ملک کو لاتعلق نہ کیجیے

عبدالقادر حسن  جمعرات 1 مارچ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

موجودہ انتہائی نازک صورتحال سے نکلنے کا حل صرف شفاف الیکشن ہی ہو سکتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی  سیاستدانوں کی طرف سے تجاویز زیر غور ہیں اوردبے لفظوں میں ایک بات گردش کر رہی ہے کہ ملک میں قومی حکومت تشکیل دی جائے اس طرح کی تجاویز ہر الیکشن سے پہلے احتساب کے نام پر دی جاتی ہیں لیکن الیکشن کا وقت قریب آنے کے ساتھ ہی اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اور الیکشن کا انعقاد ہو جاتا ہے جس میں تازہ مینڈیٹ کے ساتھ عوام کے منتخب نمایندے عوام پر حکومت کے لیے اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں ۔

قومی یا کسی اور شکل میں ایک مخصوص مدت کے لیے حکومت کو پہلے ہی ملک کے بااثر حلقے رد کر چکے ہیں جن میں پاک فوج بھی شامل ہے جس نے کسی بھی ایسی تجویز سے لاعلمی اور اس کی حمایت نہ کرنے کا بہت پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔ اس لیے یہ تجویز اتنی ہی مشکل دکھائی دیتی ہے جتنا کہ میاں نواز شریف یہ جان جائیں کہ ان کو حکومت سے کیوں نکالا گیا۔

قومی حکومت کی تشکیل پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ناقابل عمل ہے کہ کسی بھی مشترکہ حکومت کے قیام کا تجربہ کبھی خوشگوار نہیں رہا اور قومی لیڈر اس طرح کی کسی بھی حکومت پر قطعاً راضی نہیں ہوں گے اور لڑ پڑیں گے جو قابل عمل صورت نظر آرہی ہے اور جس میں حالات کا جمہوری حل موجود ہے وہ عام انتخابات کی ہی ہے، اگرچہ سیاستدانوں کے ایک طبقے کی یہ شدید خواہش ہوسکتی ہے کہ انتخابات کا عمل ملتوی ہو جائے کیونکہ وہ اس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں  ہیں کہ انتخابات میں چند سیٹیں بھی حاصل کر سکیں اس لیے موجودہ صورتحال ان کے مفاد میں ہے ۔

حکمران جماعت اپنے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر اگلا الیکشن لڑنے جا رہی ہے اور اس کا مضبوط گڑھ یعنی صوبہ پنجاب فی الحال اس کی دسترس میں ہے، تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں اپنی کارکردگی کو بنیاد بنا کر اور شریف خاندان کو سزا دلوا کر اپنا راستہ صاف کرنا چاہتی ہے جب کہ سندھ میں ابھی تک بھٹو زندہ ہے اور جناب زرداری اسی آس و امید پر ہیں کہ آیندہ حکومت میں وہ اپنا حصہ ضرور وصول کریں گے۔

کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کی صورتحال ابھی واضح نہیں ہو رہی لیکن ان کی آپس کی لڑائی کا فائدہ ظاہر ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں ہی اُٹھائیں گی اور ان میں تحریک انصاف کو برتری کی توقع ہے، کچھ ایسی ہی صورتحال صوبہ بلوچستان کی ہے جہاں پر مخلوط حکومت کے بعد اب ایک متفقہ حکومت کام کر رہی ہے اور سرداروں کی حکومت برقرار رہنے کی امید ہے، اب یہ ان سرداروں پر منحصر ہے کہ وہ الیکشن میں کس پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں۔

الیکشن میں زیادہ وقت نہیں رہا لیکن اگر ملک کے حالات کی رفتار یہی رہی تو نہ جانے کیا ہو جائے اور حالات کس کروٹ جا بیٹھیں کیونکہ حکومتی پارٹی نے صورتحال کو گھمبیر کر دیا ہے اور ان کے لیڈروں کا رویہ قومی رویہ نہیں، وہ اس وقت صرف اپنی بات کر رہے ہیں اپنی ذات کی بات کی جا رہی ہے ملک کا کوئی سوچ نہیں رہا کہ لیڈروں کی یہ سطحی سوچ ملک کو کہاں لے جائے گی۔

میرے مرشد سید مودودی نے کہا تھا کہ غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی یعنی کئی غلطیوںکو جنم دیتی ہے چنانچہ ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ مشرقی پاکستان والوں نے اپنے وڈیروں سے فوراً ہی نجات حاصل کر لی تھی لیکن ہم نے مغربی پاکستان میں وڈیرہ شاہی کو اور مضبوط بنا دیا اور ملک کی حکمرانی اس بالادست طبقے کے سپرد کر دی جس کا کوئی قومی نظریہ نہیں تھا صرف اور صرف مفادات تھے، اس طرح غلطی پر غلطیاں کرتے چلے گئے چنانچہ آج باقی ماندہ پاکستان ان بالادست لوگوں کا یرغمال بنا ہوا ہے ، یہ لوگ جانتے ہیں کہ ملک کا مفاد کس بات میں ہے لیکن چونکہ ان کے ذاتی مفادات کچھ اور ہیں اس لیے ملک میں تشویشناک صورتحال پیدا کر دی گئی ہے اور اس کے پیچھے یہی بالا دست مافیا ہے۔

امن و امان کی صورتحال خراب ہے، بسوں سے مسافروں کو اتار کر بھی مارا گیا اور امن قائم کرنے والی ایجنسیوںکے اہلکار بھی مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں ۔ اپوزیشن اور حکومت مخالف سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے لہجے میں تلخی آتی جا رہی ہے شائد الیکشن کا کمال ہے کہ پیپلز پارٹی بھی زبانی کلامی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی نظر آنا شروع ہوگئی ہے ورنہ اصل اپوزیشن تو تحریک انصاف نے کی ہے اور بڑی جوانمردی کے ساتھ کی ہے۔

اپوزیشن کے ساتھ حکمران پارٹی کے لیڈروں کے لہجے بھی نہایت درشت ہو گئے ہیں اور بہت آگے نکل کر ملک کے اداروں پر اور بنیادی نظریات پر حملے کر رہے ہیں جیسے انھیں اصل غصہ صرف اس بات پر ہے کہ عوام نے ان کو حکومت کے ساتھ بادشاہت کیوں نہیں دی، اسی قبیل کے ایک لیڈر نے سقوط ڈھاکا کے بعد اپنے ایک مشہور لیڈر سے کہا تھا کہ شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے، یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کوئی سنی سنائی نہیں ۔

ملک کی جمہوری فضاء میں جہاں ملک کے نمایندے حکومت میں شریک ہوا کرتے ہیں ایسی باتیں نہیں ہوا کرتیں اور جمہوری نظام ساتھ ساتھ خودبخود اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے لیکن جب ملک کے عوام کو ملک کے کاروبار اور معاملات سے لاتعلق کر دیا جائے تو رفتہ رفتہ وہ خود بھی لاتعلق ہو جاتے ہیں اور ان کے سامنے ملک کا اجتماعی مفاد اور اجتماعی قومی زندگی کا تصور ختم ہو جاتا ہے، ملک سے صوبائیت اور صوبائیت سے علاقائیت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ کیا سبی یا وزیرستان پاکستان نہیں اور پاکستان صرف لاہور ہے۔

ایسی کسی غیر قومی سوچ کو ختم کرنے یا اس پر قابو پانے کے لیے لازم ہے کہ الیکشن کا راستہ اختیار کیا جائے صرف منصفانہ الیکشن ہی میں قوم کی نجات ہے، عوام کو یہ احساس دلایا جائے بلکہ عمل کے ساتھ اس کو قومی معاملات میں شامل کیا جائے، سب کچھ ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو پھر وہ یقیناً قومی سوچ کے ساتھ ملک کو چلائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔