پاکستان بچانے کے لیے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

آج وطن عزیز اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے کیونکہ اسے بیرونی نہیں بلکہ سنگین اندرونی خطرات لاحق ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کوئی بھی ملک بیرونی خطرات سے تو پھر بھی نبرد آزما ہو کر بقا پا ہی جاتا ہے تاہم سنگین اندرونی خطرات و مسائل حقیقی معنوں میں بربادی کے دہانے تک پہنچانے اور اس کے وجود کو مٹانے کا سبب بنتے ہیں۔ آج پاکستان کو سب سے زیادہ خطرات آستین کے سانپوں سے ہیں، اپنے قیام کے بعد سے ہی پاکستان کچھ ایسے حالات و واقعات سے دوچار رہا ہے کہ ’’ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔

انتخابات کی آمد آمد ہے، ہر سیاسی پارٹی اور رہنما اپنی آنکھوں میں چمک لیے معاف کیجئے گا اپنی آنکھوں میں فکر و غم کے آنسو لیے ایک بار پھر ملک کو کھانے (ایک مرتبہ پھر بہت معذرت کے ساتھ ، نہ جانے کیوں یہ گستاخ قلم بار بار نافرمانی کرتے ہوئے پھسل رہا ہے اور کیا سے کیا لکھ رہا ہے) جی تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک بار پھر ملک کو کھانے ۔۔۔۔ ارے نہیں بھئی! کھانے نہیں بچانے، بچانے، بچانے کے لیے میدان انتخاب میں کود چکے ہیں۔

ہر پارٹی انقلاب کی دعویدار ہے اور ملک کی قسمت سنوارنے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنا اپنا پارٹی منشور پیش کر رہی ہے۔ بہرحال یہ بھی کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ ہی انتخاب سے پہلے ایسے ہی بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، ملک کو بچانے اور قسمت سنوارنے کی باتیں کی جاتی ہیں اور پھر سب اپنے ہی مستقبل کو بچانے اور قسمت کو سنوارنے اور بچے کچے پاکستان کو مسلسل کھانے، اپنا بینک بیلنس بنانے اور پھر بیرون ملک بھاگتے نظر آتے ہیں۔

جو اللہ کو پیارے ہوگئے ان کا بھلا کیا ذکر کریں، زندوں میں حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ پرامید میاں نواز شریف نظر آ رہے ہیں لیکن ان کے گزشتہ ادوار میں ملک و قوم کی جتنی خدمت ہوئی اور انھوں نے ملک کو جتنا بچایا سب بخوبی جانتے ہیں وہ جن ایٹمی دھماکوں کا بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں اس کا سہرا بھی درحقیقت بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر بندھتا ہے باقی موٹر وے یا میٹرو سروس وغیرہ ان کے کوئی ایسے قابل ذکر کارنامے بھی نہیں کہ جن سے ملک و قوم کو انقلابی فوائد حاصل ہوئے ہوں اور وہ ویسے بھی اس اعتبار سے بڑے مظلوم ہیں کہ 12 اکتوبر 1999 کے بعد جنرل مشرف نے ملک و قوم کی خدمت کا ٹھیکہ طاقت کے بل بوتے پر ان سے چھین کر خود اپنے نام کر لیا تھا اور پھر جس انداز میں انھوں نے خدمت کی وہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں، کارگل، امریکی غلامی، عافیہ صدیقی، خودکش اور دیگر بم دھماکوں کا آغاز، لال مسجد آپریشن ان کے وہ کارنامے ہیں کہ جن کی بنیاد پر وہ ایک بار پھر آج منتخب ہونے کے لیے عوام کے درمیان آ گئے ہیں۔ بس اللہ ہی رحم فرمائے۔ اگر وہ منتخب ہو گئے تو بلوچستان کا مستقبل مزید دھندلا جائے گا۔

ویسے پاکستان بچانے کے لیے تو قادری صاحب بھی میدان میں اترے تھے لیکن ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور وہ اسلام آباد کو تحریر اسکوائر بنانے اور مصر جیسے کسی انقلاب کو پاکستان میں لانے میں کلی طور پر جب ناکام و نامراد ہو گئے تو اپنے سیاسی مستقبل کی غیر یقینی حالت کو دیکھتے ہوئے ایسے مایوس ہوئے کہ انگور کھٹے ہیں کی مثل کے مترادف انتخابات کا بائیکاٹ کرنے اور الیکشن بوتھ پر دھرنے دینے کا اعلان کرتے نظر آ ئے۔

مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری برادران کی سیاست بھی حلوے مانڈے کی سیاست سے بڑھ کر اور کچھ نہیں، جماعت اسلامی کو ملک کی خدمت کرنے کا ابھی تک کوئی بڑا موقع ملا نہیں جب کہ عمران خان کے بارے میں آزمائے بغیر ابھی کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔ جب کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے قابل، ایماندار اور محب وطن سادہ لوح سیاستدان کی شاید ہماری عوام کو کوئی ضرورت نہیں، ہمیں تو زردار لوگ ہی راس آتے ہیں اسی لیے تو ہم ایسے عظیم لوگوں کو تلاش کرتے اور منتخب کرتے ہیں اور پھر انھیں بیٹھ کر صدیوں روتے ہیں، گزشتہ پانچ سال ملکی تاریخ کا تو بلاشبہ نہیں دور حاضر کی لغت میں مروجہ سیاست کے اعتبار سے یقینی طور پر مثالی اور روشن ترین باب ہیں جس کی بدولت ملکی سیاست میں پیپلز پارٹی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔

شاید اسی وجہ سے وہ پارٹی کے منظر نامے سے دور ہوکر اپنے صاحبزادے کو فرنٹ پر لے آئے ہیں تاہم لگتا یہی ہے کہ کم از کم اگلے پانچ برس تو ملک کو بچانے کے لیے عوام انھیں دوبارہ منتخب نہیں کریں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جس انداز میں انھوں نے ملک کو بچایا اس اعتبار سے تو انھوں نے اپنے تمام ہم عصر ملک کے ہمدرد و غم خوار سیاستدانوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا اور میثاق جمہوریت کی روشنی میں جہاں نواز شریف و شہباز شریف نے جس مثالی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا وہ بھی سنہری حروفوں سے لکھا جانے کے لائق ہے۔

علاوہ ازیں دیگر نام نہاد خدمت گار ناقابل بیان سیاسی جماعتیں بھی پاکستان بچانے اور بچا ہوا کھانے کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، بس طریقہ واردات ان کا الگ الگ ہے۔ بہرحال اس وقت ملک جن نامساعد حالات سے دوچار ہے ان حالات میں یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر مزید اگلے پانچ برس ایسے غمخوار پاکستان کو بچانے والی حکومت و اپوزیشن کی شکل میں مل گئے تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

شاید ان ہی ایام و حالات کو مستقبل کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے قائد ملت لیاقت علی خان نے جام شہادت نوش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ دعا بے کار نہیں جائے گی، بس ٹھپا صحیح جگہ لگنا چاہیے، مکمل ذمے داری کے ساتھ رنگ و نسل اور زبان سے بالاتر ہو کر، صرف ایک پاکستان کی خاطر، پاکستان کو بچانے کی خاطر، ملک کی بقاء و سلامتی کی خاطر، اگر ہم عوام چاہیں تو بلاشبہ پاکستان کو کھانے والے نہیں بلکہ بچانے والے آ سکتے ہیں۔

پاکستان کی قسمت کا فیصلہ ہم عوام کے ہاتھ میں ہے لیکن ہم اتنے نادان ہیں کہ خود اپنی قسمت کا فیصلہ بھی غلط ووٹ دے کر نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں اور پھر اپنی غلطی کے ادراک اور ازالے کی بجائے اپنی اور اپنی پاک سرزمین کی قسمت کو روتے رہتے ہیں۔ اللہ کرے کہ اس بار ایسا نہ ہو۔ اس بار ہمارے پاس کچھ ایسے بے داغ ماضی والے روشن کردار آپشنز ہیں جو ہمارے انتخاب کے منتظر بھی ہیں، کیا ہمیں پوری ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں موقع نہیں دینا چاہیے؟ یا ماضی کی طرح بار بار غلطی کرتے ہوئے آزمائے ہوئے مردہ ضمیر سیاستدانوں ہی کو دوبارہ آزمانا چاہیے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ کی تقدیر، اس ملک کی تقدیر، سیاستدانوں کی تقدیر سب کچھ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا کہ:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔