چند سوالات

مقتدا منصور  جمعرات 8 مارچ 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

سینیٹ کی52 نشستوں پر بالآخرانتخابات ہوگئے۔ پارلیمان کا ایوان بالا اگلے تین برس کے لیے مکمل ہوا ۔ اس الیکشن کے انعقاد پرکچھ لوگ شادماں کہ انتخابات کے انعقادکے بارے میںجو شکوک وشبہات پیدا کیے گئے تھے، وہ ختم ہوئے اور جمہوری عمل کا تسلسل نہ رک سکا ۔کچھ لوگ پریشاں کہ ماضی کی طرح اس بار بھی ان انتخابات کے لیے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی بولیاں لگتی رہیں اور ووٹ بکتے رہے۔ عوام کا حق نمایندگی سربازار نیلام ہوتا رہا ، پھرکہیں دیدہ ،کہیں نادیدہ ہاتھوں کے کرشمے بھی سامنے آتے رہے ۔

انتخابات جمہوری عمل کا حصہ ہوتے ہیں، ان کے بغیر جمہوری عمل کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی، مگر پاکستان میں جمہوری سیاست اور انتخابی حرکیات (Dynamics) ایک دوسرے سے متصادم ہوگئے ہیں یا کردیے گئے ہیں، کیونکہ ہمارے یہاں دولت کا بے بہا استعمال، انتظامیہ کے کل پرزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ اور نادیدہ قوتوں کی سرپرستی انتخابات میں کامیابی کا ذریعہ تصور کیے جاتے ہیں ۔ اس لیے عوام میں قبولیت ، اصول و ضوابط اور نظریاتی و فکری وابستگی جیسے تصورات وطن عزیز میں محض خواب و خیال بن کر رہ گئے ہیں ۔

اب ذرا ان مختلف الجہت سوالات کی جانب آئیے، جو متوشش حلقے جمہوری اداروں بالخصوص سینیٹ کے وجود اور اس کے لیے طریقہ انتخابات کے بارے میں اٹھا  رہے ہیں ۔ پہلے توان سوالات کی جانب آتے ہیں، جو حالیہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے اٹھ رہے ہیں ۔ اس کے بعد سینیٹ کے وجود کے منطقی جواز اور ان کے اراکین کی اہلیت کے بارے میں اٹھنے والے سوالات پر گفتگوکرنا چاہیں گے۔

یہاں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے اراکین کو آزاد امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑوانے کے پس پشت کیا سوچ کار فرما تھی ؟کیا یہ عمل الیکشن کمیشن کے انتخابی قوانین کی محدود تفہیم و تشریح کا شاخسانہ ہے؟ یا اس میں مسلم لیگ کی قیادت کی سیاسی کوتاہ بینی کا دخل ہے کہ وہ ان قانونی موشگافیوں کو سمجھنے سے قاصر رہی، جو اس صورتحال کا سبب بنیں؟ گوکہ ان کے نامزد نمایندے بھاری تعداد میں منتخب ہوگئے، لیکن ان کی سیاسی وابستگی کے حوالے سے شکوک و شبہات بہر حال اگلے عام انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل تک برقرار رہیں گے۔ البتہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور نگران سیٹ اپ کے قیام کے بعد ان کا طرز عمل واضح ہوسکتا ہے۔ شاید اسی لیے یہ باریک کھیل کھیلا گیا ہو۔

پھر یہ سوال بھی اٹھ رہا  ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی 30 نشستیں ہیں۔ ان کے امیدوار چوہدری سرور کو 44 ووٹ کیسے ملے؟ پھر خیبر پختونخواہ اسمبلی سے پیپلز پارٹی کے دو سینیٹرز کیسے منتخب ہوگئے، جب کہ وہاں اس کے صرف7 اراکین ہیں ؟ بلوچستان سے آنے والے نتائج تو بہت کچھ سمجھانے کے لیے کافی ہیں؟سینیٹ جیسے ایوان بالا کی رکنیت کے لیے جس انداز میں اراکین صوبائی اسمبلیوں کی خرید وفروخت کی منڈی سجتی ہے، اسے دیکھ کر ملک میں جمہوریت کی بد حالی اور پسماندگی پر سوائے افسوس کرنے کے کوئی چارہ نہیں۔

اب سندھ کا رخ کرتے ہیں، جہاں پیپلز پارٹی 12میں سے دس نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ پیپلز پارٹی پر جہاں بد ترین ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگے ہیں، وہیں اس نے کرشناکماری، رضا ربانی اور مولابخش چانڈیو جیسے مڈل کلاس کارکنوں کو جتوا کر اپنی Centre to Left جماعت ہونے کے تشخص کو برقرار رکھا ہے۔ باقی دو نشستیں مسلم لیگ(ف) اور ایم کیو ایم میں تقسیم ہوئی ہیں۔ ایم کیوایم کچھ ریاستی جبر اورکچھ اندرون خانہ چپقلشوں کے باعث صرف ایک نشست حاصل کرسکی ۔ حالانکہ صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی تعداد کے لحاظ سے اسے 3 سے4 تک نشستیں حاصل کرنا چاہیے تھیں ۔ اس لیے گزشتہ 30برس  سے اربن سندھ کی سیاست پر حاوی ایم کیوایم کی سینیٹ انتخابات میں بد ترین ناکامی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

ایم کیو ایم گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے ریاستی منصوبہ سازوں کی غلط حکمت عملیوں کا شکار چلی آرہی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں جمع رپورٹ میں پانچ جماعتوں کے مسلح ونگزکا ذکر کیا گیا تھا ۔ ان جماعتوں (خاص طور پر ایک مذہبی جماعت) سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک جماعت کو نشانہ بنایا گیا ۔ جس نے روز اول ہی سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ جماعت ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھی یا ہے، تو اس کے شواہد عدلیہ میں پیش کرکے اس کے خلاف مناسب عدالتی کارروائی سے گریز کیوں کیا جاتا رہا ہے ؟ اگر نہیں ہے، تو پھر یہ حب الوطنی کا کون سا انداز ہے کہ ایک جماعت جو ایک مخصوص کمیونٹی کی بڑے پیمانے پر نمایندہ ہے، محض ادارہ جاتی بالادستی قائم کرنے کی خاطر بے دردی کے ساتھ کچل دیا جائے ۔

بارہا یہ لکھا اور کہا گیا کہ جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالنے پر کسی کو اعتراض نہیں، لیکن عوام کے ایک مخصوص طبقے کی نمایندہ جماعت کو جبراً تحلیل کرنے سے ریاست کی رٹ مضبوط نہیں کمزور پڑتی ہے۔ یہ عمل ریاست گریز رجحانات کو پروان چڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح میڈیا ٹرائل کے بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ یہ بھی طے ہے کہ ماضی میں کئی سیاسی شخصیات پر ملک دشمنی کے الزامات عائد کیے گئے، مگر ریاستی ادارے ان الزامات کو ثابت کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ۔

اب ذرا سینیٹ کی حیثیت کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔ دو ایوانی پارلیمان عام طورپر وفاقی ممالک میں قائم کی جاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وفاقی مملکت میں صوبے نہیں بلکہ وفاقی یونٹ ہوتے ہیں، جنھیں عموماً ریاست کہا جاتا ہے ۔ مملکت کے بارے میں ہونے والی فیصلہ سازی میں وفاقی یونٹس یا ریاستوں کا مساوی حصہ ہوتا ہے ، چونکہ قومی اسمبلی میں ہر صوبے کی نمایندگی اس کی آبادی کے حجم کے مطابق ہوتی ہے، اس لیے بڑے صوبے کی جانب سے زیادہ نشستوں کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کے استحصال کا احتمال رہتا ہے۔

لہٰذا سینیٹ پارلیمان کا دوسرا ایوان ہوتا ہے، جس میں تمام یونٹوں کو مساوی نمایندگی حاصل ہوتی ہے۔ا س لیے اسے وفاق میں وفاقی یونٹوں (یا ریاستوں) کا نمایندہ ادارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر یونٹ کی مساوی نمایندگی ہوتی ہے۔ دوسرے اس ادارے میں ان اہل دانش اور ماہرین کو نمایندگی دی جاتی ہے، جو مقبول انتخابی عمل کے ذریعے ایوان میں پہنچنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، مگر ان کی خدمات ملکی امور کو چلانے کے لیے ناگزیر تصور کی جاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عام نشستوں کے ساتھ ٹیکنوکریٹس کی نشستیں بھی ہر صوبے کے لیے مختص ہوتی ہیں۔

مگر ہمارے یہاں سینیٹ کے درج بالا تصورات کو بھی تمسخر بنادیا گیا ہے ۔ پہلی بات یہ کہ اس ایوان میں ہر صوبے سے تعلق رکھنے والے اہل علم و دانش اور ماہرین کو منتخب کرانے کے بجائے سیاسی جماعتیں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے اپنے وفاداروں کو کامیاب کرا کے اس ایوان کے قیام کے بنیادی تصور کا مذاق اڑاتی ہیں ۔ دوسرا بدترین مذاق اس ایوان کے ساتھ یہ کیا جاتا ہے کہ چند ایک اراکین کو چھوڑ کر زیادہ تر دولت مند لوگ اس ایوان میں بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے پہنچ جاتے ہیں ۔ پھر یہ دولت مند امیدواران اراکین صوبائی اسمبلیوں کو خطیر رقم کے عوض خریدتے ہیں، جو ان کے ووٹر ہوتے ہیں ۔ یوں یہ ایوان صوبوں کی نمایندگی اور سنجیدہ اہل دانش کی مجلس بننے کے بجائے امراء کی دولت کے بل پر نمایاں ہونے کی خواہش کا ذریعہ بن چکا ہے۔

حالیہ سینیٹ انتخابات پورے سیاسی و انتظامی نظام کی بد نامی کا باعث بنے ہیں، کیونکہ جس انداز میں عام انتخابات (قومی اور صوبائی) ہوتے ہیں اور جس طرح سینیٹ میں چناؤ کیا جا رہا ہے، وہ عوام کے حق نمایندگی کے ساتھ کھلا مذاق ہے ، لہٰذا اب ضروری ہوگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر بیٹھیں اور انتخابی اصلاحات پر سنجیدگی کے ساتھ غور و خوص کریں تاکہ عام انتخابات کے علاوہ صوبوں کے وفاق میں نمایندہ اس ایوان کی پارلیمان میں حیثیت، اس کے لیے طریقہ انتخاب اور قانون سازی میں کردار کے بارے میں صائب اور قابل قبول فیصلوں پر اتفاق رائے ہوسکے ۔ اس کے بغیر چونکہ عوام کا اعتماد ریاستی اداروں پر بحال نہیں ہوسکتا، اس لیے جمہوریت اور جمہوری اداروں کا استحکام ممکن نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔