بلِ ناخواستہ

شکیل صدیقی  منگل 27 فروری 2018

بغلول سبزواری نے چوتھی بار بجلی کے بل کی طرف دیکھا اور پسینہ پونچھنے لگا۔گرمی تو ایسی زیادہ نہیں تھی،گرمی میں جب پنکھا انگڑائیاں لے لے کر چلتا ہے تو اچھے اچھوں کو پسینہ چھوٹ جاتا ہے، لیکن بل اس کے چھکے چھڑائے دے رہا تھا ۔مبلغ دس ہزار روپے سکہ رائج الوقت ۔اس کے زیر استعمال دو ہی کمرے تھے اور ایک ننھا سا فریج ۔جس میں چیزیں ٹھنڈی ہونے کے بجائے گرم ہوجایا کرتی تھیں ۔چنانچہ جب گرم پانی سے غسل کرنے کی خواہش ہوئی تو فریج کھول کر بالٹی میں ڈال لیا اور جب ٹھنڈے کی حاجت ہوئی تو بازار سے برف خرید لایا۔

فریج کھولنے پر ہر بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا،اس لیے کہ چیزیں اپنی ہیئت کھو بیٹھتی تھیں، مثلاً انڈے ابلے ہوئے نکلتے تھے۔ جیلی شیرہ بن جاتی تھی اور دودھ کو فریج میں رکھنے کے بعد دوبارہ گرم کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔اس کی بیوی ’’آفت سبزواری‘‘ دودھ فریج سے نکال کر بچوں کو پلا دیا کرتی تھی ۔(انھوں نے کبھی مطالبہ نہیں کیا تھا کہ دودھ گرم کیا جائے) بغلول کو جب دودھ پتی کی چائے پینا ہوتی تھی تو وہ دودھ میں پتی ڈال کر پی لیا کرتا تھا ۔

کپڑوں پر استری کرنے کی نوبت یوں نہیں آتی تھی کہ لوڈ شیڈنگ میں استری گرم ہی نہیں ہوپاتی تھی۔چنانچہ وہ کپڑے بغیر استری کے پہن لیا کرتا تھا اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اپنے کپڑے وہ الماری میں رکھنے کے بجائے مٹکے میں رکھتا ہے ۔ پنکھوں کا حال ناگفتہ بہ تھا،جب انھیں چلایا جاتا تھا تو وہ گھوں گھوں کی آواز کے ساتھ نہایت سست رفتاری سے چل پڑتے تھے (اس لیے کہ وولٹیج کم ہوجاتا تھا۔) بچے سہم کر پنکھا بند کرکے آرام کی نیندسو جاتے تھے۔

ٹیلی وژن کی بے تکی خبروں اور بے ہنگم ڈراموں کو دیکھنے کی نوبت یوں نہیں آتی تھی،اس لیے کہ ٹھیک اس وقت لائٹ چلی جاتی تھی۔غرض یہ کہ بجلی کے آنے جانے(بلکہ جانے جانے) سے اس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ حاصل ہو رہے تھے۔

وقت کم تھا اور مقابلہ سخت ۔بجلی کا بل جتنی جلد ٹھیک ہوجاتا اتنا ہی مناسب تھا ۔لہٰذا اس نے پاجامے کے اوپر شیروانی پہنی اور سر پرپھندنے والی ترکی ٹوپی لگا کر محکمہ برقیات کے دفتر کی طرف چل پڑا۔(ٹوپی ایسی تھی جو اب ترکوں نے بھی پہننا چھوڑ دی تھی، مگر بہلول کو اس سے اتنی الفت تھی کہ اس کا بس چلتا تو سوتے میں بھی اسے لگائے رکھتا،بلکہ اسے گوند سے سر پہ چپکا لیتا)

وہاں گیا تو اسے یہ دیکھ کر گھبراہٹ ہوئی کہ وہ لائن تقریباً ایک میل لمبی ہے جس کے آخر میں کھڑا ہونا پڑے گا۔یہ دیکھ کر اطمینان بھی ہوا کہ اس لائن میںامرود الہٰ آبادی، وحشت کلکتوی، ہد ہد سلیمانی اور لاغر مراد آبادی ، شوربہ خان اور چپاتی خانم (جن کے بغیر ہر محفل ادھوری رہتی ہے)بھی موجود ہیں جن سے ادب عالیہ پر سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے اور ٹائم پاس کیا جاسکتا ہے(گویا ادب ٹائم پاس کرنے کا ذریعہ ہے،حاصل حصول کچھ نہیں) سب نے اپنے ہاتھوں میں بل تھام رکھے تھے(بلِ ناخواستہ) اور ان سے پنکھا جھل رہے تھے۔یوں ہی ،لاشعوری طور پر، ورنہ ان سے ہوا تو نکل نہیں رہی تھی۔اس لیے پیشانی سے بہنے والا پسینہ ایڑیوں تک جا رہا تھا۔سارے ادیب اسے دیکھ کر مسکرائے،کھلکھلائے اور پھر چپچپانے لگے۔

بغلول سبزواری نے محسوس کیا کہ اس کے جسم کے نازک حصے بھیگ رہے ہیں ۔ شیروانی اتار کر وقتی سکون حاصل کیا جاسکتا تھا، مگر اتنے خواتین و حضرات کی موجودگی میں وہ شیروانی کیسے اتارتا،اس نے تو نیچے کچھ پہنا ہی نہیں تھا۔اسے چاہیے تھا کہ صرف بنیائن اور چڈی پہن کر وہاں آجاتا،شیروانی پہننے کی حماقت اس نے کیوں کی؟(ان افراد سے معذرت جو گرمی میں شیروانی پہنتے ہیں اور موسم کی سختی کا مقابلہ کر لیتے ہیں) بہرحال اب تو کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔

’’ہمارے تودماغ پگھل رہے ہیں۔‘‘چپاتی خانم بولیں۔’’مگر آپ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا ’’سب کچھ‘‘ پگھل رہاہے۔سچ بتائیے،کیا آپ نے شیروانی کے نیچے برف کی سل رکھی ہوئی ہے ؟‘‘

بغلول کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا،اس لیے وہ باقاعدہ شرماگیا اور اپنی ٹوپی اتار کر اسے نچوڑنے لگا۔(حالانکہ اسے کپڑے اتار کر اپنا جسم نچوڑنا چاہیے تھا) لوگ سرکتے گئے اور لائن بڑھتی چلی گئی۔شام تک اس کا بھی نمبر آگیا۔محکمہ برقیات کا آفس بند ہونے کا وقت قریب تھا۔جب وہ بڑے صاحب کی میز کے قریب پہنچا تو انھوں نے چشمے کی پھنگ اٹھاتے ہوئے پوچھا۔’’ہوں،کیا بات ہے؟‘‘

’’جی یہ بل۔‘‘

’’وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔یہ بل ہے۔‘‘

’’بہت زیادہ ہے۔اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔‘‘بغلول منمنایا۔پھر اس نے سابقہ بل اس میز پر رکھ دیے۔

اس نے بے پروائی اسے انھیں الٹ پلٹ کر دیکھا۔پھر دانشوروں کی طرح کہا۔’’تم نے کوئی تقریب وغیرہ کی ہوگی جس سے بجلی زیادہ خرچ ہوگئی۔‘‘

’’جی بیس برس پہلے میری شادی ہوئی تھی تو گلی میں شامیانہ لگا کر ولیمہ کر لیا تھا۔لیکن اس کا بل کیا اب آیا ہے؟‘‘

’’ممکن ہے بیٹے یا بیٹی کی شادی کی ہو؟سوچ کربتاؤ۔‘‘

’’جی ، میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔‘‘

’’ہوں تو پھر کیا کروں؟قسطوں میں کر دوں؟دو ہزار روپے مہینہ کی قسط کرا لوں۔‘‘

’’مگر کس جرم میں؟میں نے تو اتنی بجلی ہی خرچ نہیں کی؟بل کس بات کا ادا کروں؟‘‘

میٹر ریڈر نے کچھ دیکھ کر ہی بل بنایا ہوگا۔ پھر کمپیوٹر نے اسے چھاپ کر نکال دیا۔اب اسے بھرے بغیر کوئی چارہ نہیں۔بڑے شہروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘

’’اگر میں نہ بھروں تو ؟‘‘بغلول کواس کا اطمینان دیکھ کر غصہ آگیا۔

’’تو پھر بجلی کٹ جائے گی۔‘‘صاحب نے مزید اطمینان سے کہا۔

بغلول کو بھی مزید غصہ آگیا،لہٰذا وہ اپنے گھر آگیا۔

اس نے لائٹ کٹوانے کا فیصلہ کر لیا۔ٹھنڈے پانی کے لیے ایک صراحی اور مٹکا خرید لایا ۔گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک درجن پنکھے خرید لیے۔پھر ان دنوں کو یاد کر کے سو گیا جب ایڈیسن نے بلب ایجاد نہیں کیا تھا، بجلی دریافت نہیں ہوئی تھی اور لوگ پنکھوں کا بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے۔ لنگوٹی پہن کر دریا کی طرف جاتے تھے اور نہا لیا کرتے تھے۔زیادہ گرمی لگتی تھی تو سولر ہیٹ لگالیا کرتے تھے اور سائیکل پر دفتر جایاکرتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔