میرؔکیا سادہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب...

احمد عثمان  اتوار 11 مارچ 2018
ہم پاکستانی اپنی سادگی اور سادہ لوحی کے باعث آج تک غیروں کے اشاروں پر اپنے ہی رہنماؤں کو فرش سے عرش اور فرش سے عرش تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم پاکستانی اپنی سادگی اور سادہ لوحی کے باعث آج تک غیروں کے اشاروں پر اپنے ہی رہنماؤں کو فرش سے عرش اور فرش سے عرش تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم پاکستانی بھی عجیب مزاج رکھنے والی قوم ہیں۔ جب ہمارا دل چاہتا ہے، کسی کو بھی آسمان پر پہنچادیتے ہیں؛ اور جب دل کرتا ہے اسے اتنی ہی زور سے زمین پر دے مارتے ہیں۔ یہ جبلت ہم میں کوئی آج ہی پیدا نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد ہی سے ہم اسی انداز کو اپنائے ہوئے ہیں۔

آج ہم ان محرکات پر غور کریں کہ آخر وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہماری قوم اتنی جلدی اپنے حکمرانوں سے اکتا جاتی ہے؟ اس کےلیے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا جب قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی بہن فاطمہ جناح کی قربانیوں کا (جنہوں نے پاکستان بنانے میں اپنے بھائی اور ہندوستان کے مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیا) ہم نے یہ صلہ دیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو پاکستان کا صدر بنادیا۔

ہماری مذہبی جماعتوں نے بھی فاطمہ جناح کی کھل کر مخالفت کی، اسی قوم نے بیرونی طاقتوں کے کھیل میں ایوب خان کو ہیرو بنادیا لیکن وقت کا پہیہ ایک بار پھر الٹا گھومنے لگا۔ وہی ایوب خان جسے اس قوم نے اپنے محسن کی بہن اور مادر وطن فاطمہ جناح کے مقابلے میں ترجیح دی تھی، اسی صدر ایوب خان کو ’’ایوب کتا‘‘ (انتہائی معذرت کے ساتھ) کہہ کر نکال دیا۔

اس بار قرعہ فال ذوالفقار علی بھٹو کے نام نکلا۔ لوگ بھٹو کے نام پر اپنی جان دینے لگے، انہیں اسی سادہ لوح قوم نے محمدعلی جناحؒ کے پائے کا رہنما قرار دے دیا۔ بھٹو کے نام کا ڈنکا پاکستان سے نکل کر پوری دنیا میں بجنے لگا، وہ مسلم دنیا کے ہر دلعزیز رہنما بن کر ابھرے۔

ابھی بھٹو کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک بار پھر بیرونی طاقتوں نے پاکستان کو اپنی سازشوں کا مسکن بنایا۔ وہی قوم جو کبھی بھٹو پر اپنی جان دیتی تھی، جب بھٹو کو پھانسی دی جارہی تھی تو یہی قوم نظریں چرا رہی تھی۔ پھر تاریخ نے وہ دن بھی دیکھا کہ اس سادہ لوح قوم نے بھٹو کو پھانسی دینے والے جنرل ضیاء الحق کو اپنی آنکھوں کا تارا بنالیا اور یہ فرد واحد قوم کی تقدیر کا مالک بن گیا۔

بیرونی طاقتوں نے اپنے کھیل میں پاکستان کو کھل کر استعمال کیا اور پھر جب انہیں لگا کہ اب ایک نئی بساط بچھانی چاہیے تو انہوں قوم کے اس ’’عظیم رہنما‘‘ کو بھی اس قوم سے چھین لیا اور ملک ایک بار پھر جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ ایک بار پھر اس قوم میں بھٹو سے محبت جاگ اٹھی اس بار اقتدار کا ہما بھٹو کی بیٹی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے سر پر بیٹھ گیا۔ اور پھر جب تک بھٹو کی بیٹی بھی قتل نہیں ہوگئی یہ قوم اسے اپنے سر کا تاج بناتی اور اتارتی رہی۔

جب مشرف نے جمہوری حکومت معطل کرکے اقتدر سنبھالا تو اس قوم کو جیسے نجات دہندہ مل گیا۔ ہرطرف بلاتفریق احتساب کے نعرے بلند ہونے لگے۔ یہ قوم جو کبھی نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ سے منتخب کرکے لائی تھی، آج اس کی پھانسی کا مطالبہ کررہی تھی۔ لیکن بیرونی طاقتوں کو اس بار پاکستانی وزیراعظم کی پھانسی مطلوب نہیں تھی لہذا کڑا احتساب، احتساب کا نعرہ لگانے والے مشرف نے نواز شریف کو کلین چٹ دے کر بحفاظت سعودیہ کے حوالے کردیا۔

پھر اس سادہ لوح قوم نے وہ وقت بھی دیکھا جب مشرف دور میں بڑے بڑے لٹیروں اور چوروں کو اپنی سیاسی جماعتوں سے وفاداریاں بدلنے کے عوض وزارتیں بانٹی گئیں۔ یہ سب کجھ بھی احتساب کے نام پر ہوا۔ بیرونی طاقتوں کو اس وقت تک پاکستان کو جتنا استعمال کرنا تھا، کرلیا اور پھر مشرف کے جانے کا وقت آیا؛ اس سے ایک چھوٹی سی غلطی ہوگئی کہ طاقت کے نشے میں چُور مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برخاست کردیا۔

اس پر سپریم کورٹ کے جج نے کہا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور پھر مشرف کو نکلنا پڑا۔ وہی مشرف جسے قوم نجات دہندہ کہتی تھی، وہ ’’مشرف کتا‘‘ (ایک بار پھر انتہائی معذرت کے ساتھ) بن گیا۔

اور پھر جب آصف زرداری، افتخار چوہدری کو بحال نہیں کر رہےتھے تو نواز شریف اس قوم کا رہنما بن کر نکلا اور عدلیہ کی بالادستی کےلیے عوام میں آگیا۔ پاکستانی عوام کو لگتا تھا کہ اگر افتخار چوہدی دوبارہ چیف جسٹس بن گئے تو ان کے سارے غم، پریشانیاں، دکھ، درد، سب ختم ہوجائیں گے۔ وہ پاکستان میں ایسا کڑا احتساب کریں گے کہ سب کو راہ راست پر لے آئیں گے۔

لیکن پھر اس قوم کو احساس ہوا کہ نہیں، یہ تو صرف نواز شریف کو واپس لانے کےلیے آیا ہے تو ایک بار پھر وہی افتخار چوہدری اس عوام کی نظر میں بدعنوان ترین انسان بن گیا۔ اسی عدلیہ کو جس کےلیے یہ قوم ایک ڈکٹیٹر سے لڑ گئی تھی، اسی سادہ لوح قوم نے اسے بدعنوان ترین ادارہ قرار دے دیا۔

اس بار عمران خان میدان میں اتارے گئے۔ انہوں نے براہ راست عدلیہ پر شدید تنقید کی اور پھر وہی نواز شریف جو اس عدلیہ کی بحالی کےلیے باہر نکلے اور عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنے، تیسری بار بھی اپنی مدت پوری کیے بغیر احتساب کے نام پر واپس بھیج دیئے گئے۔

جی ہاں! وہی احتساب جو ہر دور میں محض اپنے اقتدار کو مضبوط اور مخالف کو اقتدار سے باہر کرنے کےلیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی جمہوری رہنما کو غیر جمہوری انداز میں حکومت سے باہر کیا گیا، وہ ہمیشہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آیا۔

جب بھی میں پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ندامت کا احساس ہوتا ہے کہ ہم کیسی قوم ہیں جو بار بار بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بنتی ہے اور ان کے مفادات کی خاطر اپنے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

بھارت کی مثال لے لیجیے، شاید ہم سے زیادہ کرپٹ معاشرہ ہے، ہم سے زیادہ غربت ہوگی، ہم سے زیادہ جرائم ہوں گے لیکن انہوں نے اپنے اداروں کی بالادستی قائم کی۔ وہ کسی بھی بیرونی طاقت کےآالہ کار نہیں بنے، کسی کی جنگ کو خود پر مسلط نہیں کیا، اور اپنے فیصلے خود کیے۔ انہوں نے اپنا جمہوری نظام اتنا مضبوط کیا کہ آج ایک چائے والا ان کا وزیراعظم بن گیا۔

پاکستان میں اس وقت سی پیک منصوبے کا آغاز ہوچکا ہے جسے ماہرین عالمی معیشت کےلیے ایک ’’گیم چینجر‘‘ قرار دے رہے ہیں؛ جس کی وجہ سے معاشی طاقت کا محور تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ بات کچھ عالمی طاقتوں کےلیے خطرہ ہے اور وہ کسی بھی طور پر اس منصوبے کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ پاکستان میں عدم استحکام کی فضا برقرار رکھنا چاہتی ہیں اور پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔

ہمیں ان تمام سازشوں پر نظر رکھ کر اپنے فیصلے کرنا ہوں گے۔ یاد رکھیے کہ جمہوریت کوئی انقلابی عمل نہیں۔ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ نکھار آتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے چلنے دیا جائے، عوام کے فیصلے عوام ہی کو کرنے دیئے جائیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان سے غلطی ہوگی تو انہیں احساس ہوگا۔ ورنہ ہماری سادہ لوح قوم یوں ہی اغیار کے ہاتھوں آلہ کار بنتی رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

احمد عثمان

احمد عثمان

بلاگر نے قائد اعظم یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا ہے اور دبئی کے ایک بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔ سیاست اور معاشرتی مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔