تا حیات نا اہلی سے تا حیات قائد تک: پارٹی کی وقعت کیا رہ جائے گی

رحمت علی رازی  اتوار 4 مارچ 2018
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

تاریخِ پاکستان میں اِن اقدامات کو بے حسی اور بے شرمی کے الفاظ میں لکھا جائے گا کہ جب اسلامی جمہوریہ پاکستان پر چاروں اطراف سے آزمائش اور ادبار کے گمبھیر بادل چھائے ہُوئے تھے، پاکستان کی سب سے بڑی اور مقتدر سیاسی جماعت اور اس کے قائدین اپنے نجی مفادات کی جنگ لڑرہے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ہر فورم پر پاکستانی مفادات کے تحفظ کا دفاع کرتے، اِ س کے برعکس وہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے رہے۔

مستقبل کامورّخ اپنے قلم سے لکھے گا کہ جب عالمی سطح پر امریکی اور برطانوی قیادت میں ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘(ایف اے ٹی ایف)کے فورم پر پاکستان اور اس کے بائیس کروڑ عوام کی مُشکیں کسنے اور اُن کا جینا دُوبھر کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی تھی، پاکستان کی مقتدر جماعت ’’مسلم لیگ نون‘‘ اور اس کے قائدین اِن قومی نقصانات سے قطعی لاتعلق رہ کر محض اپنے مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے عدلیہ کے بالمقابل کھڑے تھے۔

اِس سے زیادہ بے حسی کا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب یکم مارچ2018ء کو پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھی اِس بات کی تصدیق کر دی کہ ’’ایف اے ٹی ایف‘‘نے پاکستان کو خطرناک ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کر لیا ہے، مسلم لیگ نون کے مرکزی حکمرانوں اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے کانوں پر جوں تک نہ رینگ سکی۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کر سکے۔

گویا پاکستان کے خلاف اس عالمی فورم کے فیصلے سے شاہد خاقان عباسی، نواز شریف اور حکمران ٹولے کا سرے ہی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے!! مستقبل کا وقائع نگار یہ بھی لکھے گا کہ جب ایل او سی پر بھارتی توپیں پاکستانی اور آزاد کشمیر کے شہریوں کو روزانہ کی بنیاد پر شہید کررہی تھیں، پاکستانی اقتدار پر براجمان سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اس کے مرکزی ’’قائد‘‘ محمد نواز شریف قاتل اور جارح بھارت کے خلاف منہ سے ایک بھی لفظ نکالنے سے مطلق گریز کرتے رہے۔

محض اس لیے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اُنہوں نے چند ایسے تحفظات پال رکھے تھے جو اُن کے ذاتی اور کاروباری مفادات سے متصادم تھے۔یکم مارچ کو بھی بھارتی افواج نے پاکستانی افواج کے دو جوانوں کو ایل او سی پر شہید کر دیا لیکن پاکستان کی حکمران جماعت چپ سادھے رہی۔ کیا اسے مجرمانہ خاموشی نہیں کہا جائے گا؟افسوسناک امر ہے کہ یہ انڈیا اور اس کے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں جنھوں نے امریکا، برطانیہ، جرمنی وغیرہ سے اندرونِ خانہ اتحاد اور گٹھ جوڑ کرکے پاکستان کو’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کے توسط سے’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن پاکستان کے سابق اور ’’حاضر سروس‘‘ وزیر اعظم(نواز شریف و شاہد خاقان عباسی) بھارت کے بارے میں ایک بھی جملہ ادا کرنے سے قاصر رہے۔

تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ بھارت سے دوستی کے جس راستے پر نواز شریف گامزن تھے، شاہد خاقان عباسی بھی اپنے قائد کی خوشنودی کی خاطر اُسی راستے پر قدم بڑھا چکے ہیں؟شاہد خاقان عباسی اور اُن کے قائد کو صرف اس امر کا غم کھائے جاتا رہا کہ عدالتِ عظمیٰ نے پہلے نواز شریف کو وزیر اعظم کی کرسی سے محروم کیا اور پھر مزید’’چرکہ‘‘ لگاتے ہُوئے اُنہیں اُن کے نام سے بنائی جانے والی جماعت کی سربراہی سے بھی سبکدوش کر دیا۔

جب پاکستان کے اکثریتی عوام عدالتِ عظمیٰ کے اس شاندار اور تاریخ ساز فیصلے پر خوشی اور مسرت سے رقصاں تھے، نواز شریف اور اُن کے حواری دونوں فیصلوں کے خلاف لایعنی غُل مچا رہے تھے۔یہ جسارت یہیں پر ہی نہ رک سکی بلکہ مقتدر پارٹی اور اس کے مرکزی قیادت نے عدلیہ کے دونوں متذکرہ فیصلوں کے خلاف ایک نیا قدم اٹھایا، یوں کہ محمد نواز شریف کو ’’تاحیات قائد‘‘ کے نئے لقب اور ٹائٹل سے نواز دیا۔

مسلم لیگ نون نے یہ فیصلہ مجلسِ عاملہ میں کیا جو پہلے ہی نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز شریف کے ہاتھوں میں برسوں سے یرغمال بنی ہُوئی ہے۔ نون لیگ نے یہ اقدام کرتے ہُوئے دراصل چالاکی دکھانے کی کوشش کا مظاہرہ کیا ہے کہ اس سے پہلے کہ عدلیہ آگے بڑھ کر نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے ڈالے، نون لیگ نے نواز شریف کو تاحیات اپنا قائد قرار دے ڈالا ہے اور اِسے ’’مشترکہ اور متفقہ فیصلہ‘‘ بھی کہہ دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ دراصل Pre empt اقدام کے مترادف ہے مگرعوام کی اکثریت نے نون لیگیوں کی چالاکی پر مشتمل یہ فیصلہ دل سے تسلیم کیا ہے نہ اِسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔

شریف خاندان نے اپنے تئیں یہ اقدام اس لیے کیا ہے کہ نون لیگ کی قیادت و سیادت کو گھر کے اندر ہی محفوظ رکھا جا سکے لیکن یہ اٹھایا گیا قدم جمہوری اور اصولی روایات سے انحراف بھی ہے اور متصادم بھی۔ دنیا میں جمہوری مزاج رکھنے والا کوئی بھی شخص دنیا کے کسی بھی خطے میں اِسے تحسینی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ یہ جمہوری روایات کی پامالی کے مترادف ہے۔ یہ فیصلہ اور اقدام فی الحقیقت عدلیہ کا مذاق اور ٹھٹھہ اڑانے کے مساوی ہے، یہ ثابت کر کے کہ آپ ہمیں وزارتِ عظمیٰ اور نون لیگ کی سربراہی سے نکال دیں لیکن ہم کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے ہُوئے آپ کے مقابل اور سامنے آ گئے ہیں۔ ہم آپ کو قدم قدم پر چیلنج کررہے ہیں۔

غالباً اِسی فکر وخیال میں نواز شریف نے ’’تاحیات قائد‘‘ بنتے ہی یوں فرمایا: ’’مَیں سکھا شاہی نہیں چلنے دوں گا۔‘‘ تمہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟جناب محمد نواز شریف کیا اپنے اُن عوام کو بتلا سکتے ہیں جنھوں نے اُنہیں تین بار وزیر اعظم کے بلند اور محترم عہدے پر فائز کیا کہ جنابِ والا، آپ نے ’’سکھا شاہی‘‘ کسے کہا ہے؟ آپ کی زبان سے یہ قابلِ اعتراض اشاراتی الفاظ کس کے بارے میں ادا ہُوئے ہیں؟

یہ الفاظ تو اشاروں کنایوں میں نریندر مودی بھی اپنے مخالف راہول گاندھی اور کیجریوال کے خلاف استعمال کرنے کی جرأت نہیں کر سکے ہیں۔نواز شریف اگر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ سزا پا کر اور ’’تاحیات قائد‘‘ بن کر ہر قسم کے احتساب سے بلند تر ہو چکے ہیں تو ایسا ذہن میں بٹھا لینا اُن کی غلط فہمی بھی ہو گا اور اُن کے لیے نہایت نقصان بھی۔ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’’تاحیات قائد‘‘ بن کر اُن کے احکامات پر عمل کرنا اُن کی جماعت کے کئی افراد کے لیے توہینِ عدالت کا باعث بھی بن سکتا ہے!! اپنی طرف سے ’’پہلے حملہ کرنے‘‘ اور قیادت کو اپنی گرفت میں رکھنے کا اقدام محترمہ بینظیر بھٹو بھی کر چکی ہیں۔

اُنہوں نے جب یہ بھانپ لیا تھا کہ اُن کی والدہ صاحبہ شائد پیپلز پارٹی کی قیادت اور باگ ڈور اپنے بیٹے کو سونپنے والی ہیں تو اُنہوںنے Pre emptاقدام کا  مظاہرہ کرتے ہُوئے پیپلز پارٹی کی قیادت سے اپنی والدہ کو فارغ کرکے خود کو ’’تاحیات چیئرپرسن‘‘ بنوا لیا تھا۔ اب نوازشریف نے عدالت کے رُوبرو پے در پے دو شکستیں کھانے کے بعد خود کو تاحیات قائد بنوا لیا ہے تو اسے ہمارے ہاں دوسری بار کا غیر جمہوری واقعہ کہا جارہا ہے۔ اور اِس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔

یہ تو کہا جارہا تھا کہ نواز شریف صاحب کو عدالت سے ہارنے کے بعد ازخود قیادت سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے، اِسی میں اُن کے لیے بہتری ہے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ اگر اُن کی جگہ برادرِ خورد شہباز شریف فروکش ہو جائیں تب بھی کوئی مذائقہ نہیں ہے لیکن جو تازہ منظر ظہور پذیر ہُوا ہے، اس نے عوامی توقعات کا محل مسمار کر دیا ہے۔

شہباز شریف کی موجودگی میں عدلیہ عظمیٰ کے خلاف جس طرح تالیاں بجائی گئی ہیں، یہ قطعی غیر متوقع تھا ۔ شہباز شریف خود تو قائم مقام صدر بن گئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اُن کی موجودگی میں وہی فضا پنپنا شروع ہو جائے جو نواز شریف کے اشارے اور شہ پر عدلیہ کے خلاف سامنے آرہی تھی اور جس کی بنیاد پر ایک ماہ کے لیے نون لیگی رہنما نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت میں سزا بھی کاٹنا پڑی ہے اور اسی کی بنیاد پر طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔

عدالت کے سامنے نون لیگیوں کی سرکشی اور بغاوت کسی بڑی تباہی کا موجب بن سکتی ہے۔نواز شریف کے تتبع میں لگتا یہ ہے کہ دیگر نون لیگی ’’قائدین‘‘ بھی ڈھٹائی کی حد تک عدلیہ کے مقابل سرکش اور ضدی جَٹ بننے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔اِس حوالے سے تازہ مظاہرہ نہال ہاشمی نے کیا ہے۔یکم مارچ کے اخبارات نون لیگ کے سابق اور سزا یافتہ سینیٹر نہال ہاشمی کی سرکشی اور باغیانہ بیانات سے بھرے پڑے ہیں۔

موصوف نے28فروری کو ایک ماہ کی توہینِ عدالت کی سزا کاٹنے کے بعد رہا ہوتے ہی ایک بار پھر عدلیہ عظمیٰ کے خلاف پھر وہی زبان استعمال کی ہے جس کی بنیاد پر اُنہیں معززعدالت نے جیل بھیجا تھا۔نہال ہاشمی نے رہا ہوتے ہی ایک ہی دن میں دو پریس کانفرنسیں کیں۔راولپنڈی میں نون لیگی سینیٹر چوہدری تنویر خان کے گھر میں نہال ہاشمی نے اپنی دوسری پریس کانفرنس میں عدلیہ اور عزت مآب ججوں کے بارے میں جو لہجہ استعمال کیا ہے، اِس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ یہ کھلی بغاوت ہے۔ اُن کے لہجے میں عدلیہ کے خلاف للکار بھی تھی اور توہین بھی۔

نہال ہاشمی نے ’’نیب‘‘ کے ذمے داران کے خلاف بھی قابلِ گرفت اسلوب اپنایا ہے۔اُنہیں یہ شہ غالباً اُس منظر سے ملی ہے جو منظر پنجاب میں ’’نیب‘‘ کے خلاف منصہ شہود پر آرہا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی ابھی سایوں کے حصار میں ہیں۔ قائم مقام صدر بن کر وہ نہ تو کئی سنگین الزامات سے آزاد ہو گئے ہیں نہ ہی ماڈل ٹاؤن کے نصف درجن سے زائد انسانوں کے قتل کی تہمتوں سے اُن کی گلو خلاصی ہُوئی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس(ر) ملک قیوم کے ساتھ مبینہ طور پر اُن کی ٹیلی فونک گفتگو بھی بازگشت بن کر فضا میں سنائی دے رہی ہے۔ اُن کے مبینہ اشارے پر پنجاب کی بیوروکریسی نے بغاوت کا علَم جس طرح بلند کیا ہے، اِسے بھی عمومی طور پر سخت ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔

عوام یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شہباز شریف اپنے ایک چہیتے اور مبینہ کرپٹ بیورو کریٹ احد چیمہ کو قانون اور ’’نیب‘‘ کی گرفت سے بچانے کے لیے اِس حَد تک بھی چلے جائیں گے!! لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی(ایل ڈی اے)کے سابق ڈی جی کی مبینہ بدعنوانی کی داستانیں چاروں اطراف گردش میں ہیں لیکن اُسے بچانے کے لیے چند بیوروکریٹوں نے پنجاب سیکریٹریٹ میں جس طرح تالہ بندیاں کرنے اور اُدھم مچانے کا انتہائی مہلک اور غیر قانونی اقدام کیا ہے، اسے عوام نے نفرت کی نظروں سے دیکھا ہے۔

عوام حیرت اور سناٹے میں ہیں کہ ا ُن کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والے یہ بیوروکریٹس صرف ایک خاندان اور ایک کرپٹ ساتھی بیوروکریٹ کی محبت میں سرکش اور باغی کیسے ہو گئے؟ اُن کی یہ جرأت ؟مزید حیرانی کی بات ہے کہ جب ’’نیب‘‘ نے بلوچستان کے ایک کرپٹ صوبائی سیکریٹری خزانہ(مشتاق احمد رئیسانی) کو کروڑوں روپے (730ملین) گھر میں ہی رکھنے کے جرم میں رنگے ہاتھوں پکڑا تو بلوچستان کی صوبائی بیوروکریسی نے تو ’’نیب‘‘ حکام کے خلاف یوں بغاوت اور سرکشی کا جھنڈا بلند کرنے کی جرأت نہیں دکھائی تھی مگر پنجاب میں یہ سرکشی کرنے والوں کو ابھی تک سزا بھی نہیں دی گئی اور نہ ہی اِنہیں شٹ اَپ کال دی گئی ہے۔

کیا اس کا یہ مطلب و معنی اخذ کیا جائے کہ پنجاب کی بیوروکریسی دوسرے وفاقی یونٹوں کی نسبت زیادہ طاقتور، باختیار اور خود مختار ہے؟زیادہ خود سر ہے؟پنجاب کی سرکش بیوروکریسی کے حق میں پنجاب اسمبلی کے نون لیگیوں نے قرار داد منظور کرکے ساری حدیں بھی پار کر ڈالی ہیں اور سول سرونٹس کو مزید ضد اور ہٹ دھرمی پر بھی ابھارا ہے۔ یہ قرار داد صوبائی وزیر قانون نے اس وقت پیش کی جب اپوزیشن وہاں موجود ہی نہیں تھی۔

گویا داؤ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ داؤ لگنے والا نہیں کہ اپوزیشن نے نہ صرف اس کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے بلکہ نواز شریف اور شہباز شریف کی پارٹی نے اپنے اور گرفتار سابق ڈی جی ایل ڈی اے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ’’نیب‘‘ قوانین تبدیل کرنے کے لیے جو تجاویز پیش کیں، وہ بھی سرے سے اپوزیشن کی قیادت کی طرف سے مسترد کر دی گئیں۔

ایک مبینہ کرپٹ بیوروکرپٹ کی جان چھڑانے کے لیے پنجاب کی مقتدر پارٹی اس حد تک بھی جا سکتی ہے، یہ تو کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا اور سُنا تھا۔ بھارت جسے ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کا دعویٰ ہے، وہ بھی کسی کرپٹ اور ملزم بیوروکریٹ کی رہائی کے لیے اس حد تک نہیں جا سکتا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ بھارت میں بھی آجکل وزیر اعظم مودی اور دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال کے درمیان ایک سینئر بیوروکریٹ(چیف سیکریٹری انشو پرکاش) ہی کی وجہ سے سخت تنازع پایا جارہا ہے۔

مودی، انشو پرکاش کی طرف ہیں جب کہ کیجریوال، انشو کے مخالف لیکن دونوں متحارب اور مقتدر سیاستدانوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ جرأت نہیں ہو رہی ہے کہ وہ اپنے محبوب و مرغوب بیوروکریٹ کی جان چھڑانے کے لیے اسمبلی سے اُس کے حق میں قرارداد منظور کروالیں اور اُن سرکاری قوتوں کے خلاف بیان میں ایک لفظ بھی ادا کریں جنھوں نے چیف سیکریٹری انشو پرکاش پر سختی سے ہاتھ ڈالا ہے۔ تو پھر ہماری پنجاب اسمبلی نے ’’نیب‘‘ کے خلاف قرارداد منظور کروانے کا درس کہاں سے سیکھا ہے؟ اُنہیں یہ جرأت کیونکر ہو سکی ہے؟کیا یہ سب کچھ ایک خاندان اور ایک شخص کو بچانے کے لیے نہیںکیا جارہا ہے؟

ایسے میں فطری طور پر پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے سپریم کورٹ اور ’’نیب‘‘ کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہونے کا اعلان سامنے آیا ہے۔صرف پی ٹی آئی ہی نہیں، وطنِ عزیز کا ہر وہ شخص اور ادارہ جو قانون، آئین اور عدالت کا احترام کرتا ہے اور اِنہیں سربلند دیکھنے کا متمنی ہے،وہ کرپٹ افراد کے خلاف ’’نیب‘‘ کے تازہ اقدامات اور عدالتِ عظمیٰ کے عزت مآب ججوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا نظر آرہا ہے۔ مگر مقتدر پارٹی کی امامت میں جو اندازِ سیاست اپنایا جارہا ہے، صاف دِکھتا ہے کہ پنجاب اور مرکز کے حکمران ملک میں تصادم کی فضا ہموار کررہے ہیں۔

بھارت اور امریکا سمیت پہلے ہی عالمی قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کررہی ہیں، ایسے میں نون لیگ اور نون لیگی قائدین کے متذکرہ اقدامات کسی بھی طرح ملکی سلامتی سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اور تجاہلِ عارفانہ یہ بھی ہے کہ مارچ کا مہینہ طلوع ہوتے ہی مرکزی حکومت نے حسبِ معمول تیل کی تمام مصنوعات کی قیمتوںمیں ایک بار پھر ہوشربا اضافہ کرکے غریب عوام پر مہنگائی کا بم گرایا ہے تو نواز شریف نے ارشاد فرمایا:’’اگر مَیں ہوتا تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا۔‘‘ یہ بیان نہیں ہے، عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ مرکز میں تیل کی قیمتیں بڑھانے والی حکومت اور پارٹی جناب نواز شریف کی ہے اور وہاں وہ صاحب وزیر اعظم براجمان ہیں جو نواز شریف کو دل کی گہرائیوں سے وزیر اعظم سمجھتے ہیں۔ ایسے میں نواز شریف کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ ’’اگر مَیں (وزیر اعظم ) ہوتا تو پٹرول کی قیمتوں میں یہ اضافہ نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘نواز شریف اور اُن کے حواری عوام کو احمق بنانے اور احمق خیال کرنے سے باز آجائیں۔اس نصیحت یا انتباہ پر وہ جتنا جَلد عمل کرلیں، اُتنا ہی اُن کے لیے بہتر ہوگا!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔