سری دیوی کے مقابل اداکاری کرنے سے خوف زدہ تھی، پریا آنند

عامر شکور  پير 1 اپريل 2013
’’انگلش ونگلش‘‘نے بہ طور اداکارہ مجھے مزید پر اعتماد بنادیا ہے، پریا آنند  فوٹو : فائل

’’انگلش ونگلش‘‘نے بہ طور اداکارہ مجھے مزید پر اعتماد بنادیا ہے، پریا آنند فوٹو : فائل

تامل اور تیلگو فلموں کے ناظرین اس خوش جمال حسینہ کے دیوانے ہیں۔

وہ کئی برسوں سے ان کے دلوں پر راج کررہی ہے۔ پریا آنند نے ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری کو کئی ہٹ فلمیں دی ہیں۔ اس کی شخصیت ٹیلنٹ اور خوب صورتی کا حسین ملاپ ہے۔ ساؤتھ میں قدرے فربہ اداکاراؤں کو پسند کیاجاتاہے، مگر پریا بولی وڈ کی ہیروئن کے معیار پر بھی پوری اترتی ہے، شاید اسی لیے اس نے ہندی فلم انڈسٹری میں بھی اپنی شخصیت اور صلاحیتوں کا جادو جگانے کی ٹھان لی ہے۔

’’انگلش ونگلش‘‘ وہ فلم تھی جس سے پریا نے بولی وڈ میں قدم رکھا تھا۔ اس فلم میں پریا نے ماضی کی سپر اسٹار سری دیوی کی بھتیجی کا کردار ادا کیا تھا اور اس مہارت سے ادا کیا تھا کہ دیکھنے والے بے اختیار داد دینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ خوش ادا اداکارہ کی تازہ فلم’’رنگریز‘‘ ہے جو گذشتہ دنوں ریلیز کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈائریکٹر فرحان اختر نے اسے اپنی فلم‘‘فکرے‘‘ میں بھی سائن کرلیا ہے۔

٭کیا ’’انگلش ونگلش‘‘ میں آپ کی اداکاری کی پسندیدگی کے بعد آپ کو مزید ہندی فلموں کی آفرز ہوئی تھیں؟
’’انگلش ونگلش‘‘نے بہ طور اداکارہ مجھے مزید پر اعتماد بنادیا ہے۔ میں سری دیوی کی بہت بڑی پرستار ہوں۔ یہ فلم سائن کرنے کے بعد میں سوچ رہی تھی کہ اگر میں نے ان کے مقابل اداکاری کرلی تو پھر میں کسی بھی اداکار کا سامنا کرسکتی ہوں۔ اس فلم کی ریلیز سے پہلے ہی میں نے ’’ رنگریز‘‘ اور ’’ فکرے‘‘ کے لیے آڈیشن دے دیا تھا اور خوش قسمتی سے مجھے منتخب بھی کرلیا گیا تھا۔ تاہم ان فلموں کی شوٹنگ کا آغاز ’’انگلش ونگلش‘‘ کی ریلیز کے بعد ہوا تھا۔

٭ ’’رنگریز‘‘ اور ’’فکرے‘‘ میں کام کرنے کا موقع کیسے ملا؟
ان فلموں کے کاسٹنگ ڈائریکٹر نے مجھے فون کرکے آڈیشن دینے کے لیے کہا تھا۔ میں چنئی سے ممبئی پہنچی اور ایک ہی دن میں دونوں فلموں کے لیے آڈیشن دیا۔ مجھے پہلے’’رنگریز‘‘ میں سائن کیا گیا۔ جب میں نے اس فلم کی 50 فی صد شوٹنگ مکمل کرلی تو معلوم ہوا کہ مجھے ’’فکرے‘‘ کی کاسٹ میں بھی شامل کرلیا گیا ہے۔

٭ ’’رنگریز‘‘ میں آپ کا کردار کس نوعیت کا ہے؟
میں نے اس فلم میں ایک زندہ دل لڑکی میگھا جوشی کا رول کیا ہے۔ یہ بہت مختلف کردار ہے جسے سب پسند کررہے ہیں۔

٭یہ کردار آپ کی ذاتی زندگی سے کس قدر مماثلت رکھتا ہے؟
میں نے اب تک جتنے بھی رول کیے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح میری نجی زندگی سے متعلق رہے ہیں چوں کہ میں نے مختلف ماحول میں زندگی بسر کی ہے۔ میں گاؤں میں بھی رہی ہوں اور میں نے امریکا میں بھی وقت گزارا ہے، اس طرح میرا طرز زندگی متنوع رہا ہے۔

٭پریادرشن (ڈائریکٹر) اور ساتھی اداکارہ جیکی بھگنانی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
پریادرشن میرے لیے ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چوں کہ ان کا تعلق بھی ساؤتھ سے ہے اس لیے بھی میں انھیں اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ زبردست ہدایت کار ہیں اور اداکاروں سے کام لینے میں کامل مہارت رکھتے ہیں۔ جہاں تک جیکی کا تعلق ہے تو وہ ایک اچھی اداکارہ ہے۔ میری اس سے اچھی دوستی ہوگئی ہے۔

٭کیا ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری بولی وڈ میں داخلے کا راستہ ہے؟ کیوں کہ کئی اداکارائیں وہاں نام کمانے کے بعد یہاں کا رُخ کرتی ہیں۔
میں ایسا نہیں سمجھتی میں خود تامل اور تیلگو زبانیں بولتی ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میں ان چند اداکاراؤں میں سے ہوں جو اپنی ڈبنگ بھی خود ہی کرواتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہندی فلموں سے لطف اندوز ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے مگر ساؤتھ انڈین فلم انڈسٹری کی بھی اپنی اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

٭کیا بولی وڈ ہمیشہ سے آپ کا ہدف تھا؟
بالکل نہیں، میں تامل اور تیلگو فلموں میں اداکاری کرتے ہوئے بہت خوش تھی۔ مجھے’’انگلش ونگلش‘‘ کے لیے آڈیشن دینے کی خاطر تین بار فون کالز موصول ہوئی تھیں مگر میں نے انکار کردیا تھا، کیوںکہ میں سری دیوی کے مقابل اداکاری کرنے سے خوفزدہ تھی۔ پھر ایک روز مجھے ساؤتھ کے ڈائریکٹر جیئندرا کی فون کال موصول ہوئی جن کی فلم میں ، میں ان دنوں رول کررہی تھی۔

انھوں نے مجھ پر زور دیا کہ میں اس فلم کے لیے ضرور آڈیشن دوں۔ میں نے ان کی بات پر عمل کیا اور خوش قسمتی سے مجھے اس فلم میں سائن بھی کرلیاگیا۔ نہ تو میرے والدین کا تعلق کبھی شوبز سے رہا اور نہ ہی میرا کوئی گاڈ فادر ہے،یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ہمیشہ مخلص اور ہمدرد لوگوں کا ساتھ میسر آیا۔

٭اپنے بارے میں کچھ بتائیے؟
میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں، میری والدہ تامل جب کہ والد تیلگو ہیں۔ میں چنئی اور حیدرآباد میں پلی بڑھی اور پھر والدین کے ساتھ امریکا چلی گئی۔ چند برس بعد میں دادا، دادی کے ساتھ رہنے کے لیے والدین کو چھوڑ کر انڈیا چلی آئی۔ میں ساؤتھ کے معروف ڈائریکٹر شنکر کی اسسٹنٹ بننا چاہتی تھی مگر قسمت اداکاری کی طرف لے گئی۔

کچھ عرصہ قبل میری ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں بتایا کہ میں ان کی اسسٹنٹ بننا چاہتی تھی۔ انھوں نے جواب دیا کہ وہ خواتین کو اسسٹنٹ نہیں بناتے، ان کا جواب سن کر مجھے جھٹکا لگا تھا۔

٭ ’’رنگریز‘‘اور ’’فکرے‘‘کی کام یابی کے بعد کیا آپ تامل اور تیلگو فلموں سے کنارہ کش ہوجائیںگی؟
بالکل نہیں! مجھے اپنے ساؤتھ انڈین ہونے اور و ہاں کی فلموں میں کام کرنے پر فخر ہے۔ میں دونوں فلم نگریوں میں مصروف رہنا چاہتی ہوں۔

٭مزید کتنی فلمیں سائن کرچکی ہیں؟
’’فکرے‘‘زیر تکمیل ہے اس کے علاوہ میرے پاس دو تامل فلمیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔