شفاف انتخابات نئے جمہوری کلچرکی نوید

ایڈیٹوریل  بدھ 3 اپريل 2013
پچھلے ادوار میں الیکشن کی بہار کچھ اور ہوتی تھی مگر اب کے انتخابی نتائج شاید حیرت زدہ کرنے والے ہوں گے۔  فوٹو: فائل

پچھلے ادوار میں الیکشن کی بہار کچھ اور ہوتی تھی مگر اب کے انتخابی نتائج شاید حیرت زدہ کرنے والے ہوں گے۔ فوٹو: فائل

انتخابی عمل کو شفاف ،آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے امیدواروں کے کردار، ذہنی ، سیاسی اور علمی سطح،خاندانی پس منظر، اثاثوں اور دینی شعائر سے واقفیت کا کھوج لگانے کے لیے تطہیر اور چھان بین شروع کردی گئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات پر ضلعی عدالتوں نے جعلی ڈگری اور دوہری شہریت کے مقدمات میں سابق وفاقی وزیر سمیت4 ارکان اسمبلی کو قید اور جرمانے کی سزائیں سنا دیں۔

3 ملزموں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے جب کہ ایک ملزم پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے ضلعی عدالتوں کے ججوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ الیکشن میں کوئی نااہل کامیاب نہیں ہونا چاہیے،اور یہ بھی قرار دیا کہ غلط بیانی کرنے والا ہمیشہ کے لیے نااہل ہوگا۔ حقیقت میں ملکی سیاسی تاریخ ایک نئے انتخابی دورانئے سے گزر رہی ہے۔

برس ہا برس سے جعل سازی میں مبتلا سیاست دانوں کے لیے تطہیر، احتساب، مواخذہ اور جوابدہی کا حصار خاصا پریشان کن اور اعصاب شکن ثابت ہورہا ہے تاہم اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ جمہوریت کی اخلاقی بنیادوں پر مضبوطی اور سیاسی رہنماؤں کا شفاف کردار ہی ملک کو ایک نئی اور باوقار پارلیمنٹ اور سیاسی نظام سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ مہذب دنیا کے جمہوری نظاموں میں کم از کم جمہور کے نمایندوں کا کردار ان کے قومی کردار کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے، مغربی جمہوریت کا کمال ہی یہ ہے کہ لبرل ازم کی حشر سامانی اور انفرادی آزادی کے ہنگاموں میں بھی وہ اپنے منتخب نمایندوں کو صاف ستھرا منفرد انسان اور اخلاقی برائیوں سے پاک سیاست دان دیکھنا چاہتے ہیں۔

جب کہ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ سیاسی صنم کدے میں کوئی نظام اقدار اور آمریت سے پاک ایسا جمہوری کلچر نہ ابھر سکا جس پر پوری قوم کو فخر ہو اس لیے اب جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے وہ بہتوں کو اس لیے تعجب انگیز، تہلکہ خیز اور انوکھا معلوم ہوتا ہے کہ ہم من حیث القوم سیاسی دشت کا برہنہ پا سفر کرتے رہے۔ عوام کے روز و شب نہیں بدلے بلکہ وہ لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور بے یقینی کی دھوپ میں جلتے رہے۔ ملک مقروض ، سیاست بے لگام ، نوکر شاہی بے نیاز اور ادارے بربادی کی علامت بن گئے۔ اب بلاشبہ وقت نے زبردست کروٹ بدلی ہے جس کا قوم خیر مقدم کرچکی ہے۔ عدلیہ، میڈیا اور الیکشن کمیشن کے طفیل قومی سیاسی دھارا درست سمت میں محو سفر ہے۔ پچھلے ادوار میں الیکشن کی بہار کچھ اور ہوتی تھی مگر اب کے انتخابی نتائج شاید حیرت زدہ کرنے والے ہوں گے۔

اس حوالے سے ارباب اختیار عبوری سیٹ اپ کی نگرانی کرتے ہوئے کاروبار مملکت بھی نئے عزم کے ساتھ انجام دینے میں مصروف ہیں، نگراں چودہ رکنی وفاقی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے۔ صدرآصف علی زرداری نے منگل کوایوان صدرمیں منعقدہ ایک سادہ مگر پروقارتقریب میں وزراء سے حلف لیا ۔کابینہ میں چاروں صوبوں کونمایندگی دی گئی ہے۔ نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے آغاز حقوق بلوچستان پیکیج پر عملدرآمد کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔

چیف سیکریٹری بلوچستان بابر فتح یعقوب نے ترقیاتی منصوبوں، پیکیج کے اہم خدوخال اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے اجلاس کو بریفنگ دی۔ نگران وفاقی وزیرمیجر(ر) ملک محمد حبیب نے کہا ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے دوران امن وامان کو برقرار رکھنا ایک چیلنج ہے،حکومت لاء اینڈآرڈر کو برقرار رکھنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گی۔ملک بھر میں پولیس فورس کو منظم اور متحد کیا جائے گا،قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے ساتھ کوآرڈی نیشن کو فعال بنا کر امن وامان کی فضا کو سازگار بنایا جائے گا۔

سیاسی جماعتوں کے قائدین کو انتخابی مہم کے دوران سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے برق رفتاری میںا سکروٹنی کا کام مکمل کرنے کے دعوے درست ثابت نہ ہونے کے حوالہ سے میڈیا میں جو اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں اس کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اسکروٹنی کے دو روز گزر گئے ابھی تک نادرا کا جدید سسٹم آدھے فارم کی اسکروٹنی کا کام مکمل کر سکا ہے جب کہ اس سسٹم کے نصب ہونے پر الیکشن کمیشن حکام نے میڈیا کو بریفنگ میں کہا تھا کہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد اس سسٹم کے تحت اسکروٹنی کا کام دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں میں مکمل ہوگا۔

تاہم دو روز کی برق رفتاری میں آدھے فارم کی اسکروٹنی ہو سکی ہے اور ابھی یہ بتایا جا رہا ہے کہ بدھ کو الیکشن کمیشن کے پاس مزید کاغذات بھی آ سکتے ہیں اور یہ تعداد پندرہ ہزار تک ہو سکتی ہے جب کہ الیکشن کمیشن کے اسکروٹنی سیل کی جانب سے تصدیق کے بعد ریٹرننگ افسران کو اپنے فیصلے بھی سنانے ہیں۔ وقت اتنا کم رہ جائے گا وہ فوری طور پر اپنے اعتراض کو دور نہیں کر سکیں گے ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کے بعد ٹریبونلز میں اپیلوں کی بھر مار متوقع ہے۔

ادھر چیئرمین نادرا طارق ملک نے چیف الیکشن کمشنرجسٹس(ر) فخرالدین جی ابراہیم سے ایک خط میں اپیل کی ہے کہ الیکشن کمیشن 5 اپریل سے پہلے نادرا کے تیارکردہ الیکٹرانک ووٹنگ سافٹ ویئرکی منظوری کے لیے اجلاس بلائیں۔45 لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حق رائے دہی دینے کی غرض سے 15 ممالک میں 150 سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر یہ نادرا کا تیارکردہ الیکٹرانک ووٹنگ سافٹ ویئر لگایا جائے گا،چیئرمین نادرا سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے سامنے اس سافٹ ویئر کا عملی مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔

بلاشبہ یہ اقدام بھی بیرون ملک مقیم اہل وطن کو انتخابی شفافیت کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ الیکشن کمیشن نے تمام وفاقی اور صوبائی سیکریٹریوں کو تبدیل کرنے کاحکم دیا ہے۔ نگران حکومتوںکو پٹواری سے لے کرسیکریٹریوں کی سطح تک افسران تبدیل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے نگران حکومتوںکو جاری کیے گئے حکم میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا خودمختار، نیم خود مختار اور سرکاری اداروں کے سربراہان، آئی جی پولیس، سی سی پی اوز، سٹی کمشنرز، ڈی سی اوز، ڈی پی اوز، ایس ایچ اوز، پٹواری اور ای ڈی اوز آزادانہ حیثیت میں فرائض سر انجام دیتے ہیں یا نہیں اور ان تمام افسران کو تبدیل کیا جائے جو آزاد نہیں ہیں تاہم جن افسران کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ان کے متعلق الیکشن کمیشن کو اطلاع دی جائے۔

نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے کہا کہ ایس ایچ او سے لے کر سیکریٹری تک تبدیل کیے جائیں گے اور غیر جانبدارانہ بیوروکریسی کی ٹیم تشکیل دی جائے گی۔ اسی طرح ہائیرایجوکیشن کمیشن نے189 سابق اراکین اسمبلی کو ڈگریوں کی تصدیق کرانے کے حوالے سے ویب سائٹ پر پبلک نوٹس جاری کردیا ، تمام سابق ارکان کو اپنی ڈگریاں تصدیق کرانے کے لیے5 اپریل سے قبل جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔انھیں تصدیق کے لیے متعلقہ یونیورسٹیوں کو بھیجاجائے گا ۔اس مقصدکے لیے ایچ ای سی کے کراچی، لاہور، پشاور اورکوئٹہ میں واقع علاقائی دفاتر رات 12 بجے تک کھلے رہیں گے۔

محولہ بالا حقائق کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت امید افزا لگتی ہے کہ اسکروٹنی کے عمل کے باعث واقعی ملک ایک صاف ستھرے انتخابی عمل کے بعد شفاف سیاسی کلچر کے امکانات سے ہم آہنگ ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ چیلنج تو ہے مگر خوش آیند بات یہ ہے کہ قوم اس کے لیے تیار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔