قصور وار کون؟ 

رئیس فاطمہ  اتوار 4 مارچ 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

سوشل میڈیا کے حوالے سے آئے دن کوئی نہ کوئی خبر گردش میں رہتی ہے۔ خاص کر سائبر کرائم کے حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نت نئی خبریں دیتے چلے آ رہے ہیں۔ بعض نجی چینلز نے اس حوالے سے خاصا مثبت کام کیا ہے، لیکن چند دن نہیں گزرتے کہ پھر کوئی خبر آ جاتی ہے۔ اور یہ وہ خبریں ہیں جو رپورٹ ہوتی ہیں۔ نہ جانے کتنی وارداتوں کا تو اس لیے علم نہیں ہوتا کہ لوگ خاموشی سے یا بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتاتے نہیں۔

پچھلے دنوں پشاور میں ایک ایسا ہی واقعہ ہوا۔ خبر میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ سادہ لوح طالبات کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے جال میں پھنسا کر لاکھوں روپے بٹورنے والے گروہ کے دو ارکان کو گرفتار کر لیا ہے۔ خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ کے پاس چند سال قبل فیس بک میسنجر کے ذریعے اسے ایک میسج آیا جس پر اس طالبہ کا رابطہ حاشر نامی لڑکے سے ہوا، چند دنوں تک یہ سلسلہ چلا دونوں میں بات چیت ہوتی رہی (واضح رہے کہ لڑکی فرسٹ ایئر کی طالبہ ہے) چند دنوں بعد حاشر نے اس لڑکی سے جس کا نام نمرہ ہے سے واٹس ایپ کا نمبر مانگا جو کہ فوراً ہی دے دیا گیا، اس کے بعد دونوں کے درمیان رابطے ہونے لگے، جس کے بعد حاشر نے اس سے چند فوٹوز اور ویڈیوز مانگیں جو نمرہ نے سینڈ کر دیں۔

اس کے بعد حاشر اور اس کے دوست نے لڑکی سے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کر دیا اور رقم نہ دینے کی صورت میں فوٹوز اور ویڈیوز یو ٹیوب پر ڈالنے کی دھمکی دی، صرف یہی نہیں بلکہ راستے سے اسے اغوا کرنے کی دھمکی بھی دی۔ نمرہ نے اس سے جان چھڑانے کے لیے اپنا موبائل نمبر تبدیل کر لیا، لیکن حیرت انگیز طور پر بلیک میلنگ کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔

آخر کار دھمکیوں سے تنگ آ کر لڑکی نے اپنے گھر سے دو لاکھ روپے چوری کر کے حاشر اور اس کے دوست کو دے دیے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دونوں اس کو بلیک میل کرتے رہے۔ کچھ دن بعد لڑکی کی منگنی ہوگئی جس کے بعد دونوں لڑکوں نے اس کی فوٹوز اور ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا دیں اور اس کے سسرال والوں کو بھی فوٹوز اور ویڈیوز بھیج دیں۔ یہ تو پتہ نہیں کہ اس کے بعد منگنی رہی یا ٹوٹی لیکن لڑکی نے روز روز کی بلیک میلنگ سے تنگ آ کر تھانے میں رپورٹ درج کروا دی۔

پولیس نے ملزموں کے خلاف ایکشن لے کر انھیں گرفتار کر لیا۔ لڑکی کے والد نے بتایا کہ جب گھر سے دو لاکھ روپے چوری ہوئے تو گھر میں خاصی بدمزگی ہوئی، کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ تنگ آکر وہ اپنے پیسے اپنے بھائی کے گھر رکھنے لگے، لیکن وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی اپنی بیٹی نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔اس سارے قصے میں قصوروار بھلا کون؟ یقیناً لڑکی ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں تو موبائل ہے۔ وہ بھی Android۔ میسنجر، واٹس ایپ اور ایس ایم ایس۔ اگر لڑکیاں یہ جان لیں کہ واٹس ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعے ہونے والی دوستیاں تباہی کا راستہ ہیں۔

عزت بڑی نازک چیز ہوتی ہے، یہ معاشرہ بھیڑیوں اور خونخوار جانوروں سے بھرا پڑا ہے۔ تصور کیجیے ان والدین کا جن پر ان کی بیٹیاں قیامت توڑتی ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایسے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ جب لڑکوں نے ’’قابل اعتراض‘‘ تصاویر سے بلیک میل کیا تھا لڑکیوں کو۔ سوال یہ ہے کہ ’’قابل اعتراض‘‘ تصاویر لڑکوں تک کس طرح پہنچیں؟ ظاہر ہے لڑکیوں نے موقع دیا اور پھنس گئیں۔ آج کل کی نوجوان نسل کے لیے اخبار تو جیسے شجر ممنوعہ ہیں۔ میں نے کسی کالج یا کسی گھر میں لڑکیوں کو اخبار پڑھتے نہیں دیکھا۔ زیادہ تر گھرانوں میں اب اخبار آتا ہی نہیں۔

کالجوں کے لائبریرین سے پوچھیے تو جواب بہت ہی مایوس کن ملے گا کہ کوئی بھی طالب علم اخبار دیکھتا تک نہیں ہے۔ صرف کورس کی کتابوں اور نوٹس بنانے کی گائیڈ بکس ایشو کرواتے ہیں۔ گھر میں ہوں یا باہر موبائل ان کا منظور نظر ہے۔ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے کہ ڈائننگ ٹیبل پر ایک ہاتھ سے روٹی کا نوالہ توڑا جا رہا ہے، نظریں موبائل پر ہیں، ساتھ ساتھ ایس ایم ایس ہو رہے ہیں۔ بعض اوقات کھانا چھوڑ کر واٹس ایپ پر میسجز دیے جا رہے ہیں۔

ایک بار پھر اپنی بات دہراؤں گی کہ سائبرکرائم میں زیادہ تر لڑکیاں انوالو ہیں۔ جب تک وہ کسی کو اپنا نمبر دیں گی نہیں تو بات چیت کیسے آگے بڑھے گی؟ ہماری ترجیحات بہت بدل گئی ہیں۔ اب ماؤں نے بھی نظریں چرانی شروع کر دی ہیں تا کہ بیٹی کا رشتہ ہونے میں آسانی ہو۔ رشتوں کی آج کل بہت مانگ ہے۔ لڑکے والوں کے مطالبات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے بیشتر گھرانوں میں موبائل پر لڑکوں سے دوستی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ گویا اب لڑکوں سے دوستی کرنا وقت کا تقاضا ہے۔

چلیے مان لیا کہ ایسا ہی ہے، لیکن مائیں اپنی بیٹیوں کو اتنا تو سمجھا ہی سکتی ہیں کہ اگر کوئی معقول نوجوان ان کی صاحبزادی میں دلچسپی لے رہا ہے تو وہ اس بات کو راز نہ رکھے، نہ صرف ماں یا بہن کو بتا دے یا اس کو رشتہ بھیجنے کے لیے کہے۔ یہ ایک جملہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دے گا۔

کبھی کسی نے غور کیا کہ نوجوان نسل کو ایسا کیا ضروری کام ہوتا ہے کہ موبائل ہاتھ سے چھٹتا نہیں اور نظریں اسکرین سے ہٹتی نہیں۔سائبر کرائم کے اب تک جتنے بھی کیس دیکھے ہیں ان میں قصوروار لڑکی ہی تھی۔ کسی نے مس کال پہ دوستی کی، کسی نے کسی سہیلی کے ذریعے تعلقات بڑھائے، کسی نے کلاس فیلوز سے رابطے بڑھا لیے۔ بات جب بہت آگے بڑھ گئی تب والدین کو پتہ چلا۔ ہم آئے دن پڑھتے ہیں کہ کچرا کنڈی میں سے نوزائیدہ بچے کی لاش ملی۔ یہ سب کیا ہے؟

خدارا ! آنکھیں کھولیے اور اپنی بیٹیوں کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کیجیے، یہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں ہر جرم کی سزا صرف عورت کو ملتی ہے، لیکن سائبر کرائم میں ابتدا بے شک لڑکوں کی طرف سے ہوتی ہے لیکن بات کو بڑھاوا لڑکیاں دیتی ہیں۔ والدین بے خبر رہتے ہیں، پھر نتیجہ کبھی بلیک میلنگ کی صورت میں نکلتا ہے، کبھی گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کی صورت میں۔ ترغیبات بہت ہیں خاص کر سوشل میڈیا اور موبائل کے بعد جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

ایک طرف سوشل میڈیا حساس معاملات کو سامنے لا رہا ہے تو دوسری طرف سائبرکرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک بار پھر کہوں گی کہ بیٹیوں کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیجیے۔ اخبار پڑھیے تا کہ باخبر رہ سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔