الیکشن سے پہلے

عبدالقادر حسن  ہفتہ 3 مارچ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ایک طویل سیاسی ہنگامہ آرائی اور داؤ پیچ کے بعد نواز شریف کے سیاسی حریف ان کو پہلے تو وزیر اعظم کے منصب سے اور بعد میں پارٹی عہدے سے بھی ہٹانے میں کامیاب ہو گئے جس کو میاں نواز شریف نے ابھی تسلیم نہیں کیا، اسے ایک بار پھر دہرایا ہے کہ ان کو یہ فیصلہ قبول نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو اپنی پارٹی کا صدر بھی بنا دیا ہے۔

عدالتی فیصلے پر مسلسل تیرو تفنگ برساتے میاں نواز شریف عوام تک اپنا بیانیہ کس حد تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں یا عوام کی ہمدردیاں کس حد تک ان کے ساتھ ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والے عام انتخابات میں ہی ہو گا فی الحال تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کا عدلیہ اور اداروں کے مخالف بیانیہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور وہ بظاہر پاکستان کی پارلیمانی سیاست سے باہر ہو چکے ہیں، انھوں نے بھی موروثیت کو ہی ترجیح دی اور شہباز شریف کو پارٹی صدر اور خود تا حیات قائد منتخب ہو گئے ۔

سننے میں تو یہ بھی آرہا تھا کہ نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز ان کی جگہ لیں گی اور اس کے بارے میں ان کے شوہر نامدار کیپٹن صفدر نے مریم کی صدارت کے لیے ناراض رہنماؤں کو منانے کا اعلان بھی کیا لیکن پھر یکایک صورتحال بدل گئی اور میاں شہباز شریف نے پارٹی کی کمان سنبھال لی ۔ میاں شہباز شریف کی صدارت کے بارے میں ان کی ایک ناقد خاتون کا فی البدیہہ تبصرہ تھا کہ اب ان کی پارٹی بچ جائے گی اور اس کی وجہ انھوں نے شہباز شریف کی متحرک شخصیت کو قرار دیا ۔

شہباز شریف کا صرف ایک ہی منفی پوائنٹ ہے کہ وہ نواز شریف کے بھائی ہیں اس کے علاوہ ان کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کی صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں اور ہر طرف سے انھیں ٹھنڈی ہوا ہی آتی ہے، چاہے وہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہو یا کوئی اور بااثر ادارہ وہ ہر جگہ اپنی صلح جو شخصیت کی وجہ سے قابل قبول ہیں اور اس کو انھوں نے متعدد مواقع پر ثابت بھی کیا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ نواز لیگ کی موجودہ حکومت اگر چل رہی ہے تو اس کی واحد وجہ شہباز شریف اور ان کے چند ایک رفقاء ہیں جو کہ ہر بگڑتی کو سنبھالا دیتے رہے اور یوں حکومت اپنی مدت پوری کر ہی گئی۔

شہباز شریف اس سے پہلے بھی نواز لیگ کی صدارت کے مزے چکھ چکے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب پارٹی انتہائی مشکلات کا شکار تھی، اب ایک بار پھر ان کو پارٹی کی کمان سونپی گئی ہے، اس وقت بھی نواز لیگ اپنے نامی سربراہ سے محروم ہو چکی ہے عام انتخابات کا بگل بجنے کو ہے اور سابق صدر نوازشریف بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان مشکل حالات میں پارٹی کو متحد رکھنا اور آیندہ انتخابات میں کامیابی کے دو بڑے مشکل مرحلے ہیں جن سے شہبازشریف کو گزرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کئی مشکلات کا سامنا کر چکے ہیں اور ان کو کامیابی سے سر بھی کر چکے ہیں لیکن اس وقت صورتحال ان کے موافق ہے، وہ وفاقی حکومت کی چھتری تلے ایک بڑے صوبے کی کمان کر رہے ہیں ان کو وفاقی حکومت کی مکمل مدد حاصل ہے لیکن آیندہ الیکشن میں یہ سب سہولتیں میسر نہیں ہوں گی بلکہ آپ کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے سامنے پیش ہونا ہو گا اور ووٹ حاصل کرنے ہیں اور یہ بات بھی واضح نہیں کہ میاں نواز شریف انتخابی مہم میں شامل ہوں گے یا اس کی بھی ان کو اجازت نہیں ہو گی، اس صورت میں الیکشن کی مہم شہباز شریف کے لیے مزید مشکل ہو جائے گی کیونکہ کئی دہائیوں سے ملکی اُفق پر نواز لیگ کا ووٹ بینک نواز شریف کے نام پر قائم ہے اور ان کے ساتھ جذباتی طور پر منسلک ہے ۔

حالات کا دھارا مختلف سمت میں بہہ رہا ہے، پارٹی کو توڑنے کی سازشیں عروج پر ہیں، آیندہ انتخابات میں میاں نواز شریف کے نام کا ووٹ بینک اپنے نام منتقل کرنا شہباز شریف کے لیے ناممکن تو نہیں کہا جاسکتا مگر مشکل ضرور ہو گا، صوبہ پنجاب کی حد تک وہ عوام میں اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں لیکن ملکی سطح پر عوام سے یہ ان کا پہلا رابطہ ہوگا جس میں ان کو اپنے آپ کو نواز لیگ کا صدر اور آیندہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کرنا ہو گا اور ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ملک بھر کے عوام ان کو پہچانتے ہیں اور ان کے ترقیاتی کاموں کے چرچے دوسرے صوبوں میں بھی ہیں۔

یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان کی شخصیت سب کے لیے قابل قبول ہو گی، شہباز شریف کو سیاسی وعدوں سے زیادہ اپنے کام سے پاکستان کے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے کیونکہ اب عوام کام مانگتے ہیں اور ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ حکمران کون ہے وہ اپنے کاموں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اس لیے شہباز شریف صوبہ پنجاب میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر اپنی مقبولیت کو پاکستان بھر میں کیش کرانے کی پوزیشن میں ہیں ۔

بہرحال اب نواز لیگ کی باگ ڈور شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے، نواز لیگ میں شہباز شریف کا دور شروع ہو چکا ہے، ان کو اس مشکل وقت میں پارٹی کو متحد بھی رکھنا ہے اور اپنے ناراض ساتھیوں کو واپس لانا بھی ان کے لیے ایک بڑا امتحان ہے۔ جس طرح کی صلح پسند شخصیت کے وہ مالک ہیں ان سے اس بات کی امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ عوام کے ساتھ خواص کو بھی مفاہمتی پالیسی کے تحت اپنی جگہ مضبوط کر لیں گے اور اگر ان کو انفرادی طور پر آزادانہ فیصلے کرنے دیے گئے تو آیندہ انتخابات کے نتائج حیران کن ہو سکتے ہیں اور نواز لیگ ایک حقیقی قومی جماعت میں بدل سکتی ہے لیکن سیاست اور وہ بھی الیکشنی سیاست، کون کیا کہہ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔