افغان صدر کی طالبان کو مذاکرات کی پیشکش

ایڈیٹوریل  جمعـء 2 مارچ 2018
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں جلد امن قائم ہو جائے گا۔ فوٹو : فائل

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں جلد امن قائم ہو جائے گا۔ فوٹو : فائل

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کابل میں افغان امن عمل کے متعلق عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کو ایک قانونی سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے انھیں غیرمشروط مذاکرات کی پیشکش کی جب کہ پاکستان کے ساتھ ماضی کو بھلا کر نئے دور کا آغاز کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار بھی کیا ہے۔

افغان صدر نے طالبان رہنماؤں‘ ان کے اہل خانہ کو پاسپورٹ اور ویزے جاری کرنے‘ طالبان رہنماؤں پر عائد پابندی ختم کرنے‘ طالبان قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی‘ کابل یا کسی دوسری متفقہ جگہ پر طالبان کا دفتر قائم کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو محفوظ ملک بنانے کے لیے طالبان ہمارا ساتھ دیں۔

افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کو غیرمشروط مذاکرات اور پاکستان کے ساتھ ماضی کو بھلا کر نئے باب کے آغاز کرنے کا عندیہ یقیناً خوش آیند ہے اگر وہ اپنی اس پیشکش پر خلوص نیت سے عمل درآمد کرتے ہیں تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں جلد امن قائم ہو جائے گا جس کے مثبت اثرات پاکستان پر بھی مرتب اور یہاں دہشت گردوں کے گروہ کمزور ہو جائیں گے۔لیکن جب تک افغان حکومت اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتی اور خلوص نیت سے امن عمل کو آگے نہیں بڑھاتی تب تک مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔

اس سے پیشتر پاکستان افغان حکومت کو جنگ سے مسائل حل کرنے اور معاندانہ حکمت عملی چھوڑ کر طالبان سے مذاکرات کرنے کی متعدد بار پیشکش کر چکا ہے لیکن یہ افغان حکومت ہی ہے جس نے پاکستان کی اس پیشکش کوعاقبت نااندیشانہ رویہ اپناتے ہوئے نہ صرف مسترد کیا بلکہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزام تراشی شروع کر دی۔

پاکستان نے افغان حکومت کی اس مخالفانہ اور عداوتی روش کے باوجود صبر و تحمل اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن عمل کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی‘ مری میں ہونے والے افغان طالبان سے مذاکرات اسی امن عمل کا حصہ تھے مگر ان مذاکرات کو امریکی ایجنسیوں نے ایک سازش کے تحت ناکام بنا دیا اور طالبان کے خلاف ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جس سے متعدد طالبان رہنما مارے گئے۔

اس منافقانہ اور دوغلے کردار کے باعث طالبان کا امریکا پر سے اعتماد اٹھ گیا اور انھوں نے اس کے بعد مذاکرات کی کسی بھی پیشکش کو دھوکا اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔ افغانستان میں گزشتہ 16سال سے جاری جنگ کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا اور طالبان جنگجو اب بھی امریکا اور افغان فورسز کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

گزشتہ دنوں طالبان جنگجوؤں نے کابل اور دیگر علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے افغان فورسز کو شدید نقصان پہنچایا جس کے بعد افغان حکومت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ طالبان سے مذاکرات کیے بغیر افغانستان کو محفوظ ملک نہیں بنایا جا سکتا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ افغان حکومت نے طالبان کو قانونی سیاسی جماعت تسلیم کرتے ہوئے انھیں کابل میں دفتر کھولنے اور ان پر عائد پابندیاں ختم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ قانونی سیاسی جماعت تسلیم کرنے کا  واضح مقصد ہے کہ طالبان الیکشن میں حصہ لے کر حکومتی عمل میں شریک ہو سکتے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق افغان صدر کی یہ پیشکش اس وقت سامنے آئی ہے جب چند روز پیشتر افغان طالبان نے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا عندیہ دیا تھا‘ ادھر ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ طالبان افغان قیادت میں ہونے والے مذاکرات پر تیار نہیں تاہم امید ہے کہ وہ جلد اس پر رضامند ہوں گے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اشرف غنی کی پیشکش پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امن کانفرنس چاہتی ہے کہ طالبان سرنڈر کریں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا طالبان مذاکرات میں شریک ہوتے ہیں یا نہیں کیونکہ افغان صدر نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ طالبان کو افغان حکومت اور آئین کو تسلیم کرنا ہو گا۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جنگ دو متحارب گروپوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی نہیں بلکہ دو مختلف نظریات رکھنے والے گروپوں کی مخاصمت بھی ہے۔ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر ہوتے ہیں اگر افغان حکومت طالبان کے ساتھ حقیقی معنوں میں مذاکرات کی خواہاں ہے تو اسے اپنے رویے میں بھی لچک پیدا کرنا ہو گی۔ ہٹ دھرمی یا اپنی شرائط منوانے کی کوئی بھی کوشش مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کر سکتی ہے۔

جہاں تک پاکستان کے ساتھ نئے دور کا آغاز کرنے کا تعلق ہے، پاکستان تو افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا بارہا عندیہ دے چکا ہے، یہ افغان حکومت ہی ہے جو اس کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے، اب اگر اشرف غنی نے ماضی کو بھلا کر پاکستان کے ساتھ نئے باب کا آغاز کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تو اس کے لیے انھیں مثبت رویہ بھی اپنانا ہو گا۔

افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد موجود ہیں، انھیں وہاں سے نکالنا اور مطلوب افراد کو پاکستان کے حوالے کرنا لازم ہے، اگر افغانستان ایسا کرتا ہے تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ وہ واقعی پاکستان کے ساتھ نئے دور کا آغاز کرنا چاہتا ہے، اس کے علاوہ پاکستان کو بھی افغانستان میں ہونے والی اس پیش رفت پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ حالات کو دیکھ کر نئی پالیسی تشکیل دی جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔