احسن اقبال پر غصہ کیوں؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 2 مارچ 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

چند ہفتے قبل ایک نجی ٹی وی کے دوتین رپورٹر وزیر داخلہ جناب احسن اقبال کے آبائی ضلع اور حلقہ انتخاب، نارووال،میں سیاسی اور انتخابی سروے کررہے تھے۔ نارووالیوں سے سوال پوچھا جارہا تھا کہ آیندہ جنرل الیکشنز میں آیا احسن اقبال جیت جائیں گے؟ مَیں ٹی وی کے سامنے بیٹھا یہ سروے پروگرام انہماک سے دیکھ رہا تھا۔لوگوں کی اکثریت نے یہی جواب دیا: ہاں، احسن اقبال اِس بار بھی،2018ء کے عام انتخابات میں، جیت جائیں گے۔

سروے کے بعد مذکورہ ٹی وی نے گراف کے ساتھ اپنی اسکرین پر بتایا کہ 76فیصد لوگوں نے احسن اقبال کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ سروے میں ایسے بھی مگر لوگ سامنے آئے تھے جو شدت اور حدت کے ساتھ، سروں کو نفی میں جنبش دے کر، کہہ رہے تھے: ’’نہیں، احسن اقبال اِس بار ہر گز انتخابی جیت سے ہمکنار نہیں ہو سکیں گے۔‘‘اُن کے اپنے شکوے، شکائتیں تھیں۔ ایسے شکوے ہر مقتدر سیاستدان سے ووٹروں کے ہُوا کرتے ہیں۔

پروگرام کے خاتمے پر مَیں نے احسن اقبال صاحب کو فون کیا۔ انھوں نے مگر اٹھایا نہیں۔ یقیناً مصروف ہوں گے مگر تھوڑی دیر بعد اُن کا جوابی فون آگیا۔ سروے پروگرام انھوں نے بھی دیکھ لیا تھا کہ اپنے حلقے کے ووٹروں کی تازہ ترین آرا کے بارے میں کون سیاستدان بے خبررہ سکتا ہے؟

خاص طور پر جب انتخابات سر پر ہوں۔ راقم نے اُن سے کہا کہ اِس ہفتے جب آپ نارووال جائیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے شہر کے اُن لوگوں سے ملیں جنہوں نے سروے میں آپ کی مخالفت کی ہے؟ ہنس کر کہنے لگے:’’اِس ہفتے شائد مَیںاسلام آباد سے نارووال نہ ہی جاتا لیکن اب ضرور جاؤں گا۔

جاتے ہی دوستوں کے تعاون سے  مخالف رائے رکھنے والے ان صاحبان سے خود ملوں گا، انھیں چائے پر مدعو بھی کروں گا اور گزارش کروں گا کہ آپ کن وجوہ کی بِنا پر مجھ سے ناراض اور نالاں ہیں۔‘‘مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے اس بات پر عمل کیا یا نہیں،لیکن آپا نثار فاطمہ مرحومہ مغفورہ ایسی نیک اور شریف النفس خاتون کے صاحبزادے سے ایسے ہی ردِ عمل اور اخلاق کی توقع تھی۔لیکن 24فروری  2018ء کو جناب احسن اقبال کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، اُس نے مجھ سمیت ہر شخص کو حیران اور ششدر کر دیا۔ اُس روز پنجاب میں مسلم لیگ نون کے دو اہم ترین جلسے تھے۔ سرگودھا میں محترمہ مریم نواز شریف کا میڈیا ورکرز کنونشن اور نارووال میں احسن اقبال صاحب کا ورکرز کنونشن ۔ دونوں کنونشنز کامیاب تھے۔

مریم نواز شریف صاحبہ کو اُن کے چاہنے والوں نے تو محبت اور اکرام میں سونے کا تاج بھی پہنایا (جسے محترمہ نے کمال فیاضی سے مقامی یتیم خانہ اسکول کے بچوں کو عطیہ کردیا)لیکن شومئی قسمت سے احسن اقبال کے جلسے میں ایک افسوسناک پیش آیا جس کی بازگشت سارے قومی میڈیا میں سنائی دی گئی ہے۔

وزیر داخلہ کی قیادت میں یہ ورکرز کنونشن نارووال شہر سے متصل ایک مشہور قصبے، جسّڑ، میں ہورہا تھا(اس قصبے کے ساتھ ہی ’’کالا قادر‘‘ کے نام سے وہ گاؤں آباد ہے جہاں ہمارے عہد کے مشہورترین شاعر جناب فیض احمد فیض پیدا ہُوئے تھے)شام سات بجے کے قریب احسن اقبال نون لیگ کے پُر جوش کارکنوں کے ہنگامے میں خطاب کررہے تھے۔ تقریر تقریباً ختم ہو چکی تھی کہ اچانک سامعین میں سے کسی نے اُن کی جانب جوتا اچھال دیا۔

مبینہ طور پر جوتا وزیر داخلہ کے بازو کو چھُوتا ہُوا گزر گیا۔ معلوم ہُوا کہ اُس کا نام بلال حارث ہے اور وہ پی ٹی آئی کا مقامی کارکن ہے۔اِس ہنگامے میں احسن اقبال پُرسکون رہے۔ وہ اسٹیج سے نیچے اُترے اور بیہودہ حرکت کرنے والے بلال حارث، جسے پولیس نے دبوچ رکھا تھا، کے پاس گئے اور مسکراتے ہُوئے کہا:’’اِسے چھوڑ دیں۔ مَیں اسے معاف کرتا ہُوں۔‘‘ انھوں نے پولیس کو یہ بھی ہدایت کی کہ نوجوان کے خلاف کوئی کیس بھی درج نہ کیا جائے۔ یقینا اللہ بھی خطاؤںاور غلطیوں کو معاف کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔احسن اقبال کے صابرانہ اور شریفانہ کردار نے ایک مثبت مثال قائم کی ہے۔

جوتا اچھالنے کی اِس گندی اور غلیظ حرکت کے بعد وزیر داخلہ جناب احسن اقبال نے فوری طور پر یہ ٹویٹ کی:’’پی ٹی آئی نے نہائیت غیر مناسب حرکت کرکے خود کو ایکسپوژ کر دیا۔ یہ مخالفین کی شرارت تھی مگر تقریب پُرسکون جاری رہی۔ کوئی رخنہ نہیں پڑا۔مَیں نے بھی تقریر مکمل کرلی تھی۔‘‘ جوتا اچھالنے والے کے اس اقدام کی سب نے مذمت کی ہے۔ پی ٹی آئی کے اندر بھی اسے ناپسند کیا گیا۔نہ ہی ہمارا مذہب اور نہ ہی ہماری تہذیب اور کلچر اس کی اجازت دیتا ہے۔‘‘

احسن اقبال فیوڈل لارڈ ہیں نہ جاگیردارانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔اس لیے ملزم کو کھلے دل سے معاف کردیا۔اگر کوئی متعصب اور منتقم ذہنیت رکھنے والا کوئی مقتدر سیاستدان ہوتاتو ملزم کے ساتھ جو ممکنہ سلوک ہو سکتاتھا،ہم سب اس کا تصور کرسکتے ہیں۔اس واقعہ کے بعد احسن اقبال صاحب کے انتخابی حلقہ میں پریس کلب کے صدر اور معروف مقامی صحافی میاں اظہر عنایت سے فون پر میری گفتگو ہُوئی۔

انھوں نے بھی کہا کہ احسن اقبال کے خلاف وقوع پذیر ہونے والا یہ واقعہ خالصتاً پلانٹڈ تھا، سب نے ملزم اور اُس کے پُشتیبانوں کی مذمت کی ہے۔ لوگوں نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا نارووالیوں کو احسن اقبال ایسے شریف النفس سیاستدان اور وزیر کی قطعی ضرورت نہیں ہے؟

حیرانی کی بات ہے کہ اس واقعہ کی مذمت نہ تو دانیال عزیز صاحب نے کی ہے اور نہ ہی مولانا غیاث الدین صاحب نے۔ اوّل الذکر نارووال میں نون لیگی ایم این اے بھی ہیں، وفاقی وزیر بھی اور جناب نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی جب کہ ثانی الذکر پنجاب اسمبلی کے نون لیگی رکن بھی ہیں اور احسن اقبال کے اُن پر کئی احسانات بھی ہیں۔

اس کے باوصف دونوں حضرات خاموش رہے ہیں۔ یہ خاموشی احسن اقبال، دانیال عزیز اور مولانا غیاث الدین کے درمیان کسی خلیج کی نشاندہی تو نہیں کرتی؟نون لیگ کے قائد جناب نواز شریف پر جو واضح عدالتی آزمائشیں آئی ہُوئی ہیں، اگر ایسی خلیج قائم رہی تو چند ماہ بعد منعقد ہونے والے عام قومی انتخابات میں یہ کسی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ حلقہ منفی طور پر متاثر ہو سکتا ہے۔

سارے ملک میں نون لیگی اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن افسوس، احسن اقبال کے حوالے سے پیش آنے والے واقعہ کے پس منظر میں، نارووال کی نون لیگی قیادت میں ایسی یکجہتی نظر نہ آسکی۔

وفاقی وزیر داخلہ جناب احسن اقبال کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے، یہ اپنی نوعیت کا کوئی نیا اور انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ سابق صدرِ پاکستان پرویز مشرف، سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم، سابق صدرِ امریکہ جارج ڈبلیو بُش،سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس وغیرہ پر بھی جوتے اچھالے جا چکے ہیں اور ایل کے ایڈاوانی، راہل گاندھی، پی چدمبرم، پاوس اگروال اور ڈاکٹر من موہن سنگھ ایسے مشہور  مقتدربھارتی سیاستدانوں پر بھی۔

سابق ایرانی صدراحمدی نژاد کے حامیوں نے ایک بار اپنے ہی اپوزیشن لیڈر مہدی کروبی کی طرف جوتے اچھال دیے تھے۔سو، احسن اقبال کی طرف مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے کسی کارکن کا جوتا اچھال دینا کوئی اسکینڈل ہے نہ ایشو۔ سانحہ اور ایشو مگر یہ ہے کہ احسن اقبال ایسے نیک خُو سیاستدان اور وزیر کے ہوتے ہُوئے نارووال کے شہریوں میں سے کسی ایک شہری نے اس حرکت کا ارتکاب کیوں کیا؟

اِس سیاستدان نے اپنے شہر اور حلقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ نئی ملازمتوں کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ نئے کالج، نئی یونیورسٹی، نیا بڑا اسپتال، نیا اسپورٹس اسٹیڈیم، نیا اور جدید ریلوے اسٹیشن، نئے گیس کنکشنز، نئی گلیاںاور نئی سڑکیں تعمیر کرکے اپنے شہریوں کے حوالے کرچکے ہیں۔ اس بارے میں اپنوں اور غیروں کی کوئی تخصیص برتی ہے نہ کوئی امتیا ز روا رکھا ہے۔ تازہ حادثے کے دوسرے دن ہی انھوں نے نارووال کے مستحق طلبا میںمفت لیپ ٹاپ بھی تقسیم کیے۔ پھر اُن سے ناراضی اور غصہ کیوں۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔