سیاسی پارٹیاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات طے نہ کرسکیں

شاہد حمید  منگل 2 اپريل 2013
خیبرپختونخوا کی حد تک اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام(ف) کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات طے پاجائیں گے۔  فوٹو: فائل

خیبرپختونخوا کی حد تک اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام(ف) کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات طے پاجائیں گے۔ فوٹو: فائل

پشاور: عام انتخابات کے انعقا د میں ایک ماہ سے کچھ ہی دن زائد رہتے ہیں تاہم خیبرپختونخوا میں سیاسی جماعتیں آپس میں نہ تو کوئی اتحاد کرپائی ہیں اور نہ ہی سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کے معاملات نتیجہ خیز ہوسکے ہیں۔

گزشتہ حکومت کے آخری ایام اور حکومتوں کے جانے کے فوراًبعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ انتخابات کے حوالے سے اتحاد یا سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کے سلسلے میں حکمران جماعتوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان حکمران جماعتوں کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتیں اتحاد بناتے ہوئے یکجا ہوکر میدان میں اتر آئیں گی تاہم ایسا نہیں ہوسکا، ایک جانب اگر اتحاد نہیں ہوسکا تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں میں سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کے معاملات بھی طے نہیں پاسکے جس کی وجہ سے یہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے اپنے آپ تک محدود ہورہی ہیں اور بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں میں کہیں سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہوئی بھی تو یہ اضلاع تک ہی محدود ہوگی، کم ازکم صوبہ کی سطح پر سیاسی جماعتوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات طے پاتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے۔

خیبرپختونخوا کی حد تک اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام(ف) کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات طے پاجائیں گے تاہم دونوں جماعتوں کے قائدین مذاکرات جاری بھی رکھے ہوئے تھے تاہم یہ خبر بھی دے رہے تھے کہ یہ بیل منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دیتی کیونکہ دونوں پارٹیاں جتنا حصہ مانگ رہی ہیں اور جن حلقوں پر انگلی رکھ رہی ہیں وہ چھوڑنا دونوں کے لیے ممکن نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذاکرات کا سلسلہ ختم اوردونوں پارٹیاں اپنے ،اپنے امیدواروں کے ساتھ میدان میں نکل آئی ہیں۔

جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے حوالے سے تو بہت پہلے سے یہ بات واضح تھی کہ دونوں جماعتوں میں کوئی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوگی کیونکہ اگر ایڈجسٹمنٹ ہی ہونی تھی تو پھر ایم ایم اے کیوں نہ بحال ہوجاتی اور جب ایم ایم اے کی بحالی پر جماعت اسلامی ،جے یو آئی(ف) کے ساتھ متفق نہیں ہوئی تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر کیسے متفق ہوسکتی تھی کیونکہ ایم ایم اے کی بحالی کی راہ میں بھی اصل رکاوٹ نشستوں کی تقسیم تھی اور یہی رکاوٹ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے بھی حائل رہی جبکہ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان بھی معاملات اسی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکے اور جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بھی اسی مسئلہ سے دوچار ہے۔

ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پر سب سے زیادہ اختلافات اے این پی اور پیپلزپارٹی میں دیکھنے کو مل رہے ہیں، اے این پی میں تو بعض جگہوں پر بغاوت کا ساماحول دکھائی دے رہا ہے جسے سنبھالنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں صوابی کی حد تک اے این پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے جہاں پر سابق صوبائی وزیر زرشید جنھیں صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ دینے کے بعد واپس لیا گیا ہے کو منالیا گیا ہے جس کی وجہ سے انہوںنے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے دیا جانے والا استعفیٰ بھی واپس لے لیا ہے۔

تاہم جہاں تک پشاور کے پی کے پانچ اور بعض دیگر جگہوں کا تعلق ہے تو وہاں پر مسائل موجود ہیں، پیپلزپارٹی بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے جس میں پشاور کے این اے ون کا ٹکٹ اعظم آفریدی کو جاری کرنے اور پھر چوبیس گھنٹوں کے اندر ان سے لے کر مذکورہ ٹکٹ ذوالفقارافغانی کو جاری کرنے کے معاملہ پر پارٹی کے پرانے کارکنوں کا گروپ اختلافات کا شکار ہوگیا ہے ،ایسا ہی معاملہ این اے تین پشاور کے حوالے سے بھی ہے جہاں پر صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور پی پی پی کے سابق صوبائی صدر سنیٹر سردار علی بغاوت پر اتر آئے ہیں جن کے صاحبزادے الیکشن کے لیے آزاد حیثیت میں میدان میں اترنے کی تیاری کررہے ہیں۔

جہاں قومی اور صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پر پارٹیوں میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں وہیں خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی پارٹیوں میں ناراضگیاں پیدا ہوئی ہیں اور یہ ناراضگیاں ان سابق خواتین اراکین کی جانب سے ہیں جنھیں اگلی اسمبلی کے لیے یا تو سیاسی پارٹیوں نے فہرستوں میں شامل ہی نہیں کیا یا اگر شامل کیا ہے تو نچلے نمبروں پر رکھا ہے ۔ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے یہ پیشن گوئیاں اپنی جگہ موجود ہیں کہ خیبرپختونخوا میں شاید ہی کوئی پارٹی بھاری اکثریت لے سکے اور نشستیں کچھ اس انداز میں تقسیم ہوں گی کہ ہر ایک پارٹی دوسری پارٹیوں کی طرف دیکھنے پر مجبور بھی ہو گی او ران کی محتاج بھی، اس لیے اس صورت میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ارسال کردہ فہرستوں میں شامل وہی خواتین اسمبلیوں میں پہنچیں گی جو پہلے نمبروں پر ہیں۔

اے این پی نے عام انتخابات کے لیے جس منشور کا اعلان کیا ہے وہ اتنا دبنگ نہیں ہے جتنے کی توقع کی جارہی تھی اور نہ ہی اس میں قیام امن کا فارمولا بتایا گیا ہے، جبکہ اے این پی کے بعد صوبہ کی سطح پر پیپلزپارٹی نے جو منشور دیا ہے وہ زیادہ تر ایسے وعدوں پر مشتمل ہے جن کو ایفا کرنے میں پیپلزپارٹی کو پانچ نہیں کئی سال لگ جائیں گے کیونکہ نہ تو پانچ سالوں میں بیس لاکھ نوکریاں دی جاسکتی ہیں اور نہ ہی دو سے تین سالوں میں توانائی کا بحران ختم کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ قیام امن کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر انور سیف اللہ کے بقول ان کے پاس فارمولاموجود ہے جسے وہ قبل ازوقت سامنے نہیں لاسکتے جو اپنی جگہ حیران کن ہے کیونکہ قوم دہشت گردی کے مسئلے کا شکار ہے اور پیپلزپارٹی کے صدر نے امن فارمولے کو اقتدار میں آمد کے ساتھ مشروط کردیا ہے حالانکہ یہ بڑی واضح بات ہے کہ اس بارے میں جو بھی فیصلے ہونے ہیں وہ صوبہ نہیں مرکز کرے گا اور پیپلزپارٹی کا منشور بھی صوبائی نہیں مرکزی ہی چلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔