نئی حلقہ بندیاں؛ آبادی بڑھنے کے باوجود کئی اضلاع میں اسمبلی نشستیں کم

سید اشرف علی  منگل 27 فروری 2018
3 نشستوں کے بجائے جیکب آباد اور کشمور کو قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست ملے گی، کرم ایجنسی کی ایک نشست کم ہو گئی۔ فوٹو: فائل

3 نشستوں کے بجائے جیکب آباد اور کشمور کو قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست ملے گی، کرم ایجنسی کی ایک نشست کم ہو گئی۔ فوٹو: فائل

کراچی: الیکشن کمیشن آف پاکستان کی زیر نگرانی ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کیلیے جو اصول وضع کیا گیا ہے اس کے تحت کئی اضلاع میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں کمی بیشی ہو رہی ہے۔

2017 کی مردم شماری کے بعد بیشتر اضلاع میں آبادی کافی بڑھ چکی ہے تاہم نشستیں بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیں، اندرون سندھ سے کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں منتقل ہورہی ہیں جس سے کراچی میں قومی اسمبلی کی مجموعی تعداد21ہوجائے گی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھ کر 44 ہوجائیں گی۔

جیکب آباد جس کی آبادی10لاکھ سے زائد ہے تاہم وہ ایک قومی اسمبلی سے محروم ہوگیا ہے، کراچی اور اندرون سندھ کے5اضلاع ڈسٹرکٹ سینٹرل، ساؤتھ نوشہروفیروز، شہید بے نظیر آباد اور شکارپور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہورہے ہیں اور یہ نشستیں ڈسٹرکٹ ویسٹ، ملیر، کورنگی، ایسٹ اور خیر پورمیں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں آبادی11لاکھ 67ہزار 892ہے لیکن قومی اسمبلی کی ایک نشست ملے گی،فاٹا کے علاقے کرم ایجنسی میں 2013 تک قومی اسمبلی کی 2 نشستیں تھیں، نئی مردم شماری کے تحت آبادی بڑھ گئی تاہم ایک نشست کم ہوگئی۔

پنجاب میں سب سے بڑا حلقہ حافظ آباد میں تشکیل ہورہا ہے جس کی آبادی11 لاکھ سے زائد ہے لیکن قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہورہی ہے، الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران نے بتایاکہ نئی حلقہ بندیوں کے آئینی ترمیمی بل2017 کے ذریعے صوبوں، اسلام آباد اور فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کا تعین کیا گیاہے جس کے تحت الیکشن کمیشن نے ضلعی سطح پر نشستوں کی تقسیم کیلیے فارمولا وضع کیا ہے۔

اس فارمولے کے تحت 1.5کے تناسب پر 2 نشستیں بنائی جائیں گی جبکہ اس سے کم پر ایک نشست ملے گی، اس حساب سے کئی اضلاع میں آبادی کافی بڑھی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن نشست ایک ملے گی، خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں میں آبادی 11لاکھ 67ہزار 892 ہے لیکن قومی اسمبلی کی ایک نشست ملے گی، خیبرپختونخوا میں آبادی کے حساب سے بنوں کی قومی اسمبلی کی نشست سب سے بڑی ہوگی۔

فاٹا کے علاقے کرم ایجنسی میں 2013 تک قومی اسمبلی کی 2 نشستیں تھیں، موجودہ آبادی اور فارمولے کے تحت یہاں ایک نشست بنتی ہے اور یہ فاٹا کی سب سے بڑی قومی اسمبلی کی نشست ہوگی، کرم ایجنسی میں 1998کی مردم شماری کے حساب سے آبادی 4لاکھ 48 ہزار 310تھی اور قومی اسمبلی کی2 نشستیں تھیں، 2017 میں اس کی آبادی بڑھ کر 6لاکھ 19ہزار 553ہوگئی ہے لیکن جو فارمولا طے کیا گیا ہے اس کا تناسب 1.49ہے، نتیجتاً کرم ایجنسی ایک نشست سے محروم ہوگئی ہے اور یہ نشست باجوڑ ایجنسی میں منتقل ہورہی ہے۔

پنجاب میں قومی اسمبلی کی سب سے بڑی نشست ڈسٹرکٹ حافظ آبادکی ہوگی، 2017 کی مردم شماری میں حافظ آباد کی آبادی 11لاکھ 56ہزار 957 ہو گئی ہے مگر فارمولے کے تحت تناسب تناسب 1.48 بنتا ہے جس کی وجہ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست ملے گی، 1998 کی مردم شماری میں حافظ آباد کی آبادی 8لاکھ 32ہزار 980تھی اور قومی اسمبلی کی 2 نشستیں تھیں، سندھ حکومت کی جانب سے کچھ سال قبل انتظامی طور پر ڈسٹرکٹ جیکب آباد کو2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور کشمور کو علیحدہ کرکے الگ ڈسٹرکٹ بنادیا گیا ہے۔

ماضی میں 2002 کی حلقہ بندی کے تحت جیکب آباد میں قومی اسمبلی کی 3نشستیں تھیں تاہم نئی حلقہ بندیوں کے تحت ایک نشست تشکیل دی جائے گی جس کی بڑی وجہ کشمور کو علیحدہ ڈسٹرکٹ بنایا جانا ہے، جیکب آباد کی موجودہ آبادی سے فارمولے کے تحت تناسب1.28بنتا ہے جس کی وجہ سے اسے ایک نشست ملے گی، کشمور کی موجودہ آبادی کے تحت تناسب 1.39بنتا ہے جس کے تحت کشمور کو بھی ایک نشست ملی گی، نتیجتاً جیکب آباد و کشمور ایک نشست سے محروم ہوجائیں گے۔

سندھ میں قومی اسمبلی کی سب سے بڑی نشست کشمور میں تشکیل پائی گی جس کی آبادی 10لاکھ 89ہزار 169ہے جبکہ جیکب آبادکی آبادی 10لاکھ چھ ہزار297ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جیکب آباد سے کم ہونی والی قومی اسمبلی کی نشست کراچی کے ملیر ڈسٹرکٹ میں منتقل ہورہی ہے، اس طرح کراچی میں ایک نشست کا اضافہ ہورہا ہے، پہلے کراچی میں قومی اسمبلی کی 20نشستیں تھیں، اب 21ہوجائیں گی، ڈسٹرکٹ ملیر کی آبادی20لاکھ 8ہزار 901ہے جس کا تناسب 2.56بنتا ہے، اس تناسب کی وجہ سے ملیر میں ایک نشست کا اضافہ ہوگا، کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہوکر ڈسٹرکٹ ویسٹ میں منتقل ہورہی ہے۔

نئی مردم شماری کے تحت ڈسٹرکٹ سینٹرل کی آبادی29لاکھ 71ہزار 626ہے جس کا تناسب 3.7بنتا ہے یعنی4 نشستیں جبکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کی آبادی 39لاکھ14ہزار 757 ہوگئی ہے جس کا تناسب 4.9یعنی5 نشستیں بنتی ہیں، 1998کی مردم شماری میں ڈسٹرکٹ سینٹرل کی آبادی 22لاکھ 77ہزار 931تھی جبکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں 20لاکھ 89ہزار 509تھی،2013کے الیکشن تک این اے 243 کی حلقہ بندی 50فیصد مساوی طور پر ڈسٹرکٹ سینٹرل و ویسٹ میں تقسیم تھی تاہم نئی حلقہ بندی کے تحت اب یہ نشست مکمل طور پر ڈسٹرکٹ ویسٹ میں منتقل ہوجائیگی۔

کراچی میں ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہوکر ڈسٹرکٹ ایسٹ میں منتقل ہورہی ہے ، کراچی میں قومی اسمبلی کی سب سے بڑی نشست ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں تشکیل پارہی ہے جس میں فی نشست آبادی کا تناسب 8لاکھ 95ہزار 876 بن رہا ہے۔ سندھ میں مجموعی طور پر صوبائی اسمبلی کی نشستیں 130 بدستور برقرار ہیں تاہم کراچی اور اندرون سندھ کے اضلاع میں نشستوں میں کمی بیشی ہورہی ہے۔

الیکشن کمیشن نے جو فارمولا وضع کیا ہے وہ فی نشست 3لاکھ 68ہزار 354آبادی پر مشتمل ہے، اس فارمولے کے ذریعے اضلاع میں نشستیں تقسیم کی گئیں جس کے تحت سندھ کے5 اضلاع صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہورہے ہیں، اندرون سندھ کے اضلاع نوشہروفیروز اور شہید بے نظیر آباد کی 1-1صوبائی اسمبلی کی نشست کم ہوکر کراچی کے ڈسٹرکٹ کورنگی اور ڈسٹرکٹ ملیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہیں۔

اس طرح کراچی میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 44ہوجائے گی جبکہ پہلے 42تھیں، کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل کی2نشستیں کم ہوکر ڈسٹرکٹ ویسٹ میں منتقل ہوجائیںگی جبکہ ڈسٹرکٹ ساؤتھ کی ایک نشست کم ہوکر ڈسٹرکٹ ایسٹ میں ٹرانسفر ہوجائیگی ، ڈسٹرکٹ شکار پور بھی ایک نشست سے محروم ہورہا ہے جس سے خیر پور میں ایک نشست کا اضافہ ہوجائے گا۔

حلقہ بندی کے 2 مراحل میں الیکشن کمیشن کا صوابدیدی اختیار

آئندہ عام انتخابات کیلیے ملک بھر میں حلقہ بندیوں کی تشکیل آخری مراحل میں ہے، یہ حلقہ بندیاں 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے تحت 3 مراحل میں طے کی جارہی ہیں، پہلے مرحلے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کی گئی جس کے تحت قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور آبادی کی بنیاد پر صوبوں ، فاٹا اور اسلام آباد میں یہ نشستیں تعین کردی گئیں، دوسرا اور تیسرا مرحلہ الیکشن کمیشن نے وضع کیا۔

دوسرے مرحلے میں صوبے کی آبادی کے تحت اضلاع میں نشستیں تقسیم کی گئیں جبکہ تیسرے مرحلے میں اضلاع کی آبادی کی بنیاد پر حلقہ بندیاں تشکیل دی جارہی ہیں، الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیمی بل کے ذریعے جو گائیڈ لائن وضع کی گئی ہے الیکشن کمیشن اس کے تحت حلقہ بندیاں تشکیل دے رہا ہے۔

ملک میں آئندہ انتخابات کے انعقاد کیلیے نئی حلقہ بندیاں2017 کی مردم شماری کے تحت 3 مراحل میں طے کی جارہی ہیں، پہلا مرحلہ میں نئی حلقہ بندیوں کیلیے ترمیمی بل 2017 کے تحت قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تاہم آبادی میں گروتھ ریٹ (شرح نمو) میں کمی کی بنیاد پر پنجاب کی 7جنرل نشستیں اور خواتین کی2 مخصوص نشستیں کم ہوگئیں ، یہ نشستیں اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور بلوچستان منتقل کردی گئیں۔

اسلام آباد میں ایک جنرل نشست، خیبرپختونخوا میں 4جنرل نشست اور ایک خواتین نشست، بلوچستان میں2 جنرل اور ایک خواتین کی نشست میں اضافہ ہوگیا، جنرل نشستوں کی تقسیم کیلیے جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس میں ماضی کی طرح فاٹا کی آبادی و نشستوں کو مائنس کرکے فی نشست آبادی کا تناسب طے کیا گیا ہے، جوفی نشست 7لاکھ79ہزار896 آبادی پر مشتمل ہے، اس فارمولے کے تحت فاٹا کی12نشستوں کو مائنس کرکے ملک میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 260 بنتی ہیں۔

فاٹا کو مائنس کرکے ملک بھر کی آبادی20کروڑ27لاکھ 12ہزار 944بنتی ہے، اس آبادی کو جب 260سے تقسیم کیا جائے گا تو تناسب فی نشست 7لاکھ 79ہزار 896 بنے گا، اس تناسب سے صوبوں اور اسلام آباد کی آبادی کو تقسیم کرکے قومی اسمبلی کی نشستیں متعین کی گئیں جس کے تحت پنجاب میں قومی اسمبلی کی موجودہ جنرل نشستیں 141 ہوگئیں جو پہلے148 تھیں۔ خیبر پختونخوا میں39 نشستوں کا کوٹا دیا گیا جبکہ پہلے 35تھیں، بلوچستان میں16 نشستیںکردی گئیں جو پہلے 14تھیں۔

اسلام آباد میں3نشستیں تفویض کر دی گئیں جو پہلے 2تھیں، سندھ میں بدستور61 نشستیںہی رہیں، فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشست کیلیے آبادی کا تناسب4لاکھ 16ہزار 806 رکھا گیاہے جس کے تحت فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد12بنتی ہے، فاٹا میں پہلے بھی 12نشستیں تھیں۔ الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران نے بتایا کہ آئینی ترمیمی بل کے ذریعے جو گائیڈ لائن وضع کی گئی ہے الیکشن کمیشن اس کے تحت حلقہ بندیاں تشکیل دے رہا ہے۔

پہلا مرحلہ آئینی ترمیمی بل کے ذریعے مکمل ہوا جبکہ بقیہ 2 مراحل الیکشن کمیشن نے اپنے صوابدیدی اختیارات کی بنیاد پر تشکیل دیے، پہلے مرحلے میں 272 جنرل نشستوں کو صوبوں ، اسلام آباد اور فاٹا میں آئینی ترمیم کے مطابق تقسیم کیا گیا ، دوسرے مرحلے میں صوبوں، فاٹا اور اسلام آباد کی آبادی کی بنیاد پر ان کے اضلاع میں نشستیں تقسیم کی گئیں ہیں جبکہ تیسرے مرحلے میں ڈسٹرکٹ کی سطح پر حلقہ بندیاں زیر تشکیل ہیں، دوسرے مرحلے کے تحت جو فارمولا طے کیا گیا۔

اس میں صوبوں ، اسلام آباد اور فاٹا کو ملنے والی قومی اسمبلی کی نشستوں کا کوٹا آبادیوں سے تقسیم کیا جائے گا اور جو تناسب آئے گا اس کے ذریعے اضلاع میں نشستیں تقسیم کی جائیں گی، اس اصول کے تحت 2017 کی مردم شماری کے تحت خیبر پختونخوا کی آبادی 3کروڑ 5لاکھ 23 ہزار 371 ہے جس سے KPK میں ملنے والی قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد39سے تقسیم کریںگے جس کے تحت قومی اسمبلی فی نشست پر آبادی 7لاکھ 82ہزار650 ہوگی اور اس تناسب کے ذریعے KPK کے اضلاع میں حلقہ بندیوں کی تقسیم ہوگی۔

پنجاب کے اضلاع میں فی نشست 7لاکھ 80ہزار 230 آبادی رکھی گئی ہے، سندھ میں قومی اسمبلی فی نشست 7لاکھ 85ہزار17 ہوگی، بلوچستان 7لاکھ 71ہزار526، اسلام آباد6لاکھ 68ہزار 857 اور فاٹا میں 4لاکھ 16ہزار 806فی نشست آبادی کا تناسب ہوگا، الیکشن کمیشن کے افسران کے مطابق تیسرا مرحلہ انتہائی اہم ہے جس میں حلقہ بندیوں کی باقاعدہ تشکیل دی جائے گی، اس مرحلے میں ضلع کی آبادی کو ضلع کی مجموعی نشستوں سے تقسیم کریں گے جو تناسب آئے گا اس پر فی نشست حلقہ بندی کی جائے گی۔

افسران کے مطابق اس مرتبہ پہلی بار حلقہ بندیوں میں اضلاع کے درمیان overlapping نہیں ہوگی، ہر ضلع کو ملنے والی نشستوں کی حلقہ بندی اسی ضلع کی حدود میں کی جائے گی، صرف ان علاقوں میں جہاں آبادی بہت کم ہوگی وہاں ڈسٹرکٹ کی باؤنڈری سے تجاوز کیا جاسکتا ہے، ایک ضلع میں اگر 2 نشستیں ہیں ان کے درمیان حلقہ بندیوں کی تشکیل میں10فیصد آبادی میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے، غیرمعمولی کیسز میں آبادی 10 فیصد سے زیادہ رکھی جائے گی ، دونوں صورتحال میں الیکشن کمیشن کو ٹھوس وجوہ ظاہر کرنی ہونگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔