خود ہی درد، خود ہی دوا

وسعت اللہ خان  پير 1 اپريل 2013

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک امریکی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ دانستگی یا نادانستگی میں اپنے ہی سر پر پہلے ہتھوڑا مار لو اور پھر اس شخص کو ڈھونڈنے نکل پڑو جس نے یہ ہتھوڑا آپ کے سرپر مار کے گومڑ بنا دیا۔

مثلاً سن اڑتالیس میں جب اسرائیل وجود میں آیا تو پوری دنیا فلسطین میں برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کو اسرائیل کی پیدائش کا الزام دیتے ہوئے زمین پر تھوک رہی تھی۔برطانیہ نے اپنی جان چھڑانے کے لیے یہ بچہ امریکا کی گود میں ڈال دیا اور خود کپڑے جھاڑ کر ایک طرف ہوگیا۔وہ دن اور آج کا دن امریکا کو ہر طرف سے عالمی رائے عامہ کے ’’ وٹے وج رہے ہیں‘‘ مگر وہ گود میں اٹھائے بچے کو اس کے حال پر چھوڑنے کے بجائے منہ سے تھوک نکالتے ہوئے ہر سنگ زن کی طرف بھاگ رہا ہے۔

سن پچاس کی دہائی میں ویتنامیوں نے ہوچی منہہ اور جنرل گیاپ کی قیادت میں فرانس کی نوآبادیاتی طاقت کو ہتھیار ڈال کر ہندچینی سے نکلنے پر اچھا بھلا مجبور کردیا۔عین اس وقت امریکا نے ہزاروں میل دور بیٹھ کر بڑھک مار دی کہ ’’ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ‘‘۔ فرانس کی جان میں جان آئی اور وہ ویتنام کی بلا امریکا کے گلے میں ڈال کر پتلی گلی سے نکل لیا۔ کوئی پندرہ برس میں تیس لاکھ ویتنامی مار کر اور اپنے پچپن ہزار فوجی مروا کر امریکا کو احساس ہوا کہ اس کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہوگیا ہے اور جیسے ہی احساس ہوا وہ سب چھوڑ چھاڑ کر نکل بھاگا۔ کہیں بیس پچیس برس بعد جا کے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ماننا شروع کیا کہ ہاں ویتنام ہماری خارجہ پالیسی کی ایک بڑی غلطی تھی لیکن ویتنام والی غلطی تسلیم کرتے ہی نسیان زدہ امریکا نے اپنے سر پر ایران کا ہتھوڑا مار لیا۔

ستر کی آخری دہائی میں جب میرے محلے کے چھیمے جوگی کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ ’’ ہن ایران دے بادشاہ دا ککھ وی نئیں رہنا ‘‘۔۔عین اس وقت صدر جمی کارٹر تہران کے قصرِ سعد آباد میں رضا شاہ پہلوی سے کہہ رہے تھے کہ امریکا کو خوشی ہے کہ خلیجِ فارس کے آتش فشاں خطے میں ایران استحکام کا شاندار جزیرہ ہے۔۔۔

اور پھر جب صدام حسین نے کویت کا جال بچھایا تو امریکا کو ویتنام سے ایران تک سب اسباق بھول گئے۔ اس نے خود ہی صدام کے ہاتھوں سے ہتھوڑا کھینچ کر اپنے سر پر مارلیا۔ اور جب پہلی مرتبہ اس کے سر پر نائن الیون کا ہتھوڑا پڑا تو امریکا یک دم مولا جٹ کے نوری نت میں بدل گیا۔۔اور پھر یہ نوری نت اپنے ہی زعم میں دشمنوں کے پیچھے پیچھے گھوڑا دوڑاتے ہوئے عراق سے ہوتا ہوا افغانستان میں جا پھنسا۔کیسی عجیب بات ہے کہ جب سوویت یونین افغان پنجرے میں اسی طرح پھنسا تو امریکا سوویت ریچھ کو اسٹنگرز کے نیزے بھی چبھو رہا تھا اور قہقہے بھی لگا رہا تھا لیکن آج وہی امریکا یہ چاہا رہا ہے کہ اس پنجرے سے نکل بھی جائے اور کپڑے بھی نا پھٹیں اور ہنسنا تو دور کی بات کوئی زیرِلب بھی نا مسکرائے۔

آپ کو شاید یاد ہو کہ بش جونئیر نے اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آخری زمانے میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک شعبہ قائم کیا تھا۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ آخر باقی دنیا امریکا سے اتنی بدظن کیوں ہے؟ اس شعبے کا ابتدائی بجٹ دو ملین ڈالر رکھا گیا تھا۔حالانکہ تیسری دنیا کا کوئی بھی راہ چلتا کنگلہ اس سوال کا جواب صرف دو ڈالر میں بتا سکتا تھا۔

میں نے شروع میں کہا تھا کہ امریکا اپنے سر پر خود ہی ہتھوڑا مار کر اس بندے کو تلاش کرنے نکل پڑتا ہے جس نے یہ ہتھوڑا مارا۔امریکا نے گذشتہ ستر برس میں اپنے ساتھ یہ حرکت اتنی دفعہ کی ہے کہ اس کی یاداشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

تازہ خبر یہ ہے کہ واشنگٹن میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار ریلیجن اینڈ ڈپلومیسی ( آئی سی آر ڈی ) نے پاکستان کے سرکاری حکام اور کچھ علما کو ترکی ، مصر، بنگلہ دیش اور سعودی عرب وغیرہ بھجوانے کا انتظام کیا تاکہ وہ ان ممالک کے مذہبی مدارس کے نصاب کا تقابلی جائزہ لے کر پاکستان کے مذہبی مدارس کے لیے ایک ایسا نصاب تیار کرنے میں مدد دیں جس میں جدید اور مذہبی علوم ایک توازن کے ساتھ شامل ہو سکیں۔ یہ نصاب مدارس پر تھوپا نہیں جائے گا بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے مدارس کو نصابی تشکیل میں مدد فراہم کی جائے جو ایسا کرنے کے خواہش مند ہیں۔مقصد یہ ہے کہ طلبا کو تشدد اور انتہا پسندی کی جانب مائل کرنے کے بجائے ان کی تجزیاتی صلاحیتوں کو ابھارا جائے تاکہ وہ انسانی حقوق اور رواداری کے تصوراور دیگر مذہبی و سماجی ثقافتی رویوں کو سمجھنے کی اپنی صلاحیت بہتر بنا سکیں۔

ظاہر ہے کہ ایسے منصوبے جن کا مقصد رواداری ، برداشت اور غیرجزباتی تجزیے کو فروغ دینا ہو ان سے کوئی شخص اختلاف مشکل سے ہی کرے گا۔اگر اس طرح کے منصوبے نیک نیتی سے شروع کیے جائیں تو جلد یا بدیر ان کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔۔ بس ایک چیز ہے جو مجھے کھٹک رہی ہے۔

سن اسی کی دھائی میں امریکا کی یونیورسٹی آف نبراسکا اوماہا کے سینٹر فار افغان اسٹڈیز نے مذہبی مدارس کے لیے جہادی سلیبس کی تیاری میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔اس زمانے میں مدارس کو دری اور پشتو زبان میں جو کتابیں فراہم کی گئیں ان میں بندوقوں ، لاشوں ، بموں اور جہادی جذبے کا کھل کر تصویری اور حرفی اظہار کیا گیا تھا تاکہ روسی ملحدوں کے مقابلے کے لیے سرشار مجاہدین تیار کیے جاسکیں۔اور آج یہی نصاب امریکا دوبارہ تبدیل کرنے کے لیے اپنا سر کھپا رہا ہے تاکہ بندوق کی جگہ دلیل ، تنگ نظری کی جگہ روشن خیالی اور شدت پسندی کی جگہ برداشت لے سکے۔

وہ بھی امریکا نے کیا ، یہ بھی امریکا ہی کررہا ہے۔معلوم نہیں اس وقت امریکا غلط کررہا تھا یا آج غلط کررہا ہے۔۔۔اس کا جواب بھی کوئی امریکی ہی آج سے بیس پچیس برس بعد دے پائے گا۔مگر تب تک جانے اور کتنے ہتھوڑے امریکا اپنے سرپے مار چکا ہوگا۔۔۔۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔