اب جلسہ کب ہوگا

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 7 مارچ 2018

ہماری حکومت اور حکومتی کردار مکمل اس خوش فہمی کی گرفت میں ہیں کہ ان کے بیانے بہت مشہور اور مقبول ہو ر ہے ہیں۔ دنیا میں ہر بیماری کا علاج ممکن ہے سوائے خو ش فہمی کے ،کیونکہ خو ش فہمی کے مرض میں گرفتار اشخاص کا تعلق اس دنیا کی سچائیوں، حقیقتوں سے دور دور تک کا واسطہ نہیں رہتا ہے کیونکہ ان کی اپنی سچائیاں ہوتی ہیں اپنی حقیقتیں ہوتی ہیں اپنے خیال وگمان ہوتے ہیں۔

وہ ایک ایسی الگ دنیا میں رہ رہتے ہوتے ہیں جس کو انھوں نے خود تخلیق کیا ہو تا ہے۔ یاد رہے خوش فہمی اور غلط فہمی کے فرق کو پہنچانا عام شخص کا کام نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی چیز ہے آپ چاہیں اس کو خوش فہمی کہہ لیجیے یا آپ چاہیں اس کو غلط فہمی کہہ لیجیے،اصل میں بات ایک ہی ہے۔

اس مرض میں مبتلا لوگ آہستہ آہستہ مکمل تنہا ہوتے جاتے ہیں اور سا تھ ہی ساتھ ان کی خواہش اورکوشش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھی اور ساتھ رہنے والے بھی مکمل تنہائی کا شکار ہوجائیں ۔ و ہ سو چ کچھ اور رہے ہوتے ہیں جب کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ان کا عمل کچھ اور ہوتا ہے جب کہ نتیجہ کچھ اور نکل رہا ہوتا ہے چاہے وہ معاملہ گزشتہ دنوں پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس سے حاصل ہونے والے نتیجے کاہو یا پھر ان کے ہونے والے ملکی جلسوں کا ہو۔

وہ سوچ کچھ اور رہے ہیں نتیجہ کچھ اور نکل رہا ہے۔اصل میں انھوں نے اپنے ارد گرد جھوٹ ، فریب، دھوکے کے اس قدر وحشت ناک پہرے بٹھا دیے ہیں کہ سچائی اور حقیقت ان کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتی ہے۔ ان کے قریب دو چار ایسے لوگ تھے جنہیں سچ بولنے کی بیماری ہے لیکن ان کو بھی انھوں نے اپنے پاس سے دوڑا دیا ہے۔ اب صرف وہ ہیں اور ان کے چند ساتھی ہیں اور ان کے چاروں طرف ان کے مشہور و مقبول بیانے ہیں اور چاروں طرف واہ واہ کا شور برپا ہے اور خوش فہمی انھیں دیکھ کر زور زور سے قہقہے لگا رہی ہے۔

آئیں! ان کے مشہور ومقبول کھڑکی اور دروازہ توڑ جلسوں میں ہونے والے ان کے بیانوں کا کچھ حال احوال کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک ملک میں بے بسوں اور بے کسوں کی تعداد 80 فیصد کے لگ بھگ تھی جو اب ماشاء اللہ ، الحمد اللہ بڑھ کر 98 فیصد تک کے لگ بھگ جا پہنچی ہے یعنی دو فیصد لوگ ایک طرف ہیں اور 98 فیصد لوگ دوسری طرف ہیں۔

آسان لفظوں میں دو فیصد جلسوں میں اسٹیج پر بڑی بڑی عالیشان کر سیوں اور صوفوں پر قیمتی سو ٹوں میں ملبوس خوش کن خوشبوؤں میں ڈوبے براجمان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے سامنے دریوں یا کبھی کبھار ٹوٹی پھوٹی گندی کرسیوں پر 98 فیصد بے کس، بے بس، فقیر وحقیر، پھٹے کپڑوں سے اپنے تن چھپاتے ہوئے ٹوٹی چپلوں کے ذریعے پتھروں اور مٹی سے اپنے پاؤں بچاتے ہوئے لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ جن کے پیٹ بھی خالی ہوتے ہیں اور جیبیں بھی خالی ہوتی ہیں صرف دماغ تفکرات، الجھن اور بری بری سو چوں سے بھر ئے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں صرف ایک بات یاد ہوتی ہے اور انھیں صرف اس سے دلچسپی ہوتی ہے کہ جلسے کے اختتام پر ٹھیکیدار تمام فقراء میں 500 روپے فی کس تقسیم کرے گا جس کے وعدے پر انھیں یہاں لا کر بٹھا یا گیا ہے اور جن کے ذمے یہ ڈیوٹی لگائی گئی ہے انھیں بیانے کی ہر ہر بات پرزور زور سے تالیاں بجانی ہیں اور ان کی طرف سے کیے جانے والے سوالوں کا جواب زور زور سے دینا ہے جن کے جوابات انھیں پہلے ہی بتادیے جاتے ہیں۔

وہ سب کے سب بسوں، ٹرکوں، ٹریکٹروں، ٹرالیوں میں بھر بھر کے لاتے جاتے ہیں اور بہت سے تو پیدل ہی ہانکے جاتے ہیں۔پیلی آنکھوں، زرد ہونٹ، مٹی اور دھول میں اٹے چہرے اور بال اور پاؤں، ہاتھوں میں تھامے جھنڈے جو دور ہی سے پہنچانے جاتے ہیں کہ بے کسوں، بے بسوں کے لٹے پٹے قافلے جلسہ گاہ میں آن پہنچے ہیں،کرسیوں اور دریوں کی طرف دوڑ لگاتے یہ بھکاری، گرتے پڑتے یہ زندہ مردے کچھ دیر میں جلسہ گاہ بھر دیتے ہیں اور جب وہ نظریں اٹھا کر سامنے اسٹیج پر بیٹھے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو انھیں یقین ہی نہیں آتا ہے کہ وہ بھی ان ہی جیسے انسان ہیں۔

انھیں لگتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جوکسی دوسری دنیا سے آئے ہوئے ہیں یہ کوئی اور مخلوق ہیں جو بظاہر ان ہی جیسے دکھائی دیتے ہیں پھر تھوڑی دیر بعد ایک ایسا شخص تقریر کرنے آتا ہے جو بادشاہ دکھائی دیتا ہے جس کے آنے پر اسٹیج پر موجود ہر شخص کھڑا ہوجاتا ہے اور پھر وہ شخص زور زور سے نجانے کسے برابھلا کہنا شروع ہوجاتا ہے اس وقت اس کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوجاتا ہے۔ پھر تھوڑی دیر بعدوہ ہی شخص سوالات پوچھنا شروع کر دیتا ہے جن کے جوابا ت انھیں رٹائے گئے تھے وہ سوالات پوچھتا جاتا ہے اور وہ جوابات دیتے جاتے ہیں اور پھر جلسہ ختم ہوجاتاہے اور واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ٹھیکیدار ایک ایک گاڑی میں چڑھ کر پانچ سو کا نوٹ ایک ایک دینے لگ جاتا ہے اور نوٹ ملنے کے بعد ان کے چہرے خوشی سے دمکنے لگ جاتے ہیں کیونکہ آج ان کے گھر کا چولہا دوبارہ جل جائے گا آج وہ اور اس کے پیارے پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے اور سکون سے آج کی رات سوئیں گے ۔

جب وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس پھینکے جارہے ہوتے ہیں تو وہ سب کے سب ٹھیکیدار سے ایک ہی سوال باربار پوچھتے رہتے ہیں کہ اب جلسہ کب ہوگا ،کب ہمارا چولہا دوبارہ جلے گا کب میں اور میرے گھر والے پیٹ بھر کے کھانا کھائیں گے ۔ انجلس نے کہا تھا ’’ محل میں رہنے والا اور جھونپڑے میں رہنے والا مختلف طریقوں سے سو چتے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔