ایوان بالا میں داخلے کی دوڑ کون جیتے گا؟

حکمران جماعت بھرپور کامیابی کی دعوے دار، اپوزیشن کا خاموش حکمت عملی پر اصرار، لگ چکا دام سج چکا بازار۔ فوٹو: فائل

حکمران جماعت بھرپور کامیابی کی دعوے دار، اپوزیشن کا خاموش حکمت عملی پر اصرار، لگ چکا دام سج چکا بازار۔ فوٹو: فائل

پنجاب / خیبر پختونخوا / سندھ / بلوچستان: تمام تر خدشات اور غیریقینی صورت حال کے باوجود آج  وہ دن طلوع ہوچکا ہے جب ایوانِ بالا کی 52 نشتوں پر نئے سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔

نومنتخب سینیٹرز 11 مارچ کو ریٹائر ہونے والے سینیٹروں کی جگہ ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ 104 نشستوں پر مشتمل ایوانِ بالا کے11 مارچ کو ریٹائر ہونے والے نصف سینیٹرز کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے جبکہ ان میں ’آزاد‘ حیثیت رکھنے والے بعض سینیٹرز بھی موجودہیں جو اپنے عہدے کی چھ سال کی مدت پوری ہونے کے بعد ذمہ داریوں سے سبکدوش ہورہے ہیں۔

آج ہونے والے انتخابات سے قبل سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے:  مسلم لیگ ن کے27، پیپلز پارٹی پارلیمنٹریئنز کے26،  ایم کیوایم پاکستان کے8 ، تحریک انصاف کے7، عوامی نیشنل پارٹی کے 6 ، جمیعت علمائے اسلام ف کے 5، پاکستان مسلم لیگ ق کے 4، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے3،نیشنل پارٹی کے3، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2، بلوچستان نیشنل پاٹی مینگل کا 1،  مسلم لیگ فنکشنل1، جماعت اسلامی1 اور اور آزاد اراکین کی کل تعداد 10 ہے جس میں فاٹا کے 8 اراکین بھی شامل ہیں۔

ریٹائر ہونے والے سینیٹروں میں سب سے زیادہ تعداد پیپلز پارٹی کے ارکان کی ہے جن کی تعداد18 ہے، ان میں چئیرمین سینیٹ رضا ربانی بھی شامل ہیں، مسلم لیگ (ن) کے ریٹائر ہونے والے سینیٹروں کی تعداد9 ہے جبکہ، عوامی نیشنل پارٹی کے پانچ، ایم کیوایم  کے چار، جمعیت علمائے اسلام(ف) کے تین، مسلم لیگ (ق) کے دو، بلوچستان نیشنل پارٹی کے دو، تحریک انصاف کے ایک، مسلم لیگ فنکشنل ایک جبکہ پانچ آزادامیدوار بھی شامل ہیں۔

ملک میں ایک عمومی خیال تھا کہ سینیٹ انتخابات سے قبل ہی مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کردی جائے گی، بعض اپوزیشن جماعتوں کے دھرنوں اور اسی نوع کی دیگرسرگرمیوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھاجاتارہا۔قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق بھی انہی خدشات کا اظہار کرچکے تھے کہ انہیں لگتا ہے، شاید حکومت اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری نہیں کریں گی۔

سینیٹ انتخابات کے بارے میں مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کا بھی یہی خیال تھا کہ وفاقی حکومت کے خلاف باربارمہم جوئی کا مقصود صرف سینیٹ الیکشن سے پہلے حکومت کا خاتمہ ہے تاکہ سینیٹ میں مسلم لیگ ن کو اکثریت حاصل  نہ ہوسکے۔

وفاقی حکومت  نے کہیں سختی اور کہیں نرمی سے کام لیتے ہوئے سینیٹ انتخابات تک کا سفر طے کرہی لیا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول جاری کیا تو حکمران جماعت کے قائدین کی سانسیں بحال ہوناشروع ہوئیں تاہم انھیں اُس وقت سخت دھچکا پہنچا جب سپریم کورٹ  نے میاں نوازشریف کو مسلم لیگ ن کی قیادت کے لئے نااہل قراردیا اور ان کے فیصلوں کو بھی کالعدم قراردیدیا۔

فیصلے کے فوراً بعد  مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے سینیٹ انتخابات کے لیے پارٹی ارکان کو نہ صرف نئے ٹکٹ جاری کردیے  بلکہ یہ ٹکٹ لے کر بذات خود الیکشن کمیشن  جا پہنچے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے مسلم لیگی امیدواران کو جاری ہونے والے  نئے ٹکٹ مسترد کردیے البتہ  انھیں آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیدی۔ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے مطابق اب کسی سیاسی جماعت کی جانب سے نئے ٹکٹس جاری نہیں کیے جاسکتے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیاکہ الیکشن کمیشن کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چار راستے تھے۔ اولاً: سینیٹ اور آئیندہ سرگودھا اور گھوٹکی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو ملتوی کردیا جائے، ثانیاً: مسلم لیگ نون کے نامزد امیدواروں کے بغیرہی سینیٹ انتخابات کرادیے جائیں، ثالثاً: انتخابات کو ملتوی کر کے نئے ٹکٹ جاری کرنے کا موقع دیا جائے، اور رابعاً: مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والوں کو آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔

الیکشن کمیشن نے چوتھا راستہ اختیار کیا، یوں مسلم لیگ ن بطور جماعت سینیٹ انتخابات سے باہر ہوگئی۔اب مسلم لیگ ن کے پاس راستہ کیا ہے؟ماہرین کا کہناہے کہ  الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی پارٹی سے وابستگی کو ختم کیا ہے، انتخابات میںکامیاب ہونے کے بعد ان کی صوابدید پر ہوگا کہ وہ کسی بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں یا آزاد رکن کی حیثیت سے بھی سینیٹ کے رکن رہ سکتے ہیں۔

اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ آج کے انتخابات کے بعد سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کیاہوگی؟

غالب امکان ہے کہ مسلم لیگ ن کے امیدواران آزاد حیثیت سے انتخاب جیت کر اپنی پارٹی میں شامل ہوجائیں گے، اگرایسا ہوا  تو  مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کی تعداد 36ہوجائے گی اور وہ ایوان بالا میں سب سے بڑی جماعت بن جائے گی تاہم  اس کے باوجود وہ چئیرمین سینیٹ کی سیٹ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوگی ، یوں سینیٹ میں موجود چھوٹی جماعتوں کی اہمیت دوچند ہوجائے گی ۔ زیادہ امکان ہے کہ مسلم لیگ ن چھوٹے گروہوں کا ووٹ حاصل کرکے چئیرمین شپ کی سیٹ سنبھال لے گی۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں بھی ایوان بالا میں اپنی برتری برقرار رکھے۔ اگرچہ بظاہر اس کے امکانات بہت کم ہیں لیکن بعض ماہرین آصف علی زرداری کی گزشتہ دنوں غیرمعمولی سرگرمیوں کو کافی اہمیت دے رہے ہیں، بالخصوص بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کے بارے میں کہاجارہاہے  کہ وہ  غیرمتوقع طور پر کسی دوسرے پلڑے میں اپنا وزن ڈال سکتے ہیں۔

بعض لوگ اسی بنا پر خدشہ ظاہرکررہے ہیں کہ آج کے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا اس قدر بازار جمے گا کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔ اگر کوئی زرداری کے اندازسیاست کے نتیجے میں کوئی کرشمہ ہوگیا تو پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں زیادہ نشستیں آجائیں گی ورنہ اسے  شاید سات سے زیادہ نہ مل سکیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ سینٹ الیکشن میں پیسہ چلایا جا رہا ہے،سینیٹ کے انتخابات میں ایسے لوگ حصہ لے رہے ہیں جن کی صوبائی اسمبلی میں دو سیٹیں بھی نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلایا جا رہا ہے۔

ہارس ٹریڈنگ کا سب سے زیادہ خطرہ تحریک انصاف ہی کو ہے، اس نے اپنے ارکان اسمبلی کو قابو کرنے کے لئے ان کی خوب برین واشنگ کی ہے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک نے خواتین ارکان اسمبلی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور انھیں پارٹی سے وفادار رہنے کی تلقین کی۔ ہارس ٹریڈنگ سے خوف ان سب جماعتوں کو ہے جو اندرونی خلفشار کی شکار ہیں۔

اگر ان کے ارکان اِدھراُدھرہوئے تو ان پارٹیوں کو خوب خفت کا سامنا کرناپڑے گا اور ان کی سیاست پر  اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم اگر گھوڑوں کا بازار نہ لگا تو اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن ہی کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کو 19 نشستیں،  پیپلز پارٹی کو سات، تحریک انصاف کو سات، ایم کیوایم پاکستان کو چار، جے یو آئی (ف) کو دو، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کو تین، نیشنل پارٹی کو دو نشستیں ملیں گی۔

یوں ایوان بالا میں حکومتی جماعت کے سینیٹرز کی کل تعداد 37، پیپلز پارٹی 15، تحریک انصاف 13، جے یو آئی (ف) چار، ایم کیو ایم کی آٹھ اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 6 ہوجائے گی۔ قاف لیگ سینیٹ سے آؤٹ ہوتی نظرآرہی ہے۔

یہ بات طے ہے کہ  پنجاب، خیبر اور بلوچستان میں اپوزیشن جماعتیں مشترکہ حکمت عملی اختیارکریں گی تو وہ کچھ سیٹیں حاصل کرسکتی ہیں بصورت دیگر حکمران جماعت اپوزیشن کے داخلی انتشار کاخوب فائدہ اٹھائے گی۔

سینیٹ انتخابات کا حالیہ مرحلہ اس اعتبار سے خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے سبب ملک کے سیاسی نظام  پر غیریقینی صورت حال کے چھائے ہوئے بادل چھٹ جائیں گے، جمہوریت کے تسلسل اور اگلے عام انتخابات کے اسی سال انعقاد کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ وہ اپوزیشن گروہ جو مسلم لیگ ن کی حکومت ٹوٹنے کے خواب دیکھ رہے تھے، وہ اب عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوجائیں گے۔

پنجاب میںسینٹ کی خالی ہونے والی12نشستوں پر20 امیدواران میدان میںہیں۔ جن میں سے 13 امیدواروں کا تعلق مسلم لیگ (ن)، چارکا تحریک انصاف، دوکا پیپلزپارٹی اور ایک امیدوار کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے ہے۔ پنجاب سے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سے مسلم لیگ (ن) کے آٹھ سینیٹرز ہیں۔ جن میں جنرل نشستوں کے پانچ، ایک خواتین، ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی رکن شامل ہیں جبکہ جنرل نشستوں پر آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹر محسن خان لغاری اور مسلم لیگ (ق) کے کامل آغا سمیت پیپلزپارٹی کے اعتزاز احسن جو ٹیکنوکریٹ کی نشست پر منتخب ہوئے اور پیپلزپارٹی ہی کی خاتون سینیٹر محترمہ خالدہ پروین بھی ریٹائر ہوگئی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرست کے مطابق سینٹ کے موجودہ انتخابات کے لیے پنجاب کی جنرل نشستوں کے لیے مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر آصف کرمانی، رانا محمود الحسن، رانا مقبول، زبیر گل، شاہین خالد بٹ، مصدق ملک اور ہارون اختر خان اور مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا امید وار ہیں۔ اسی طرح ٹیکنوکریٹ کی نشستوں کے لیے مسلم لیگ (ن) کے محمد اسحاق ڈار، چودھری نصیر بھٹہ اور حافظ عبدالکریم جبکہ تحریک انصاف کے ملک آصف جاوید اور پیپلزپارٹی کے نوازش علی پیرزادہ کے درمیان مقابلہ ہے۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی سعدیہ عباسی اور نزہت صادق جبکہ تحریک انصاف کی عندلیب عباس مدمقابل ہیں اور اقلیتی نشست کے لیے مسلم لیگ (ن) کے کامران مائیکل اور تحریک انصاف کے ’’وکٹر عذرایاہ‘‘ امیدوارہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کی کل 371 نشستوں میں سے پارٹی پوزیشن کے لحاظ سے مسلم لیگ (ن) کے پاس 310 نشستیں ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس31 ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی نشستوں کی تعداد آٹھ، آٹھ ہے۔ بظاہر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو اپنے سینیٹر منتخب کرانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔

پنجاب میں اپوزیشن کی تینوں جماعتیں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کسی ایک امیدوار پر اکٹھی نہ ہوسکیں، یوں اپوزیشن کے کم از کم ایک امیدوار کی یقینی فتح کا موقع ہاتھ سے گنوانے کا امکان پیدا کیا۔ پنجاب سے سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں پر ڈالی جائے تو کئی دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ لندن میں’’صاحب فراش‘‘سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے ملزم ہیں اور عدالتی مفرور و اشتہاری قرار دیئے جاچکے ہیں،  مسلم لیگ (ن) کی طرف سے امیدوار ہیں۔ موصوف نواز شریف کے سمدھی اور ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں عملاً ڈپٹی پرائم منسٹر تھے، اب سینیٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک بار پھر امیدوار ہیں۔

رانا مقبول سابق آئی جی ہیں، ان کی شہرت وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سابق دور وزارت اعلیٰ میں مبینہ پولیس مقابلوں اور1999ء میں پرویز مشرف کے مارشل لاء کے موقع پر مبینہ طور پر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کے احکامات دیئے جانے کے حوالے سے بھی ہے۔

اسی دور میں نواز شریف کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید، جو ازاں بعد مشرف دور میں مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئے، اب پھر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سینیٹ کے امیدوار ہیں۔ شنید ہے کہ نواز شریف ان کی بین الاقوامی’’پبلک ریلیشنگ‘‘ سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں ہیں۔ شاہیں خالد بٹ، پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن کے وائس چیئرمین اور پاکستانی امریکن ہیں۔

زبیرگل مسلم لیگ (ن) برطانیہ کے صدر ہیں جنہیں نواز شریف نے بطور وزیراعظم اوورسیز پاکستانیز کا کواڈ ینیٹر/ کمشنر مقرر کیا تھا، مبینہ طور پر یہ دونوں حضرات شریف فیملی کے بیرون ملک مالی معاملات کو دیکھتے ہیں۔ خواتین نشست پر موجود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سینیٹ کی امیدوار ہیں۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے چودھری سرور جو ایک اچھی سیاسی شہرت رکھتے ہیں اور عملی سیاست میں کافی مؤثر اور فعال ہیں، کے بارے میں بھی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پارٹی میںان کا مخالف گروپ انہیں عام انتخابات میں کوئی فعال کردار ادا کرنے سے باز رکھنا چاہتا ہے۔ تحریک انصاف کی خاتون امیدوار عندلیب عباس کی نامزدگی  پنجاب اسمبلی میں عددی اہمیت نہ ہونے کے سبب صرف خانہ پری ہی شمار کی جائے گی۔

خیبرپختون خوا سے سینیٹ کی11 نشستوںکے لیے 25امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں،سات جنرل نشستوں پر13 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوگاجن میں تحریک انصاف کے فیصل جاوید خان،خیال زمان،فدامحمد،محمدایوب اورعبدالطیف یوسفزئی ،پیپلزپارٹی کے فیصل سخی بٹ اوربہرہ مند تنگی ،عوامی نیشنل پارٹی کے مسعود عباس خٹک،جمعیت علماء اسلام ف کے مولاناگل نصیب خان اورطلحہ محمود،جماعت اسلامی کے مشتاق احمد  خان اورمسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوارپیرصابر شاہ اورعلی افضل خان جد ون شامل ہیں۔

ٹیکنوکریٹ کی دونشستوں پر تحریک انصاف کے اعظم خان سواتی ،جمعیت علماء اسلام( ف )کے شیخ یعقوب ،آزاد امیدوار مولانا سمیع الحق،ڈاکٹر نثارخان اوردلاورخان جب کہ خواتین کی دونشستوں پر پیپلزپارٹی کی روبینہ خالد،تحریک انصاف کی ڈاکٹر مہرتاج روغانی ،جمعیت علماء اسلام( ف) کی نعیمہ کشور،عوامی نیشنل پارٹی کی شگفتہ ملک،قومی وطن پارٹی کی انیسہ زیب طاہرخیلی اورمسلم لیگ (ن) کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار ثوبیہ شاہداوررئیسہ داؤد میدان میں ہیں۔خیبرپختون خوا اسمبلی کے124 رکنی ایوان کے 122ارکان حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

شانگلہ سے عبدالمنعم خان  عدالت عظمیٰ کی جانب سے نااہل قراردیدئیے گئے جبکہ اقلیتی نشست پرنامزد رکن بلدیوکمار نے حلف نہیں اٹھایا۔صوبے کی دواہم جماعتوں تحریک انصاف اورمسلم لیگ ن نے ہارس ٹریڈنگ کاراستہ روکنے اورباہمی مشاورت سے من پسند امیدوار کامیاب کرانے کے لیے مذاکرات شروع کررکھے تھے، بعدازاں مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی جانب سے اتحاد کی پیشکش مستردکردی۔

ذرائع کے مطابق ن لیگ کی مرکزی قیادت نے پارٹی کی صوبائی قیادت کو خبردار کیاکہ تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں ن لیگ کے خلاف منظم مہم چلارہی ہے اس لیے خیبر پختون خوا میں ن لیگ کی صوبائی قیادت تحریک انصاف اور وزیر اعلیٰ پرویزخٹک کی خواہش پر ان سے اتحاد نہ کرے، جس کے بعد ن لیگ نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کرنے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے بڑھا دیئے اور اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کے ساتھ مذاکرات کئے۔تاہم اپوزیشن جماعتیں مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے پر متفق نہ ہوسکیں۔

وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا دعویٰ ہے کہ انہیں 65 اراکین کی حمایت حاصل ہے جسکے بل بوتے پر نہ صرف یہ کہ وہ اپنے چار جنرل امیدواروں کو با آسانی کامیاب کرا سکتے ہیں بلکہ ایک خاتون اور ایک ٹیکنوکریٹ امیدوار کو کامیاب کرانے کے ساتھ ہی ساتھ دیگر پارٹیوں کے ساتھ جوڑ توڑ کی بھی پوزیشن میں ہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف اپنے ٹیکنو کریٹ امیدوار اعظم سواتی کو42 ووٹ دینے کے بعد اضافی ٹیکنوکریٹ ووٹ مولانا سمیع الحق کو دے گی جبکہ خواتین کی نشست کے لیے پہلے42 ووٹوں کا استعمال ڈاکٹر مہر تاج روغانی کے لیے کیا جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام (ف )بھی اپنے دو امیدواروں کے حوالے سے تذبذب کاشکار نظر آٰرہی ہے۔

ذرائع کے مطابق جنرل نشست  پر مولانا گل نصیب خان اورطلحہ محمود کو ٹکٹ جاری کرنے پر پارٹی میں اختلافات ہیں، صوبائی مجلس عاملہ مولانا گل نصیب خان کو کامیاب کرانے کے حق میں ہے جبکہ مرکزی قیادت طلحہ محمودکی کامیابی کے لیے کوشاں ہے۔ جماعت اسلامی جو ایک جنرل نشست کی متمنی ہے،نے قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی ابرار حسین تنولی کو ساتھ ملا لیا ہے جس سے جماعت کے ارکان کی تعداد 8 ہوگئی تاہم جنرل نشست پر کامیابی کے لیے اسے تقریباً اتنے ہی مزید ووٹ بھی درکار ہیں اسی لیے وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ ڈیل کے ذریعے صوبائی امیر مشتاق احمد خان کو ایوان بالا میں لانا چاہتی تھی۔

ا س نے مسلم لیگ ن،اے این پی اورجماعت اسلامی کے مابین اتحاد ہوگیا،اس سلسلے میں ایک اجلاس بھی منعقد ہوا جس  میں امیر مقام، سردارحسین بابک،عنایت اللہ خان،پیرصابر شاہ اورسردار اورنگ زیب نلوٹھا بھی شریک ہوئے،اس موقع پر خواتین کی نشست پر اے این پی کی امیدوار شگفتہ ملک کو منتخب کرانے کافیصلہ کیاگیا۔ جبکہ دوسری جانب  تحریک انصاف اورقومی وطن پارٹی نے پھرسے اکٹھ کرلیا،دونوں ان انتخابات میں ایک دوسرے کو سپورٹ کریں گے ، جمعیت علماء اسلام (ف) اور پیپلزپارٹی کے مابین بھی سینیٹ انتخابات کے لیے اتحاد ہوگیا۔

سینیٹ کے انتخابات میں سندھ سے 12 امیدواروں کا انتخاب ہوگا۔ 7 جنرل نشستوں، 2 ٹیکنوکریٹ، 2 خواتین اور ایک اقلیتی نشست۔ سندھ اسمبلی کی 168 نشستوں پر اراکین کی تعداد 166 ہے۔ صوبے کی حکم راں جماعت  پیپلز پارٹی کے اسمبلی میں 95 جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے 50 اراکین ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل 9، تحریکِ انصاف 4، ن لیگ 7 جبکہ نیشنل پیپلز پارٹی کا سندھ اسمبلی میں ایک رکن موجود ہ، ایک ممبر آزاد حیثیت میں اسمبلی میں پہنچا ہے۔

سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے۔ ایک طرف ایم کیو ایم دھڑے بندی کا شکار ہے اور دوسری جانب اپوزیشن متحد نہیں ہوسکی۔سیاسی مبصرین کے مطابق پی پی پی 4 جنرل نشستوں کے ساتھ ایک خواتین اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کام یاب ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن میں اتحاد ہوتا تو وہ 3 جنرل، ایک خواتین اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست لے سکتی تھی۔ اسی طرح امکان ہے کہ ایم کیو ایم کے 9 منحرف اراکین کے ووٹ بھی پاک سرزمین پارٹی کے اتحادی کو ملیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پی ایس پی کسی بھی پارٹی کا ساتھ دے سکتی ہے اور کم از کم ایک جنرل نشست پر جوڑ توڑ کی پوزیشن میں ہے۔

ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی کے 50 ارکان میں سے 7 ارکان پی ایس پی میں جب کہ ایک پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکا ہے۔ 4 ارکان پارٹی سے رابطے میں نہیں ہیں اور یوں ایم کیوا یم کے 37 ارکان رہ جاتے ہیں۔ تاہم پارٹی میں گروہ بندی کی وجہ سے اراکین ووٹ دینے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔ ایم کیو ایم کے پی آئی بی گروپ کا دعویٰ ہے کہ اسے 25 اراکینِ اسمبلی کی حمایت حاصل ہے  جب کہ 12 بہادر آباد گروپ کے ساتھ ہیں۔

امیدواروں کی حتمی فہرست

امیدواروں کی حتمی فہرست کے مطابق 7 جنرل نشستوں پر 18 امیدوار میدان میں ہوں گے۔  7 پیپلز پارٹی، 6 ایم کیو ایم، 3 پی ایس پی جب کہ ایک کا تعلق مسلم لیگ ن اور ایک کا فنکشنل لیگ سے ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدواروں میں امام الدین شوقین، ایاز احمد مہر، سید محمد علی جاموٹ، مرتضی وہاب، مصطفی نواز کھوکھر، مولا بخش چانڈیو اور میاں رضا ربانی کے نام سامنے آئے ہیں جب کہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر احمد چنائے، سید امین الحق، عامر ولی الدین چشتی، فرحان چشتی، محمد فروغ نسیم اور محمد کامران ٹیسوری حتمی فہرست میں شامل  ہیں۔

پی ایس پی کے انیس احمد خان، ڈاکٹر صغیر احمد اور سید مبشر امام جب کہ سید مظفر حسین شاہ فنکشنل لیگ سے اور سرفراز خان جتوئی کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی کے 2 اور ایم کیو ایم کے 4 امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس میں پیپلز پارٹی کی قرۃ العین مری، کیشو بائی اور ایم کیو ایم کی ڈاکٹر نگہت شکیل، کشور زہرا، منگلا شرما اور نسرین جلیل کے نام شامل ہیں۔ ٹیکنو کریٹ کے لیے 6 امیدواروں میں سے ڈاکٹر سکندر میندھرو اور رخسانہ زبیری پیپلز پارٹی جب کہ حسن فیروز، ڈاکٹر عبدالقادر خانزادہ اور سید علی رضا عابدی ایم کیو ایم سے وابستہ ہیں۔ اقلیتی نشست پر پی پی پی کے انور لعل دین، پی ایس پی کے ڈاکٹر موہن منجیانی اور ایم کیو ایم کے سنجے پروانی امیدوار ہیں۔

کس کے نام واپس لیے گئے

جنرل نشستوں پرپیپلز پارٹی کے دوست علی جیسر، محمد قاسم اور جاوید نایاب لغاری، مسلم لیگ (ن) کے آزاد امیدوار محمد آصف خان، ٹیکنوکریٹ کی نشست پر 3 میں سے پیپلز پارٹی کے تاج حیدر اور ڈاکٹر یونس حیدر سومرو، ایم کیوایم پاکستان کے بیرسٹر فروغ نسیم،خواتین کی 2 نشستوں پر پیپلز پارٹی کی حمیرا علوانی اور ندا کھوڑو جبکہ اقلیتی نشست پر پیپلز پارٹی کے انتھونی نوید نے نام واپس لیا۔

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے 9 امیدواروں کے ٹکٹ واپس لینے کے لیے خط لکھا تھا جسے الیکشن کمیشن نے چند وجوہات کی بنا پر مسترد کردیا۔ سینیٹ الیکشن میں پی آئی بی اور بہادر آباد گروپ دونوں کے حمایت یافتہ اراکین حصّہ لے رہے ہیں۔

ایوانِ بالا سے رخصت ہونے والے

پیپلز پارٹی کے کریم احمد خواجہ، مختار احمد دھامرا، میاں رضا ربانی، بیرسٹر مرتضی وہاب ، ایم کیو ایم پاکستان کے تنویر الحق تھانوی، سیّد طاہر حسین مشہدی، مسلم لیگ فنکشنل کے سیّد مظفر حسین شاہ، خواتین کی مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی کی مدثر سحر کامران اور ایم کیو ایم کی نسرین جلیل، ٹیکنوکریٹس اور علما کی مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی ہی کے تاج حیدر اور ایم کیو ایم کے فروغ نسیم جبکہ اقلیتی نشست پر پیپلز پارٹی کے ہری رام سینیٹ بھی رخصت ہورہے ہیں۔

بلوچستان سے سینٹ کی11 نشستوں پر مجموعی طور پر25 اُمیدوار میدان میں ہیں جن میں جنرل کی سات نشستوں پر15 اُمیدوار، ٹینکوکریٹس کی دو نشستوں پر چار اور خواتین کی دو نشستوں پر چھ اُمیدوار ہیں۔ ٹیکنو کریٹس کی دو نشستوں پر حکومت کے دو حامی اُمیدواروں کے کاغذات مسترد ہونے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں ہے اگر ان اُمیدواروں کی اپیل منظور ہوجاتی ہے تو پھر صورتحال بھی بدل جائے گی۔

موجودہ صورتحال میں جنرل کی سات نشستوں پر حکومت کے حامی اُمیدواروں میں انوارالحق کاکڑ، صادق سنجرانی ،احمد خان، علاؤ الدین ، کہدہ بابر، حسین اسلام اور عبدالقادر آزاد حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولوی فیض محمد، بی این پی مینگل کے ہمایوں عزیز کرد، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے یوسف کاکڑ اور سردار شفیق ترین ،(ن) لیگ کے  میر افضل مندوخیل، نیشنل پارٹی محمد اکرم بلوچ اور فتح محمد بلوچ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنوکریٹس کی دو نشستوں پر حکومتی حمایت یافتہ  آزاد اُمیدوار اسلام حسین اور عبدالقادر کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد ان  کی سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر ہیں جبکہ نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو،جمعیت علماء اسلام (ف) کے کامران مرتضیٰ، پشتونخوامیپ کے ڈاکٹر مناف ترین اور (ن) لیگ کے حمایتی نصیب اﷲ بازئی مد مقابل ہیں۔ خواتین کی دو نشستوں پر حکومتی حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار بیگم شمع پروین مگسی، مس ثناء جمالی جے یو آئی (ف) کی عذرا سید، پشتونخوامیپ کی عابدہ عمر، (ن) لیگ کی ثمینہ ممتاز اور نیشنل پارٹی کی مس طاہرہ خورشید اُمیدوار ہیں۔انٹر پارٹی الیکشن نہ ہونے کے سبب پشتونخواملی عوامی پارٹی اور میاں نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی کے فیصلے کے بعد دونوں جماعتوں کے اُمیدواروں کو بھی آزاد اُمیدوار ڈکلیئر کردیا گیا ہے۔

بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد حکومتی ہم خیال گروپ کا دعویٰ ہے کہ وہ سات سے آٹھ  نشستوں پر باآسانی کامیابی حاصل کرے گا جبکہ سابقہ حکومت کی اتحادی جماعتیں نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی بھی ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے میدان میں اتری ہیں۔بعض تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ جنرل کی7 نشستوں میں سے حکومتی گروپ جسے ہم خیال گروپ کا نام دیا گیا ہے تین  سے چار نشستیں حاصل کرے گا جبکہ پشتونخواملی عوامی پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور نیشنل پارٹی بھی ایک ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بی این پی مینگل بھی اپنے اُمیدوار کی کامیابی کیلئے زور لگارہی ہے۔

ٹیکنوکریٹس کی دو نشستوں پر جمعیت علماء اسلام (ف) واضح طور پر ایک نشست لینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اگر سپریم کورٹ سے ہم خیال گروپ اپنے دو اُمیدواروں میں سے کسی ایک کے کاغذات درست کرانے کی اپیل میں کامیاب ہوگیا تو پھر اس کا میچ نیشنل پارٹی کے اُمیدوار سے پڑسکتا ہے وگرنہ نیشنل پارٹی دوسری نشست حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

خواتین کی دو نشستوں پر حکومتی ہم خیال گروپ  بہتر حکمت عملی سے چلا تو دونوں نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوجائے گا کیونکہ خواتین کی نشستوں میں سے ایک نشست پر نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے درمیان اتحاد ہوا ہے خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی نشستوں پر کانٹے دار مقابلہ ہونے کا امکان ہے، بعض دیگر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تمام صورتحال میں حکومتی ہم خیال گروپ گروپ7سے8 اور دیگر اتحادی جماعتیں3 سے4 نشستیں حاصل کرلیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔