شام کی سنگین صورتحال، ذمہ دار کون؟

عنایت کابلگرامی  منگل 6 مارچ 2018
شام کے علاقے غوطہ پر بمباری سے اب تک معصوم بچوں سمیت سینکڑوں لوگ مارے جاچکے۔
تصویر:انٹرنیٹ

شام کے علاقے غوطہ پر بمباری سے اب تک معصوم بچوں سمیت سینکڑوں لوگ مارے جاچکے۔ تصویر:انٹرنیٹ

مارچ 2011 کے ایک روز ملک شام کے مشرقی شہر ڈیرہ میں صدر بشارالاسد کی پالیسیوں اور ابازید نامی نوجوان پر سرکاری اہلکاروں کے تشدد کے خلاف ایک پرامن احتجاجی مارچ ہو رہا تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین شریک تھے کہ اچانک مارچ روکنے کےلیے قابض صدر کی خصوصی فورس نے فائرنگ شروع کردی۔ اس اندھادھند فائرنگ سے کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اس کے بعد سے شام میں ایک ایسی خانہ جنگی شروع ہوگئی جس میں آج تک تین لاکھ سے زائد شامی مرد و خواتین اور بچے جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں اکثریت بے گناہ مسلمانوں کی ہے؛ جبکہ زخمی ہونے والے دس لاکھ افراد ان کے علاوہ ہیں۔ ایک کروڑ بیس لاکھ افراد اس تنازع کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔

اس جنگ کے اثرات دیگر ہمسایہ ممالک لبنان، ترکی اور اردن میں بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں جہاں بڑی تعداد میں شامی مہاجرین نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ کئی افراد یورپ جانے کی کوشش میں سمندر کی لہروں کی نذر ہوچکے ہیں۔ اس خانہ جنگی نے ایک ایسے انسانی المیے کو جنم دیا ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق شام میں اس وقت موجود تقریباً 70 فیصد افراد کے پاس پینے کے پانی تک کی سہولت موجود نہیں۔ ہر تین میں سے ایک فرد اپنی بنیادی غذائی ضرور ت پوری کرنے سے قاصر ہے اور ہر دوسرا شامی اس وقت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دوسری طرف قابل علاج بیماریوں کا علاج بروقت نہ ہونے کی وجہ سے بھی اموات میں تیزی آرہی ہے، جن میں بڑی تعداد شیرخوار بچوں کی ہے۔ اس انسانی المیے سے نمٹنے کےلیے نام نہاد عالمی برادری کے پاس ’’وسائل‘‘ تک موجود نہیں لیکن اسی عالمی برادری کے پاس شا م کی تباہی اور جنگ و جدل کےلیے وسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔

2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی ایک عجیب و غریب تحریک ’’بہارِ عرب‘‘ (عرب اسپرنگ) نے جلد ہی پورے مشرقی وسطیٰ کو اپنے لپیٹ لے لیا تھا۔ اب تک مصر، لیبیا اور شام سمیت کئی اور ممالک بھی اس کے سحر میں آچکے ہیں لیکن ان ممالک میں جلد ہی امن قائم ہو گیا اور ان کی ڈکٹیٹرشپ کو گھر جانا پڑا یا مار دیا گیا۔ لیکن شام میں صورت حال مختلف رہی جس کی وجہ شام کا پڑوسی ملک عراق بھی ہے۔

2003 میں عراق پر امریکی یلغار سے پورے خطے میں ایک عجیب تبدیلی رونما ہوئی۔ مسلمان ممالک ایک دوسرے کے خلاف سراپا احتجاج بھی بنے اور اس سے بڑھ کر وہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی کرنے لگے۔ ایران سعودی عرب پر الزام تراشی کررہا ہے تو سعودی عرب قطر پر۔ ہر ملک دوسرے ملک کو اپنے اندرونی اُمور میں مداخلت پر کوستا رہا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے اور ان ممالک کی باہمی چپقلشوں ہی سے شام کی صورت حال ابتر ہوئی اور وہاں قتل عام کی ایک ایسی تاریخ لکھی گئی جس کی مثال انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس پر اقوام متحدہ نے اپنی مذمتی قرارداد میں لکھا کہ ہمارے پاس وہ الفاظ ہی نہیں کہ ہم شام کے مختلف شہروں میں ہونے والے قتل عام کی مذمت کرسکیں یا شاید وہ الفاظ بنے ہی نہیں جو ان مظالم کی داد رسی کرسکیں۔

گزشتہ کچھ دنوں سے شام کے مشرقی صوبے غوطہ پر روسی اور شامی جیٹ طیاروں کی شدید بمباری جاری ہے۔ مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ منگل کے روز تک چھ سو سے زائد بے گناہ مسلمان شہید ہوئے جن میں خواتین کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ ان بچوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد بتائی جارہی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہ غوطہ شہر پر پہلا حملہ نہیں، اس سے قبل بھی شامی طیاروں نے غوطہ کو نشانہ بنایا تھا مگر روسی طیارے پہلی مرتبہ استعمال ہوئے۔

روس جو افغانستان میں شکست کے بعد ٹھنڈا پڑ گیا تھا، 2015 سے دوبارہ کھل کر جنگی میدانوں میں اُترا؛ یا یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ روس کو جنگ کے میدان میں گیم پلان کے تحت اُتارا گیا۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد عراق میں امریکی جارحیت کے خلاف مختلف نظریات کے لوگ آزادی کےلیے الگ الگ لڑنے لگے۔ کوئی صدام حسین کا حامی تھا تو کوئی بغدادی کا، ہر شخص الگ تھلگ لڑ رہا تھا۔ اس دوران جولائی 2011ء میں شام کے اندر بھی ایک مزاحمتی تحرک نے جنم لیا، جسے ابتدائی طور پر آزاد شام فورس (FSA) کا نام دیا گیا۔ شام میں شروع ہونے والی انقلابی تحریک میں ابتدائی طور پر کسی قسم کا تشدد نہیں تھا۔

خطّے میں جاری عرب انقلاب نے شام کے عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی انقلاب کا آغاز نوجوانوں نے کیا۔ سچے انقلابی جذبات اور اپنے حالات زندگی کو بدلنے کےلیے ان نوجوانوں نے جس جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا وہ ناقابل فراموش تھا۔ یہ تحریک زیادہ تر نوجوانوں اور مڈل کلاس تک ہی محدود رہی اور انہوں نے اس تحریک کو تشدد سے پاک رکھا، مگر دوسری طرف آزاد شامی فوج کے بنتے ہی تشدد اور قتل و غارت کا وہ بازار گرم ہوا جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بنے۔

اسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مغربی طاقتوں نے ان عرب ملکوں کو استعمال کرنا شروع کردیا جو اس انقلاب سے بچنے کےلیے ان مغربی طاقتوں سے مدد مانگ رہے تھے۔ ان میں سعودی عرب سرفہرست تھا۔ ان ہی کی محنت اور فنڈنگ سے شام اور عراق کی تمام وہ تنظیمیں جو امریکی اور اسدی فوج کے خلاف برسرپیکار تھیں، ایک پلیٹ فارم پراکٹھی ہوئیں۔ ان میں وہ تنظیمیں بھی شامل ہوئیں جو اپنے تئیں خالص اللہ کی رضا کےلیے امریکا کے خلاف برسرپکار تھیں۔ ان کا ایک مجموعہ بنایا گیا جس کا نام داعش (ISIS) رکھا گیا۔ داعش نے بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اور عراق کے ساتھ ساتھ شام میں بھی بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ کامیابیوں کے ساتھ داعش کا مورال بھی بلند ہوتا گیا اور انہوں نے شام و عراق کے باہر بھی کارروائیاں شروع کردیں۔ کچھ مغربی ممالک بھی ان کے نشانے پر آئے، جب کہ سعودی عرب سے نظریاتی اختلاف پر انہیں اور امریکا کو بھی دھمکی دے ڈالی، ایران کو بھی نشانے پر لے آئیں۔

ایران جو ابتدا سے ہی فرقے کی بنیاد پر بشارالاسد کی حمایت میں کھڑا تھا، اس کے ساتھ ایران کا ایک اور مفاد بھی وابستہ تھا۔ وہ یہ کہ عراق سے شام، شام سے یورپ تک ایک خشکی والا تجارتی راستہ انہیں ملے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کوشش میں بھی بشارالااسد کا حمایتی بنا ہوا ہے۔ داعش کے بدلتے تیور سے پریشان امریکا اور سعودی عرب نہ تو شام میں بشارالاسد کی حمایت کرسکتے تھے اور نہ ہی داعش کی مزید پرورش۔ انہوں نے ایک ایسا ماحول بنادیا کہ ایران اور بشارالاسد نے روس سے مدد مانگ لی، جس پر نہ تو امریکا نے احتجاج کیا اور نہ ہی سعودی عرب نے کچھ کہا۔ کیونکہ انہیں بشارالاسد سے زیادہ خطرہ اپنے لیے داعش سے تھا۔

شام کی سنگین صوت حال اور وہاں ہونے والے قتل عام کا ذمہ دار کون ہے؟

بشارالاسد: جو اپنے اقتدار کو بچانے کےلیے کسی بھی قسم کے ظلم سے گریز نہیں کررہا۔ ظلم و بربریت میں بشارالاسد نے ہلاکوخان اور ہٹلر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

داعش: جو بظاہر بنی تو اپنے ممالک کے تحفظ کےلیے تھی مگر استعمال دوسروں کےلیے ہورہی ہے۔

ایران: جو فرقہ واریت کے فروغ اور خشک راستے کی خواہش میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کے قتل میں شامل ہوا۔

سعودی عرب: جو جمہوری انقلاب کے ڈر سے امریکا کی حمایت میں شام کے اندر مداخلت کا مرتکب ہوا۔

امریکا: جو مسلمان ملکوں کو اپنے قبضے میں کرنے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کےلیے ہر وہ اقدام کرنے سے گریز نہیں کررہا جس سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہو۔

روس: جو دوستی کے ڈھونگ کی خاطر اور مسلمانوں سے افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کےلیے اس قتل عام کا حصہ بنا ہوا ہے…

… اور سب سے بڑھ کر سارا عالم اسلام خود ہی اس قتل عام کا ذمہ دار ہے۔

نبی اکرم ﷺ کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ امت مسلمہ آپس میں ایک جسم کی مانند ہے۔ جیسے کہ جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہو تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے، اسی طرح اگر مغرب میں کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو مشرق کے مسلمان کو اس کے درد کا احساس ہونا چاہیے۔

جب تک مسلمانوں کے حکمران دیگر ممالک میں آباد مسلمانوں کے درد و تکلیف میں پہنچا کرتے تھے، تب تک انہیں کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر جب سے مسلمان ملکوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چھوڑ دیا اور ہر معاملے کو اندرونی معاملہ قرار دیا، تب ہی سے مسلمان زوال پذیر ہورہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے (آمین)۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔