پارسائی کی نمائش

نصرت جاوید  بدھ 3 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میری نسل کے طالب علموں کو اسکولوں میں یہ سمجھایا جاتا تھا کہ میرتقی میر’’آہ‘‘کا شاعر کیوں تھا اور سودا اس کے مقابلے میں ’’واہ‘‘کا شاعر کیسے ہوگیا۔آٹھویں جماعت میں آکر ہمیں ورڈز ورتھ کی رسی کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ جاننا ضروری ہوجاتا تھا۔اچھا خاصہ رٹا باز طالب علم ہوتے ہوئے بھی میں آج تک (Daffodil)نامی پھول کو نہیں پہچان سکتا جس کا اس شاعر کی نظموں میں بڑا ذکر ہوتا تھا۔کالج پہنچنے کے بعد مجھے یہ بھی پڑھایا گیا کہ ہومر اور ورجل بہت بڑے شاعر کیوں مانے جاتے ہیں۔ KEATSکے کمالات کیا تھے اور T.S.Elliotکا Objective Correlative کیا ہوتا ہے۔

پڑھتا میں ایک مشنری اسکول میں تھا مگر تین سالوں تک ہمارے لیے فارسی پڑھنا بھی ضروری تھا۔ ماسٹر نصیر ہمارے اُستاد تھے ۔ہر وقت مصدر سمجھانے کی کوشش میں لگے رہتے اور فارسی کے افعال جس میں من شدم ہوتا ہے تو شدی ۔پھر دینیات کے اُستاد ماسٹر اسلم تھے ۔کلام پاک کے 30ویں پارے کی کافی سورتیں ہمارے نصاب کا حصہ تھیں۔

وہ ان کو محض یاد ہی نہ کرواتے اپنی ہر ممکن کوشش کرتے کہ ہم ان کے معنی اور مفہوم بھی سمجھیں۔گھر میں اللہ بخشے میری والدہ نماز کی باقاعدہ ادائیگی کے ساتھ صلوۃ کے پیچھے چھپے مقاصد کو سمجھانے پر بہت زور دیتیں مگر سب سے زیاد ہ اصرار اس بات پر کہ اگر کوئی شخص پابند صوم وصلوۃ نہیں تو صرف اس بنا پر اس کی مذمت نہیں کرنا چاہیے۔

رب کے رحمن ورحیم اور غفار ہونے کو زیادہ اُجاگر کیا جاتا۔ اسی حوالے سے میں نے اس اَن پڑھ ماں سے شاہ حسین اور بلھے شاہ کے نام اور چند اشعار بھی سنے۔ کالج پہنچنے تک مجھے ہرگز علم نہ تھا کہ وارث شاہ نام کا ایک شاعر میری دھرتی میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ’’ہیر‘‘ جیسی ایک EPICلکھی تھی۔میں نے آج تک وہ کتاب پوری نہیں پڑھی۔

علی عباس جلالپوری کے ’’مقاماتِ وارث شاہ‘‘ کو سرسری طورپر جانا ہے ۔شاہ حسین کا تذکرہ نجم حسین سید کی تحریروں میں کافی رہا۔مگر وہ جو پنجابی لکھتے تھے میری سمجھ سے بالاتر ہوا کرتی اور بلھے شاہ کے بارے میں آج تک میں نے کوئی ڈھنگ کی کتاب نہیں پڑھی۔ کوئی ان کا کلام گائے تو دل پر البتہ بہت اثر کرتا ہے اور وہ تھیا تھیا کرنے کو مچل جاتا ہے ۔

دو ایک دن سے تو بس ایک سوال ذہن میں چپکا ہوا ہے اور وہ یہ کہ بلھے شاہ جیسا اچھا خاصہ اصلی اور نسلی سید دین اور شریعت کو اپنے دور کے جید عالموں سے سیکھنے کے باوجود بڑی شدت سے کیوں’ آہو‘( ہاں)کرنے پر آمادہ ہوجاتا تھا جب اسے کوئی کافر۔کافر کہتا تھا۔شاہ حسین کے بارے میں پڑھے لکھے لوگوں سے سنا تھا کہ وہ ’’ملامتی‘‘ تھا۔سنا یہ بھی ہے کہ یہ صوفیاء کا کوئی مسلک ہے ۔اس مسلک کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہے اسے میں نے کسی مرشد یا اُستاد کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر جو تھوڑا بہت سمجھا اسے دوسروں کو سمجھا نہیں سکتا۔

اتنا پھر بھی جان چکا ہوں کہ شاہ حسین اور بلھے شاہ اس بات پر بہت ناراض تھے کہ ان کے زمانے میں رہنے والوں کی اکثریت دین داروں کے ظاہر کو ان کے حقیقی عمل اور باطن سے کہیں زیادہ اہمیت دینا شروع ہوگئی تھی۔ میرا المیہ یہ ہے کہ آج کا پاکستان بھی کچھ ایسی ہی عادت میں مبتلا ہوچکا ہے ۔مگر ہمارے سوچنے سمجھنے والوں کے ذہن بانجھ اور دل کھوکھلے ہوچکے ہیں ۔پارسائی کی ایک مضحکہ خیز انداز میں نمائش جاری ہے اور کوئی اس پر سوال کرنے کی جرأت نہیں کر پا رہا۔

میں فخر الدین جی ابراہیم کو چوہدری اعتزاز احسن کے اسلام آباد والے گھر میں بار ہا ملا ہوں ۔ان ملاقاتوں کے بعد میرا قیاس ہے کہ اگر ان سے اچانک یہ پوچھ لیا جائے کہ عشاء کی نماز میں کتنے نوافل ہوتے ہیں تو شاید وہ بھی ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ جائیں ۔اچھے خاصے نمازیوں کو بھی شاید سورۃ یٰسین پوری طرح یاد نہ ہو۔مگر اسی چیف الیکشن کمشنر کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز آج کل 62/63 کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں سے مختلف نمازوں کی رکعتوں کی تعداد پوچھ کر ان کے ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ ہونے کا جائزہ لے رہے ہیں ۔

ٹیلی وژن چینلوں والے آج کل میرا اوروینا کی ضرورت محسوس نہیں کررہے۔ مظفر اویس ٹپی اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروانے گیا تو اس کا ’’امتحان‘‘ ہوا۔ اس نے فجر کو پہلی نماز بتاکر ’’کامیابی‘‘ حاصل کرلی اور اس کی یہ ’’کامیابی‘‘ شام چھ بجے سے رات نو بجے تک مختلف ٹی وی چینلوں کی ’’ٹاپ اسٹوری‘‘رہی۔ دین کی مبادیات کا انتہائی سطحی علم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں Infotainment کے Segments بنارہا ہے اور کوئی اس کی مذمت کرنے کو تیار نہیں ہورہا۔پوری قوم’’پارسافروشوں‘‘کے ہاتھوں یرغمال بنی نظر آرہی ہے۔

میں جمہوریت کا بہت بڑا حامی ہوں۔ اس نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عادی نوسرباز،جعلی ڈگریوں والے اور ٹیکس چور انتخابی نظام سے باہر رکھے جائیں مگر ہمارے ملک میں پولیس ہے، چوکس میڈیا اور بہت ہی آزاد عدلیہ۔ جو لوگ 2008ء سے 2013ء تک اسمبلیوں کے رکن رہے انھیں ہر سال اپنے گوشوارے الیکشن کمیشن کو جمع کروانے ہوتے تھے جو اس کی انٹرنیٹ سائٹ پر باقاعدگی سے مشتہر کیے جاتے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں FBR نام کا ادارہ ان گوشواروں کی بنیاد پر کسی ایک رکن پارلیمان کے خلاف بھی حرکت میں کیوں نہیں آیا۔

ٹیکس چوری کی یاد صرف ان لوگوں کے خلاف کیوں آگئی جو انتخابات میں حصے لینے کے لیے ایک تفصیلی فارم بھرنے پر مجبور ہیں۔ 20 کروڑ کے اس ملک میں دس ہزار سے زیادہ لوگ انتخابی عمل میں حصہ نہ لیں گے۔ ان کو کاغذاتِ نامزدگی کے بہانے ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے تو بہت خوب۔مگر ان لوگوں کے بارے میں کون متحرک ہوگا جو انتخابی عمل میں حصہ لینے والوں سے کہیں زیادہ تعداد میں مسلسل ٹیکس چوری کرتے ہیں ۔

انتخابی عمل میں حصہ لینے والوں کی ذات اور ان کے اثاثوں یا کردار کے حوالے سے مسخرے بازی کرتے ہوئے ہم بالکل بھول چکے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں ۔جو ہے وہ سراسر دھوکہ بازی ہے۔ اسی لیے تو غازی ضیاء الحق کے زمانے سے نوجوانوں نے میڈیکل کی ڈگریاں لینے کے بعد سی ایس ایس کے امتحانات دیے ۔جب پاس ہوئے توانھوں نے DMG یعنی کمشنری وغیرہ اور کسٹم کو اپنے محکمے بنانے کو ترجیح دینا شروع کردی۔ ’’ڈاکٹروں‘‘کی پولیس،انکم ٹیکس اور DMG گروپوں میں جانے کی بے تابی کا حل کون ڈھونڈے گا؟۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔