے جارہے ہیں، عدالتوں میں وکلاء سمیت دیگر اخراجات ہوتے ہیں لیکن ادارہ انشورنس محتسب میں سائل کو بغیرکسی خرچ کے انصاف فراہم کیا جارہا ہے جو ایک مثالی بات ہے، پاکستان میں انشورنس کے متبادل تکافل متعارف ہونے سے اسلامی ذہن رکھنے والوں کو واضح فرق کا اندازہ ہوچکا ہے لہٰذا اب لوگوں کو تکافل سے مکمل استفادے کی ضرورت ہے، انشورنس یا تکافل بعد المرگ انشورنس کنندہ کے خاندان کے لیے اہم سہارے کا باعث ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ انشورنس یا تکافل انسان کے برے وقتوں کا محافظ ہے۔

پاکستان میں انشورنس سیکٹر کو جدید تقاضوں اور خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، انشورنس یا تکافل خاندان کے تعلیم، صحت، معاش سمیت دیگر مسائل کے حل کا باعث ہے اور بعد المرگ خاندان کے مالیاتی مسائل کا ضامن ہے، ادارہ انشورنس محتسب وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس ادارے کی جانب سے شکایت کنندگان کے ریکارڈ نوعیت کے  فیصلے لائق تحسین ہے، انشورنس محتسب بھی جوڈیشری کا اہم حصہ ہے، انھوںنے انشورنس کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ جہاں موقع ملے اپنے صارفین کو ریلیف دینے کی پالیسی اختیار کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔