نواز شریف اور عمران خان کراچی کو کیوں بھول گئے؟

نصرت جاوید  بدھ 3 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

گزشتہ تین برسوں میں ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر سب سے زیادہ کراچی میں امن و امان کے مسئلے پر بحث ہوتی رہی ہے۔ دو کروڑ کی آبادی تک پہنچ جانے والے اس وسیع و عریض شہر میں عام شہریوں کے دلوں میں اپنے جانی اور مالی تحفظ کے بارے میں جو خوف پایا جاتا ہے،اس کی شدت خیبر پختون خوا کے بہت سارے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی پریشانیوں سے کہیں زیادہ بڑھا کر پیش کی گئی۔

میڈیا والے جو توجہ صرف کراچی تک محدود رکھتے، وہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے لوگوں کو صحافیوں سے ناراض بھی کرتی رہی۔ ایک صحافی کے طور پر مجھے ان لوگوں کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے میں بڑی دقت پیش آتی۔ مجھ سے شکایات کرنے والوں کے لیے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہوتا کہ ٹیلی میٹر کیا ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے کون کون سے شہر میں کس تعداد میں لگائے گئے ہیں اور ان ہی کے ذریعے مختلف ٹی وی پروگراموں کی Rating تیار ہوتی ہے اور Rating کس طرح اشتہارات کے حوالے سے کسی خاص ٹی وی چینلز، اس کے پروگراموں اور ان کے اینکروں کے مقدر کا سکندر بنا کرتی ہیں۔

کراچی پر میڈیا کی بھرپور توجہ سے پیدا ہونے والے گلے شکووں سے بالاتر ہو کر میں اکثر یہ بھی سوچتا تھا کہ کم از کم پاکستان کی معاشی شہ رگ سمجھے جانے والے اسی شہر اور اس کے مسائل کی وسیع تر کوریج ہمارے سیاسی منظر نامے میں چند خوش گوار اور مثبت تبدیلیاں بھی تو لا سکتی ہے۔ سچی بات ہے پاکستان کی بڑی جماعتوں کی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی نامزدگی کے بعد میں اس ضمن میں بہت مایوس ہوا ہوں۔ اپنی مایوسی کے انتہائی لمحوں میں یہ سوال بھی میرے ذہن میں بارہا اُٹھا کہ کہیں ہماری سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے کراچی کو خدانخواستہ کسی دوسرے ملک کا حصہ تو نہیں سمجھ رکھا۔

کراچی پر میڈیا کے بھرپور فوکس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے کر اس شہر کے مسائل کو سمجھنا چاہا۔ اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کی بدولت ہمارے ذہنوں میں تاثر کچھ یہ بنا کہ کراچی ایک شہر نہیں مختلف لسانی گروہوں میں تقسیم ہوا ایک جنگل ہے۔ ایم کیو ایم یہاں کے سب سے بڑے حصے کی مالک ہے۔ اس کے بعد لیاری اور ملیر ہیں جو پاکستان پیپلز پارٹی کے علاقے سمجھے جاتے ہیں اور پھر سہراب گوٹھ سے لے کر منگھو پیر تک پھیلی پشتون بستیاں ہیں جہاں اے این پی والے راج کرتے ہیں۔ اتفاق سے یہ تینوں جماعتیں سندھ کی مخلوط حکومت میں ایک ساتھ بیٹھی رہیں۔

ان تینوں کی مشترکہ حکومت کو اس شہر میں امن، ترقی اور خوش حالی کا ماحول پیدا کرنے کے بعد پاکستان کے عام شہریوں کو جمہوری نظام کی برکتوں سے متعارف کرانا چاہیے تھا۔ ہوا مگر اس کے بالکل برعکس۔ تقریباََ ڈیڑھ سال سے اس شہر کے عام لوگوں کی اکثریت کی جانب سے مطالبہ تو یہ آتا رہا کہ چونکہ ہر سیاسی جماعت نے مبینہ طور پر اپنے اپنے قبضہ گروپ بنا رکھے ہیں، اس لیے اس شہر کو فوج جیسے غیر جانبدار ادارے کے سپرد کر کے کوئی بڑا آپریشن کلین اپ کیا جائے۔

میں ذاتی طور پر پوری دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ فوج جیسے اداروں کے ذریعے قلیل المدتی صفائی ستھرائی تو کی جا سکتی ہے مگر طویل المدتی تناظر میں اس کی جانب سے امن و امان کے مسئلے کو حل کرنا بہت ساری مزید اُلجھنوں کا سبب بن جاتا ہے۔ شہر اسی صورت میں امن کے گہوارے بن سکتے ہیں جب وہاں کے مکین خود کو کسی ریاست کے حقوق و فرائض والے شہری سمجھیں۔ ایک مقامی حکومت کا انتخاب کریں اور اس کے کاموں پر کڑی نگاہ رکھیں۔ کسی شہر کے مکینوں کو وہاں کے شہری بنانے کا فریضہ بالآخر سیاسی جماعتوں کو سرانجام دینا ہوتا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔

مکینوں کو حقوق و فرائض کے ساتھ شہری بنانے والے پیچیدہ عمل کے حوالے سے اگر آپ بھی سیاسی جماعتوں کو میری طرح ذمے دار سمجھتے ہیں تو ذرا سوچیے کہ گزشتہ تین سالوں میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے حقیقی مخالف ہونے کے دعوے کون لوگ کرتے رہے۔ جی ہاں اس حوالے سے سب سے زیادہ تنقید پاکستان مسلم لیگ نواز اور پھر عمران خان کی طرف سے ہوئی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم از کم یہ دونوں رہ نما کراچی سے قومی اسمبلی کی کسی نشست سے بھی امیدوار بنتے اور انتخابی مہم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس شہر کے لوگوں کو وہاں امن و امان قائم کرنے والی بہتر حکومت کے کسی منشور کے ساتھ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے طاقتور متبادل کے طور پر نظر آتے۔

عمران خان اور نواز شریف چار سے زیادہ نشستوں پر بیک وقت امیدوار بننے کو تیار بیٹھے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں ان دونوں کی زیادہ توجہ صرف لاہور اور راولپنڈی پر مرکوز ہے۔ عمران خان پشاور سے بھی انتخاب لڑیں گے۔ اچھی بات ہے مگر لاہور اور راولپنڈی تو ایسے شہر ہیں جہاں نواز شریف کی جماعت 1985 سے بڑی طاقتور ہوتی چلی آ رہی ہے۔ ان ہی دو شہروں میں پڑھے لکھے لوگوں اور خاص کر نوجوانوں کی ایک بے پناہ اکثریت نے عمران خان کو تبدیلی کا نشان بھی سمجھا۔ یہ دونوں جماعتیں ان شہروں میں کسی بھی پڑھے لکھے اور نیک شہرت نوجوان کو اپنے مداحین کی طاقت سے قومی اسمبلی تک پہنچا سکتی ہیں۔

میاں صاحب لاہور سے کسی ’’پکی سیٹ‘‘ پر کھڑے ہو کر کراچی کی ایک نشست پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ میانوالی کا ایک حلقہ تھوڑی سی محنت کے بعد یقینی طور پر عمران خان کا ہو سکتا ہے۔ اگر ان کے پاس واقعی تبدیلی کا کوئی پیغام ہے تو انھیں اس کے ساتھ کراچی کے کسی حلقے میں بھی بھرپور انتخابی مہم چلانے کی جرأت دکھانا چاہیے تھی۔ نواز شریف اور عمران خان کا کراچی سے اجتناب مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ ان دونوں کے پاس اس شہر کے مجبور و بے کس مکینوں کو حقوق و فرائض والا شہری بنانے کا نہ تو کوئی نسخہ موجود ہے نہ ارادہ۔ ان دونوں کی اس سلسلے میں بے اعتنائی مجھے جماعت اسلامی کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

میرے باقاعدہ قاری جانتے ہیں کہ میں اس جماعت کی سیاست کا بہت زیادہ مداح نہیں۔ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ 1980 کے وسط تک جماعت ِاسلامی ہی کراچی کی ترجمان سمجھی جاتی تھی ۔1970 کے دہائی میں مولانا شاہ احمد نورانی نے اس کا متبادل بننے کی کوشش کی مگر میدان ایم کیو ایم کے نوجوانوں نے ایک نئی سوچ کے ساتھ جیت لیا۔ جماعت ِاسلامی شاید اب بھی کوئی نئی سوچ لے کر نہیں آئی ہے۔ مگر نعمت اللہ خان نے مقامی حکومت کے ذریعے 2002 کے انتخابات سے پہلے شہری مسائل کے حوالے سے اچھے تاثرات پیدا کیے تھے۔ وہ اور محمد حسین محنتی جیسے لوگ مسلسل اس شہر میں اپنا پیغام پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مگر وہ اس شہر میں کامیاب بھی ہو جائیں تو قومی سطح پر کراچی کو اُجاگر نہ کر پائیں گے۔ یہ ذمے داری نواز شریف اور عمران خان کی تھی اور وہ دونوں اپنی یہ ذمے داری نبھانے میں ناکام رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔