کراچی میں انتخابات کا دنگل سجنا شروع ہوگیا

فیصل حسین  منگل 2 اپريل 2013
کراچی کی انتخابی سیاست کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ یہاں تمام حلقوں میں انتخابات مکمل طور پر جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔   فوٹو : فائل

کراچی کی انتخابی سیاست کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ یہاں تمام حلقوں میں انتخابات مکمل طور پر جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ فوٹو : فائل

 کراچی میں انتخابات کا دنگل سجنا شروع ہوگیا ہے ، کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔

امیدواروں کے جمع کرائے گئے کاغذات کی جانچ پڑتال شروع ہوچکی ہے۔ اب کی بار صرف یہ نہیں دیکھا جارہا کہ کاغذات نامزدگی فارم درست بھرا یا نہیں اب معاملہ بہت مختلف ہے اب تو امیدواروں کے ماضی کو تہہ در تہہ دیکھا جائے گا ۔بجلی کے بل سے بینکوں کے قرضے تک ، تعلیمی اسناد سے انکم ٹیکس کی ادائیگیوں تک امیدوار کو ہر مقام اور ہر سطح پر اپنے آپ کو شفاف ثابت کرنا ہوگا ، جھوٹ بولنا یا کچھ پوشیدہ رکھنا ایک مشکل مرحلہ ہوگیا ہے 7 دن تک امیدواروں کی محکمہ محکمہ تحقیقات کرائی جائیں گی ۔

اس کے بعد جاکر امیداروں کو الیکشن میں حصہ لینے کی سند مل سکے گی اس مرتبہ پاکستان کے عوام نے بھی الیکشن کمیشن کے ساتھ بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں الیکشن کمیشن ان امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کررہا ہے ان امیدوں اور کوششوں کا نتیجہ نئے ایوانوں میں داخل ہونے والے افراد کی کارکردگی کی صورت میں سامنے آئے گا بہرحال ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ۔

کیونکہ لفظوں کو جتنا بھی احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جائے مگر حقیقت تو یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کا مقابلہ اپنے وقت کے بہترین چالبازوں ، سازشیوں اور عیاروں سے ہے جن کو عرفعام میں پاکستانی سیاستدان کہا جاتا ہے یہ آپس میں جتنے بھی ایک دوسرے کے مخالف ہوں مگر ان کے الیکشن کمیشن کے حوالے سے شکایات ، تحفظات ، خدشات اور وسوسوں کی یکسانیت بھی اپنی مثال آپ ہے ۔

کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 20 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 42ہے ووٹروں کی مجموعی تعداد 68 لاکھ 64 ہزار 9 سو 45 ہے دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے ووٹر رائے دہی کو اپنا حق سمجھتے ہوئے استعمال بھی کریں گے یا رضاکارانہ طور پر اپنے دیگر حقوق کی طرح اس حق سے بھی دستبردار ہوجائیں گے ۔

کراچی کی انتخابی سیاست کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ یہاں تمام حلقوں میں انتخابات مکمل طور پر جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں کسی بھی نشست پر ملک کے دیگر علاقوں کی طرح شخصیت کی بنیاد پر کوئی حلقہ نہیں ہے یعنی کسی حلقے کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اس حلقے میں فلاں شخصیت کی حیثیت مضبوط یا بھاری ہے ایسا کچھ کم سے کم کراچی میں نہیں ہے یہاں جو بھی طاقت ، اہمیت اور انفرادیت ہے وہ پارٹی کو ہے فرد کو نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ اس پارٹی کے اندر طاقت کا منبع کوئی ایک ہی شخص ہو۔

کراچی میں گزشتہ انتخابات 2008 میں قومی اسمبلی کی 20میں سے 17نشستیں ایم کیوایم جبکہ تین نشستیں پیپلزپارٹی نے حاصل کیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 42نشستوں میں سے ایم کیوایم نے 34نشستین جیتیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے حصے میں بالترتیب 6 اور2نشستیں آئیں 2013کے انتخابات میں کیا ہوگا ظاہر ہے کہ حتمی نتیجہ تو ابھی نہیں دیا جاسکتا وہ 11مئی کی رات کو ہی معلوم ہو سکے گا ابھی تو صرف تجزیے ہی کیے جاسکتے ہیں جو کہ تجزیہ نگاروں سے عام شہریوں تک ہر کوئی اپنی خواہشات کی بساط پر اپنی استعداد کے مطابق کررہا ہے اور کسی حتمی فیصلے یا سرکاری نتائج کی طرح اسی کو درست سمجھ رھا ہے ۔

کراچی گزشتہ پانچ سال سے بدامنی کی بدترین شکل پیش کرتا رہا ہے ان پانچ سالوں میں لاشیں گرتی رہیں ، لوگ اغواء ہوتے رہے ، بھتہ وصول کیے جاتے رہے ، بدامنی ، دہشت گردی اور بربریت کی دنیا میں جو جو شکلیں ہیں یا تاریخ کی کتابوں میں ان کے جو حوالے تحریر ہیںکراچی میں وہ بدرجہ اتم اپنی تمام تر ہیبت اور وحشت کے ساتھ موجود ہیں ، واقعی اس شہر کے لوگوں کے ساتھ ظلم ہے وہ اس وقت دنیا کے خطرناک ترین خطے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ان حالات میں اپنے مستقبل کے نمائندوں کو منتخب کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے کراچی ویسے تو کئی عشروں سے امن وامان کی ابتر صورتحال کا شکار ہے ، تاہم کراچی میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ عام طور پر عام انتخابات والے دن کراچی میں بدامنی کی صورتحال بہرحال بہت زیادہ خراب نہیں ہوتی لہذا اس دفعہ بھی یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ انتخابی مہم میں جتنا بھی تناؤ ، کشیدگی اور الزامات ودھمکیوں کا سامناہو، انتخابات والے دن امن وامان کی صورتحال بہتر ہوگی ۔

کراچی کے شہریوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں 11مئی کو نکلیں اپنا ووٹ استعمال کریں وہ جس کو چاہتے ہیں اس کو ووٹ دیں اورضرور دیں زندہ قومیں تبدیلی کے لیے کوششیں کرتی ہیں ہم صرف ووٹ دے سکتے ہیں لہذا یہ ضرور دینا چاہیے ،،ایک اچھی امید کے لیے ،،ایک روشن صبح کے لیے، اگرچہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم ابھی شروع نہیں ہوئی تاہم سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی مہمات کے ڈیزائن تیار کرلیے ہیں کہ یہ مہم کیسی چلانی ہے اس کو بھرپور کس طرح بنانا ہے۔

عوام کے لیے اس مہم میں کشش کس طرح پیدا کرنی ہے ، پرانے منشوروں کو زیروزبر اور سرورق کی تبدیلی کے بعد نئے منشور کی شکل دے کر پیش کرنا شروع کردیا گیا ہے کیونکہ منشور پر عمل نہیں کرنا ہوتا لہذا سیاسی جماعتیں منشور کی تیاری میں وقت کے ضیاع سے اجتناب کرتی ہیں منشور پر عرق ریزی کرنے کے بجائے جوڑ توڑ کی سیاست اور الیکشن کے دن کی حکمت عملی پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔

آج کل سیاسی جماعتوں کے صدر دفاتر میں زبردست رونق دیکھنے میں آرہی ہے ہر جماعت نے اپنا الیکشن سیل قائم کردیا ہے ، جہاں ہر حلقے کے حوالے سے حکمت عملی تیار کی جارہی ہے ، امیدواروں کے انٹرویو ہورہے ہیں کس کو اس مرتبہ ٹکٹ دینا ہے اور کس کوٹکٹ لینے سے روکنا ہے ، سیاسی جماعتوں کی مخالف جماعتوں سے مخالفت اپنی جگہ ، مگر ہر جماعت کے اندر کی گروپ بندیاں بھی ٹکٹ دلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ،سیاسی جماعتوں کی گروپ بندیاں اور ان گروپوں کے بارے میں رائے ، تعلقات کی نوعیت اور مخالفت کا انداز مکمل طور پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی صورتحال کا عکاس ہوتا ہے۔

کراچی میں بدترین سے بدترین بدامنی میں بھی انتخابات میں ہر جماعت انتخابی مہم بھرپور چلاتی ہے شہر کا کوئی سائن بورڈ نہیں چھوڑا جاتا ، کسی دیوار کو نہیں بخشا جاتا وال چاکنگ سے جو جگہ بچ جائے وہاں پوسٹر اور پمفلیٹ لگادیئے جاتے ہیں شہر کا ہر پول اس پر بلب ہو یاکسی نہ کسی سیاسی جماعت کا پرچم ضرور لہرا رہا ہوتا ہے ، روایتی مقامات پر بڑے بڑے جلسے بھی ہوتے ہیں ، گلیوں اور محلوں میں کارنر میٹنگ اور چھوٹے جلسے بھی ہر روز ہوتے ہیں۔

ہر حلقے میں ریلیان نکالی جاتی ہیں ،کراچی میں انتخابات کا ماحول بہت ہی دلچسپ ہوتا ہے جو کہ ایک دن پہلے تک ایسا تاثر دیتا ہے کہ الیکشن والے دن کانٹے کا مقابلہ ہوگا اس مرتبہ کیا ہوگا کچھ کہانہیں جاسکتا ، الیکشن کمیشن کی شرائط بھی بہت ہیں ، سائن بورڈوں پر پابندی ہے ، پوسٹروں کی تعداد کا تعین کردیا گیا ہے ، پھر سب سے بڑا خوف اس مرتبہ خودکش دھماکوں کا ہے ،خودکش حملہ آور کی ہیبت اور اس کی آمد کا خوف مخالف امیدوار کی طاقت سے کئی گناہ زیادہ ہے ماضی کے برعکس اس مرتبہ بدامنی کی شدت سب سے زیادہ ہے۔

اس مرتبہ کراچی میں انتخابی مہم چلانا سیاسی جماعتوں کے لیے بہرحال ایک مشکل مرحلہ ہوگا یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے سلسلے میں سیاسی جماعتیں ٹیکنالوجی کی مدد لے رہی ہیں سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے لیے ہر سیاسی جماعت نے اپنے کارکنوں کے خصوصی دستے کمپیوٹرز کے سامنے بیٹھادیئے ہیں جہاں سے وہ اپنی جماعت کی تشہیر بھی کررہے ہیں اور مخالف جماعتوں کے خلاف پروپیگنڈہ بھی کررہے ہیں ، سیاسی جماعتیں اپنی مہم کو موثر بنانے کے لیے ٹیلی ویژن کو بھی استعمال کریں گی خصوصی دستاویزی فلمیں تیار کی جارہی ہیں جو کیبل آپریٹرز کی مدد سے ٹی وی پر چلائی جائیں گی۔

ویسے تو کراچی میں کم وبیش تمام حلقوں پر بھرپور اور کانٹے کے مقابلے کے دعوئے کیے جارہے ہیں تاہم سب سے دلچسپ معرکہ این اے 250میں پیش آنے کی توقع ہے یہ حلقہ عمومی زبان میں ڈیفینس ۔کلفٹن کی نشست کہلاتا ہے یہ حلقہ بھی ایم کیوایم ہارتی جیتتی رہی ہے ، جماعت اسلامی بھی اس حلقے پر کامیاب ہوچکی ہے ، پیپلزپارٹی 2008کے انتخابات میں ہارنے کے باجود جیتنے والے کے ووٹوں سے چند ہزار پیچھے تھی ایم کیوایم کی امیدوار خوش بخت شجاعت 52ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار مرزا اختیار بیگ 44ہزار ووٹ لے کر ہار گئے تھے۔

اس مرتبہ جماعت اسلامی بھی اس حلقے میں اپنا امیدوار کھڑا کررہی ہے ، اس کو وہ واحد حلقہ کہ سکتے ہیں جس کے بارے میں تحریک انصاف کو جیتنے کی سب سے زیادہ امید ہے ، یہ کراچی کا وہ حلقہ ہے جس میں ہر ووٹ اپنا ایک کردار ادا کرے گا ،ہر پارٹی اس حلقے میں کامیابی کے لیے اپنا پورا زور لگائے گی پیپلزپارٹی نے راشد ربانی ، جماعت اسلامی نے نعمت اﷲخان ، تحریک انصاف ڈاکٹر عارف علوی جبکہ ایم کیوایم کی طرف سے ڈاکٹر فاروق ستار یا خوش بخت شجاعت امیدوار ہوسکتی ہیں ، امریکہ میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ بھی اس حلقے سے الیکشن لڑرہی ہیں ، یہاں سے سابق صدر پرویز مشرف بھی امیدوار ہیں اگر اس حلقے میں سیاسی جماعتوں کے ووٹر منتقسم ہوگئے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ایم کیوایم کو ہوگا تاہم سابق صدر پرویز مشرف ایم کیوایم کے ووٹ کاٹ سکتے ہیں مگران کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔

کراچی سے ایم کیوایم کا مینڈیٹ چھیننا ملک بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور علاقائی گروپوں کی سب سے بڑی خواہش بھی ہے اور ہدف بھی تاہم وہ اپنی خواہش کی تکمیل اور ہدف کے حصول کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہیں ان جماعتوں کی اس ناکامی اور کمزوری میں ایم کیوایم 11مئی کے انتخابی معرکے میں اپنی کامیابی تلاش کرنے کی حکمت عملی مرتب کرے گی وہ اس میں کتنا کامیاب رہتی ہے اس کا اندازہ انتخابات والے دن ہی ہوسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔