غداری کیس دو راہے پر

سردار قریشی  بدھ 7 مارچ 2018

کل 8 مارچ سے سابق فوجی آمر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت 9 ماہ کے وقفے کے بعد خصوصی عدالت میں دوبارہ شروع ہو گی۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔ بینچ کے دیگر ممبران میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یاور علی اور بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر شامل ہیں۔ یہ کیس 2007ء میں ملک میں ماورا آئین ہنگامی حالت کے نفاذ سے متعلق ہے جس میں نامور قانون دان اکرم شیخ بطور پراسیکیوٹر پیش ہورہے ہیں۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے 26 فروری 2016ء کے حکم کے پیش نظر خصوصی عدالت کی جانب سے غداری کا یہ کیس تیزی سے نمٹائے جانے کی توقع ہے۔ قانونی ماہرین 2013ء سے زیر التوا اس کیس کو اعلیٰ عدلیہ کی بڑی آزمائش قرار دے رہے ہیں۔ حکمراں پارٹی کے قائدین بھی عدالتوں کی جانب سے اس کیس کو اہمیت نہ دیے جانے پر صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آتے تھے اور یہ دلیل دیتے تھے کہ غداری بہرحال کرپشن سمیت دیگر جرائم سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ توقعات اس وقت اور بھی بڑھ گئیں جب سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کو امریکا سے واپس لانے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ دریں اثناء خصوصی عدالت نے اسلام آباد کے چیف کمشنر، انسپیکٹر جنرل اور ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس کو جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے لیے فول پروف حفاظتی انتظامات کرنے کے احکامات پر مبنی نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے۔

سابق فوجی آمر پر مارچ 2014ء میں فرد جرم عائد کی گئی تھی جب انھوں نے 3 رکنی خصوصی بینچ کے روبرو پیش ہوکر خود پر لگائے جانے والے تمام الزامات مسترد کردیے تھے۔ مشرف کو پڑھ کر سنائے گئے الزا مات وہی تھے جو 2013ء میں خصوصی بینچ کی تشکیل کے وقت حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے تھے یعنی 3 نومبر 2007ء کو ہنگامی حالت نافذ کرکے آئین کو توڑنا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر سے نام ہٹائے جانے کے فوراً بعد سابق صدر 18 مارچ 2016ء کو بغرض علاج دبئی پروازکرگئے۔

11 مئی 2016ء کو پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کی سربراہی میں 3 ججوں پر مشتمل بینچ نے سابق صدر مشرف کو اشتہاری مجرم (پی او) قرار دے دیا۔ خصوصی عدالت نے وزارت داخلہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ان کی جائیداد ضبط کرنے سے متعلق عدالتی فیصلہ مشتہرکرنے کی بھی ہدایت کی۔ ایک سال بعد، خصوصی عدالت نے مشرف کے وکیل کو یہ کہہ کر دلائل دینے سے روک دیا کہ وہ کسی اشتہاری مجرم کے وکیل کو نہیں سن سکتے ۔ مئی 2017ء میں، مشرف نے ایک درخواست کے ذریعے، فوج کی حفاظت میں سنگین غداری کیس کا سامنا کرنے پر آمادگی ظاہر کی بشرطیکہ عدالت انھیں بحفاظت دبئی واپسی کی یقین دہانی کرائے۔ گزشتہ برس اپریل میں، وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت سے درخواست کی کہ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزام میں، مقدمہ چلانے کی کارروائی شروع کی جائے جو 3 نومبر 2007ء کو آئین توڑنے پر ان کے خلاف قائم کیا گیا تھا۔

مقدمے کے لیے استغاثہ کی تحریری استدعا میں کہا گیا کہ فوجداری قانون کے ترمیمی (خصوصی عدالت) ایکٹ، 1976ء کی دفعہ 9 کے تحت اس معززعدالت (خصوصی عدالت) کو کسی بھی وجہ سے کوئی التوا دیے بغیر کیس چلانا ہے تا آنکہ اس کی رائے میں انصاف کی خاطر التوا دینا ضروری ہو۔ خصوصی عدالت نے استغاثہ کی ٹیم کو مقدمہ کی تکمیل کے لیے یہ تحریری استدعا پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔ استغاثہ کے وکیل اکر م شیخ نے اپنی تحریری معروضات میں کہا کہ خصوصی عدالت ملک کے بنیادی اور خصوصی دونوں قوانین کا پاس کرتے ہوئے اور سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں مقدمے کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کی بار بارکی جانے والی ملزم کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرتے ہوئے مقدمہ چلانے کی کارروائی شروع کرے۔

انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ریکارڈ اور ملزم کے رویے دونوں باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم بیمار نہیں ہے اور وہ اپنی غیر حاضری کو مقدمے کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ مقدمے کی تاریخ بیان کرتے ہوئے استغاثہ کی ٹیم نے موقف اختیار کیا کہ مشرف اس مقدمہ میں وقت بوقت کسی نہ کسی حیلے بہانے سے التوا مانگتا رہا ہے اور آخر کار اس نے پیش ہونا ہی بند کردیا تاکہ مقدمہ کی کارروائی میں رخنہ ڈال سکے۔ ملزم کی جانب سے گواہوں سے جرح کرنے کی سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھائے جانے کے بعد استغاثہ نے 18 ستمبر 2014ء کو مزید شواہد پیش کرنا بند کردیا۔ قبل ازیں 10 ستمبر 2014ء کو، ملزم نے صفائی پیش کرنے کے بجائے، خصوصی عدالت میں ایک بیان جمع کرایا جس میں اس نے اپنے جرم میں مدد و اعانت کرنے والوں کو بھی شامل کرنے کی اجازت چاہی۔

21 نومبر 2014ء کو خصوصی عدالت نے ان تینوں ملزمان کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا اور اس ضمن میں وفاقی حکومت کو اضافی بیان اور باقاعدہ الزامات پیش کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم سپریم کورٹ نے 26 فروری 2016ء کو خصوصی عدالت کا یہ حکم منسوخ کردیا اور اسے ہدایت کی کہ وہ کسی غیر ضروری تاخیرکے بغیر ملزم پر مقدمہ چلانا شروع کرے۔ 8 مارچ 2016ء کو خصوصی عدالت نے ملزم کو جواب دینے کے لیے ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا تاہم وہ عدالت سے اجا زت لیے بغیر مبینہ طبی وجوہات کی بناء پر بیرون ملک چلا گیا۔

یہی وہ موقع تھا جب عدالت نے اسے اشتہاری مجرم قرار دیتے ہوئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 88 کے تحت اس کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا۔ 5 مارچ 2014ء کو مشرف نے خصوصی عدالت میں سی ایم اے داخل کیا جس میں بیرون ملک سفرکی اجازت دینے کی درخواست کی گئی تھی اور عدالت کو یقین دلایا گیا تھا کہ وہ مقدمے کی پیروی جاری رکھے گا نیز عدالت نے جب بھی حکم دیا وطن واپس آجائے گا۔مقدمہ کی کارروائی کے دوران ہر مرحلے پر حتیٰ کہ 16 جنوری کو داخل کی گئی اعتراض پر مبنی تازہ درخواست میں مشرف مسلسل یہ کہتا رہا کہ جوں ہی اس کا علاج مکمل ہوا وہ مقدمہ کا سامنا کرنے کے لیے وطن لوٹ آئے گا۔ ضابطہ فوجداری کے ترمیمی ایکٹ مجریہ 1976ء کی دفعہ 9 کے تحت یہ معزز عدالت اس بات کی مجاز ہے کہ کسی بھی وجہ سے کوئی التوا دیے بغیر مقدمے کی کارروائی چلانا شروع کرے تا آنکہ اس کی رائے میں انصاف کے مفاد میں التوا دینا ضروری ہو۔

پراسیکیوٹر اکرم شیخ کے مطابق دفعہ 9 کے تحت خصوصی عدالت میں چلنے والاکوئی مقدمہ کسی بھی وجہ سے اس وقت تک ملتوی نہیں کیا جاسکتا جب تک عدالت کی رائے میں ایسا کرنا انصاف کے مفاد میں ضروری ہو، یہاں تک کہ وہ کسی ملزم یا اس کے وکیل کی بیماری یا کسی اور وجہ سے غیر حاضری کو بھی خاطر میں نہیں لائے گی اور کیس ملتوی کیے بغیر کارروائی جاری رکھے گی، ایسی صورت میں عدالت چاہے تو ملزم کے لیے دوسرے وکیل کا تقرر بھی کرسکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق سنگین غداری ایکٹ 1973ء کی شق نمبر 3 اور 5 کے تحت درج کی جانے والی فوجداری شکایت نمبر 1/ 2013ء جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں 17 دسمبر 2013ء کو درج کی گئی تھی۔

چار سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک نہیں معلوم کہ خصوصی عدالت اس مقدمے کا فیصلہ کب سنائے گی۔ دریں اثناء سیاسی حلقوں میں خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات سے قبل قائم ہونے والی نگراں حکومت مشرف کے خلاف چلایا جانے والا سنگین غداری کا مقدمہ واپس لے کر اس کے غبارے میں سے ہوا بھی نکال سکتی ہے۔ ان کے خیال میں مشرف کا ٹرائل اور تین جرنیلوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنا محض ایک فضول کوشش ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والا وقت ان خدشات کو کہاں تک درست یا غلط ثابت کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔