شہبازشریف کی صدارت: نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ

عماد ظفر  اتوار 4 مارچ 2018
نواز شریف کی سیاسی جانشین کے طور پر مریم نواز جگہ لے چکی ہیں۔ شہبازشریف، مریم نواز کی جانشینی کے اس تاثر کو زائل کر پائیں گے یا نہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نواز شریف کی سیاسی جانشین کے طور پر مریم نواز جگہ لے چکی ہیں۔ شہبازشریف، مریم نواز کی جانشینی کے اس تاثر کو زائل کر پائیں گے یا نہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بالآخر شہباز شریف کو مسلم لیگ نواز کا قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔ شہباز شریف کے قائم مقام صدر بننے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ کیا مشکلات سے دشوار حکمران جماعت نے کلثوم نواز کے بجائے شہباز شریف کو قائم مقام صدر بنا کر نادیدہ قوتوں کو مفاہمت کا سگنل دے دیا ہے؟ کیا نواز شریف برے پولیس مین اور شہباز شریف اچھے پولیس مین کا کردار نباہتے رہیں گے؟ کیا شہباز شریف بطور ایک مرکزی رہنما اپنی جماعت کو متحد رکھ پائیں گے؟ شہباز شریف مسلم لیگ نواز کی روایتی سوچ کے علمبردار ہیں جو اداروں سے مفاہمت سے کام لینے اور چپ چاپ ڈکٹیشن کے تابع کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتیں اپنی جگہ، لیکن ایک مرکزی قائد کے طور پر ان کی قیادت پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔

بہرحال، نواز شریف جب تک شہباز شریف کی پشت پر موجود ہیں تب تک شہباز شریف کو اس کمی کا زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف کو عدلیہ کے ذریعے شکار کرنے والی قوتیں نواز شریف کو اپنی جماعت کے امور پر گرفت رکھنے کی اجازت دیں گی؟ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ مشکل دکھائی دیتا ہے کہ نواز شریف کو ان کے جماعت کے امور پر گرفت رکھنے کی اجازت مل سکے۔ اگر مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم سے نواز شریف بوجہ پابندی باہر ہوئے تو شہباز شریف اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ مسلم لیگ نون کےلیے پاپولر ووٹ حاصل کرکے اسے انتخابات میں فیصلہ کن برتری دلوا سکیں۔ شہباز شریف کو صدر بنا کر اگر مفاہمت کا پیغام دیا گیا ہے تو یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ وہ قوتیں جو شریف خاندان کا نام بھی سننا نہیں چاہتیں، ہرگز بھی شہباز شریف کی صورت میں مسلم لیگ نواز کو دوبارہ سے قدم جمانے کا موقع نہیں دیں گی۔

مسلم لیگ نون کا ’’لاہوری گروپ‘‘ جو اب بھی اسٹیبلشمنٹ سے صلح کرکے اقتدار کا تسلسل برقرار رکھنے کا خواہاں ہے، وہ یہ حقیقت نظرانداز کر رہا ہے کہ جس نہج پر مسلم لیگ نون اپنی سیاست کو لے جا چکی ہے وہاں سے واپسی اب ناممکن ہے۔ بالفرض اگر کسی مفاہمت کے ذریعے اقتدار حاصل کر بھی لیا جائے تو نہ صرف اس عمل سے مسلم لیگ نون کی عوامی تائید میں کمی آئے گی بلکہ مسلم لیگ نون ایک بار پھر نادیدہ قوتوں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔ اگر شہباز شریف گڈ کاپ (اچھے پولیس مین) کا رول ادا کرتے ہوئے یہ چاہ رہے ہیں کہ وہ نادیدہ قوتوں کی گڈ بکس میں رہیں اور دوسری جانب نواز شریف اپنا بیانیہ عوام تک پہنچاتے ہوئے جارحانہ سیاست کا انداز اپنائے رکھیں تو یہ بھی ایک غلط اندازہ ہے۔

پنجاب میں احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد اب عابد باکسر کو بھی وطن واپس لایا جارہا ہے اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ گڈ کاپ کا یہ کھیل اب زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گا۔ جس انداز سے پنجاب میں شہباز شریف کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، اسح دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یا تو شہباز شریف کو مکمل سمجھوتہ کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو مکمل طور پر تبدیل کرنا پڑے گا یا پھر انہیں بھی نااہلی کی تلوار سے شکار کرلیا جائے گا۔

مسلم لیگ نون کو متحد رکھنا بھی شہباز شریف کےلیے ایک کڑا امتحان ہو گا اور نواز شریف کے بیانیے سے ذرا بھی ادھر ادھر ہٹنا مسلم لیگ نون میں دھڑے بندیوں کا باعث بنے گا۔ شاید بہت سے تجزیہ نگار یہ حقیقت سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ نواز شریف کی وزارت عظمی کی نااہلی سے زیادہ نقصان دہ فیصلہ ان کی اپنی جماعت کی صدارت سے نااہلی کا فیصلہ ہے۔ اب تک اگر مسلم لیگ نون نے اپنے قدم جما کر رکھے ہیں تو اس کا سہرا نواز شریف کے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیوں کے سر ہے۔ جس دن یہ بیانیے کمزور پڑے، اس دن مسلم لیگ نواز کےلیے خود کو عوام میں مضبوط و مقبول رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

دوسری جانب نواز شریف نے تاحیات قائد بن کر نادیدہ قوتوں کو عندیہ دے دیا ہے کہ جماعت کے معاملات پر ان کی گرفت پہلے کی طرح برقرار رہے گی۔ اس وقت نواز شریف کو سب سے زیادہ ضرورت اس ہمدردی کی عوامی لہر کو قائم رکھنے کی ہے جس کے نتیجے میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اگر نواز شریف اپنی جماعت کے ’’لاہوری گروپ‘‘ کی بات مان کر مفاہمت کی آس لگائے بیٹھے ہیں تو وہ اس لڑائی میں نقصان اٹھائیں گے۔ اگر نادیدہ قوتوں کو مفاہمت کرنا ہوتی تو شہباز شریف کو پنجاب میں ہرگز بھی نہ چھیڑا جاتا، وہ بھی اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ اگر شہباز شریف بھی سائیڈ لائن ہوگئے تو پارٹی صدارت کلثوم نواز کے پاس چلی جائے گی اور کلثوم نواز کا سیاسی فلسفہ مریم نواز کی مانند کسی بھی قسم کے کمپرومائز سے عاری ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں مسلم لیگ نواز کےلیے انتخابات تک کا عرصہ پل صراط پر چلنے کے مانند دکھائی دیتا ہے جہاں طاقت کی بساط پر ایک بھی غلطی ان کے انتخابی قلعے میں دراڑ ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔

نواز شریف کےلیے اس وقت سب سے مؤثر کارڈ مریم نواز کی صورت میں موجود ہے۔ مریم نواز نے نوجوانوں سمیت عوام کے بڑے حصے کو اپنی جماعت کے ساتھ جذباتی اور نظریاتی طور پر وابستہ کیا ہے اور ان کا ہر جلسہ نہ صرف عوام کی اچھی خاصی تعداد کو جلسہ گاہ تک کھینچ لاتا ہے بلکہ ان کا جارحانہ انداز نادیدہ قوتوں کو بھی بیک فٹ پر دھکیلنے کا باعث بنتا ہے۔ مریم کے جارحانہ انداز سیاست کو کیش کراتے ہوئے اگر انہیں انتخابی مہم میں شہباز شریف کے شانہ بشانہ کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے تو مسلم لیگ نون کے حق میں یہ بہتر نتائج لانے کا سبب بن سکتا ہے۔

نواز شریف کی تقاریر پر پابندی یا انہیں پابند سلاسل کرنے کی صورت میں مریم نواز ان کا بہترین متبادل ثابت ہوسکتی ہیں۔ شہباز شریف اور ’’لاہوری گروپ‘‘ چوہدری نثار کو پھر سے جو ساتھ ملانے کی کوشش کررہا ہے، اس کا فائدہ بھی مسلم لیگ نون کو حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چوہدری نثار کی مفاہمتی سیاست کا انداز آصف زرداری جیسا ہے یعنی نادیدہ قوتوں سے سو جوتے اور سو پیاز کھا کر، سر جھکا کر، ان کی ڈکٹیشن لے کر، مدتِ حکمرانی پوری کرنا۔ اس انداز نے مسلم لیگ نون اور نواز شریف کو چار سال تک نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے رکھا اور آخر میں تمام تر سمجھوتوں کے باوجود بھی انہیں نکال باہر پھینکا گیا۔

یہ مسلم لیگ نون کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہے جس نے سیاست کا محور نواز شریف کو بنا دیا ہے۔ اس وقت بالکل بھٹو کی مانند آج کی سیاست نواز شریف اور اینٹی نواز شریف بیانیے کے گرد گھومتی ہے۔ یہ بیانیہ وقتی طور پر تو شاید کچھ سیاسی نقصان دے سکتا ہے لیکن اس کے سود مند نتائج دور رس اور بہت زیادہ ہیں۔ مشرف دور میں جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا تھا اور ان کے سیاست کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی تو اسی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے نے مسلم لیگ نواز کو زندہ رکھا تھا اور یہی بیانیہ نواز شریف کی سیاست میں واپس انٹری کا باعث بنا تھا۔

اس دور میں جاوید ہاشمی، مشاہد اللہ خان، خواجہ آصف، سعد رفیق اور تہمینہ دولتانہ نے ریاستی جبر کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی کا ایک بے حد قیمتی حصہ کال کوٹھڑی اور بدترین تشدد کی نذر کرکے اپنی جماعت کو زندہ رکھا تھا۔

حالات و واقعات تقریباً پھر سے ویسے ہی بنتے جارہے ہیں اور کسی بھی قسم کی مفاہمتی سیاست مسلم لیگ نون کے وجود کےلیے انتہائی خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ نادیدہ قوتیں اگر اپنے مہرے عمران خان کو وزارت عظمی کی کرسی پر بٹھانے کا تہیہ کرچکی ہیں تو پھر شہباز شریف اور ان کے حامیوں کا مفاہمانہ انداز سیاست کسی بھی طور مسلم لیگ نون کےلیے سود مند ثابت نہیں ہوگا۔

نواز شریف کی نظریاتی و سیاسی جانشین کے طور پر مریم نواز جگہ لے چکی ہیں اور عوام نے اس حقیقت کو قبول کرلیا ہے۔ شہباز شریف، مریم نواز کی جانشینی کے اس تاثر کو زائل کر پائیں گے یا نہیں؟ یہ بھی ان کےلیے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا۔ زمینی صورتحال کے تحت، جو بتدریج تبدیل ہوچکی ہے، مسلم لیگ نواز روایتی سیاست کے ذریعے ہرگز کامیابی حاصل نہیں کرسکتی؛ اور مریم نواز، نواز شریف کے بعد اس جماعت کی عوام میں بقا کی ضمانت نظر آتی ہیں نہ کہ شہباز شریف۔ مسلم لیگ نون اقتدار میں دوبارہ آتی ہے یا نہیں؟ یہ بات قطعی طور پر اہمیت کی حامل نہیں۔ لیکن اگر ووٹ کی حرمت اور بیلٹ باکس کی طاقت کو بندوق کی طاقت پر غلبہ دلوانے کا نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ سچا ہے تو پھر اس بیانیے کو مسلم لیگ کے اندر اور باہر مقتدر قوتوں پر حاوی آنا چاہیے۔ کیونکہ جمہوریت اور وطن کی بقا بیلٹ بکس کی طاقت کو تسلیم کیے جانے سے مشروط ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عماد ظفر

عماد ظفر

بلاگر گزشتہ کئی سال سے ابلاغ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ریڈیو، اخبارات، ٹیلیویژن اور این جی اوز کے ساتھ وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سےاردو اور انگریزی بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔