ذرا سوچیے

مقتدا منصور  بدھ 3 اپريل 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کئی دہائیوں سے جمعے کو دوپہر کا کھانا عموماً زاہدہ حنا اور ندیم اختر کے ساتھ ان کے دفتر میں ہوتا ہے۔سیدعرفان شاہ سمیت چند قریبی دوست اپنے دفاتر سے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔سیاست سے ادب اورتاریخ سے فلسفہ تک ہر موضوع پرکوئی دو ڈھائی گھنٹے گپ شپ کے بعد کھانے اور چائے کی ایک پیالی پر یہ محفل برخاست ہوجاتی ہے۔

گزشتہ جمعے کو جب میز پر کھانا چنا جا رہا تھاکہ گزشتہ سات برسوں سے ماحولیات پرتسلسل کے ساتھ شایع ہونے والے واحد اردو ماہنامے فروزاںکے ایڈیٹرمحمودعالم خالدتشریف لے آئے۔اس سے قبل کہ حاضرین ان سے تاخیر کا سبب پوچھتے، انھوں نے خود ہی بتادیا کہ وہ ہائی کورٹ کی طرف سے آرہے ہیں۔جہاں جنرل پرویز مشرف اپنی ضمانت قبل ازگرفتاری میں توسیع کے سلسلے میں چیف جسٹس مسٹر جسٹس مشیر عالم کی عدالت میں آئے ہوئے تھے،جس کی وجہ سے ہائی کورٹ کے اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک جام تھا۔اپنی عبوری ضمانت میں توسیع کے بعد جیسے ہی وہ کمرہ عدالت سے باہر نکلے وکلاء کے ایک گروہ نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی،اسی اثناء میں ایک وکیل نے ان پر جوتا کھینچ مارا،جس سے وہ اس حملے سے بچ تو گئے ، مگر ماحول خاصا مکدر ہوگیا۔

گوکہ مخالفین کے خلاف متشددانہ رویہ عوام میں جنم لینے والے اس غم وغصہ کا اظہارہوتا ہے، جوکسی طاقتور شخص یا ادارے کے ناپسندیدہ اقدامات کے خلاف ردعمل کو ظاہرکرتا ہے کیونکہ انسانی نفسیات ہے کہ جب وہ کسی طاقتور شخصیت کا ہاتھ نہیں روک پاتا، تو اس قسم کے ردعمل کا سہارا لے کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اس لیے اس قسم کے واقعات عموماً اچنبھے کی بات نہیں ہوتے مگرمخالفانہ نظریات کا تشدد کے ذریعے راستہ روکنا اور مختلف افکاراورتصورات کے حامل فرد یا افراد کی تذلیل وتحقیر اور ان پر تشدد غیر جمہوری روایت ہے۔ ایک مہذب،شائستہ اور جمہوری معاشرے میں ایسے کسی ردعمل کی اس لیے گنجائش نہیں ہوتی، کیونکہ ان معاشروں میں اختلاف کے مختلف طریقے موجود ہوتے ہیں لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں برداشت اور رواداری کی روایت تیزی سے کمزور پڑرہی ہے، اس قسم کے واقعات کی اگر حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو نہ کسی کا جبہ ودستار محفوظ رہ سکے گا اور نہ کسی کی عزت وآبرو بے داغ رہ پائے گی۔

اپنے یا پرائے، بزرگ و خورد اور ولی و شیطان کی کوئی تمیز نہیں رہ پائے گی، بلکہ ہر ایک کی پگڑی سرِ بازار اچھلے گی۔اس لیے اہل دانش کی کوشش ہونا چاہیے کہ ایسے واقعات کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اختلاف رائے انسان کا بنیادی حق ہے۔جمہوریت چونکہ فکری کثرتیت اور آزادیِ اظہار سے مشروط ہے،اس لیے جمہوریت فکری کثرتیت اور مخالفانہ خیالات کے لیے گنجائش اور قبولیت پیداکرتی ہے۔جس کے نتیجے میں رواداری، برداشت اور رواداری کا جذبہ پروان چڑھتاہے۔اختلاف رائے کے کئی مہذب اور شائستہ طریقے ہیں،جن میں سب سے اہم دلیل کی بنیاد پر مکالمہ ہے۔

یہی سبب ہے جمہوریت ہر فرد کو اپنے عقیدے، نظریات اور ثقافتی اقدار کے مطابق زندگی گذارنے،اپنے نظریات کاکھل کر اظہار کرنے اور اپنا نقطہ نظر بلاخوف وخطر پیش کرنے کا حق دیتی ہے۔یہی سبب ہے کہ وہ ماورائے آئین وعدالت کسی بھی اقدام کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی بلکہ شہریوں سے حقوق وفرائض میں توازن قائم کرنے کی متقاضی ہوتی ہے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے بجائے اپنی شکایات کو عدلیہ کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتی ہے ۔اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھناہوگا کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں کبھی دو جمہوریتوں کے درمیان جنگ نہیں ہوئی۔ جنگیں یا تو بادشاہوں نے کیں،یا فوجی آمروں نے ایک دوسرے کے خلاف کیں۔ جمہوری حکومتیں اگرکبھی جنگ کی طرف گئیں،تواس پر انھیںخود آمریتوں نے مجبورکیا ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کا سب سے مضبوط ہتھیار مذاکرات ہوتے ہیں۔

پرویز مشرف اس وقت جرنیل نہیں ایک عام شہری کی حیثیت میں واپس آئے ہیں اور اس جمہوری عمل کا حصہ بننے کے خواہش مند ہیں جسے انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے دودہائی قبل تاراج کیا تھا مگر اس کے باوجود آئین و قانون انھیں بحیثیت ایک شہری انتخابی عمل کا حصہ بننے کی پوری اجازت دیتا ہے۔لیکن ساتھ ہی انھیں ان تمام مقدمات کا سامنا بھی کرنا چاہیے،جو ان کے خلاف مختلف اوقات میں درج ہوئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک چارفوجی آمروں نے اس ملک کی65 سالہ تاریخ کے 32 قیمتی سال نگل لیے۔جس کے لیے ان سے جوابدہی ضروری ہے۔ تین اس دنیا سے اٹھ چکے ہیں جو ایک باقی ہے کم ازکم اس کوانصاف کے کٹہرے میں لایاجاسکتا ہے۔

یہ سابقہ کام منتخب حکومت کا تھا، جو پانچ برس تک NRO کی زنجیر میں جکڑے ہونے کے سبب نہ کرسکی۔اس ٹال مٹول کا ایک دوسرا پہلویہ بھی ہے کہ جب بات نکلے گی توپھربہت دور تلک جائے گی جس کے نتیجے میں بہت سے پردہ نشینوں کی نقاب کشائی،بہت سے چہروں کی رونمائی اور بہت سے دامنوں پرلگے داغ نمایاں ہوں گے۔ اس کے علاوہ تاریخ کاہر طالب علم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ اس ابتری کی مکمل ذمے داری صرف اِن چار خاکی وردی والوں کے سرنہیں ڈالی جاسکتی۔ بلکہ کچھ سفیدپوشوں کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں،جنہوں نے فوجی آمریتوں کی راہ ہموار کی۔ اس کینوس کو اگر مزید وسیع کرکے دیکھا جائے تو بات خشتِ اول تک جا پہنچتی ہے۔ اسی لیے اہل دانش خاموشی ہی میں مصلحت سمجھتے ہیں۔

تشویش اس بات پر نہیں ہونا چاہیے کہ پرویز مشرف واپس آگئے ہیں اور انتخابی عمل میں شریک ہونا چاہتے ہیں،بلکہ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں تیزی کے ساتھ رواداری،برداشت اوراختلاف رائے کا ماحول ختم ہورہاہے۔اس کے برخلاف ایک ایسا Mindset تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہاہے،جو تہذیبی نرگسیت کا شکار ہونے کی وجہ سے فکری اور عملی آمریت پر یقین رکھتا ہے۔اسی لیے یہ جمہوریت کا شدید مخالف اور اسے ختم کردینے کے درپئے ہے۔ اگر ایک طرف مذہبی جماعتیں اس نظام کو اپنے عقائد ونظریات سے متصادم سمجھتے ہوئے اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں، تو دوسری طرف بائیں بازو کے بعض قدامت پسند عناصربھی اسے مغربی سرمایہ دارانہ نظام قرار دیکر رد کررہے ہیں۔

یہ صورتحال جمہوریت کے فروغ اور جمہوری نظم حکمرانی کے استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشیں اس کے سوا ہیں۔اس صورتحال میں کیا یہ بات باعثِ طمانیت نہیں کہ وہ شخص جوکبھی وردی کو اپنی چمڑی کا حصہ قراردیتا تھا جس کے قدم آسمان پر چہل قدمی کیا کرتے تھے، آج سادہ لباس میں عوام کے حضور کھڑا ہوکر ان سے ووٹ مانگنے پرمجبور ہوا ہے۔ یہ اس فکر اور سوچ کی کامیابی ہے جو 65 برس سے اس ملک میں عوام کی حکمرانی کے لیے طعن وتشعن سنتی اور صعوبتیں برادشت کرتی رہی ہے مگرپاکستانی معاشرے کو سیاست سے ہٹ کر بھی دیگر کئی گنجلک سماجی و معاشی مسائل اورایک مخصوص اجتماعی نفسیات کا سامنا ہے۔

ان پر توجہ دینے کی کسی بھی جانب سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ فکری تضادات کا یہ عالم ہے کہ جوخوبیاں انسان کے انفرادی خواص کے زمرے میں آتی ہیں،انھیں اجتماعی سمجھاجاتاہے۔جب کہ وہ خصوصیات جنھیں اجتماعی ہونا چاہیے انفرادی تصور کرلیاگیاہے۔ شعیب عادل کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ کسی رہنماء کے لبرل یا رجعت پسند ہونے کا اندازہ اس کے لباس،مرغوب غذاؤں اور پسندیدہ مشروبات سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اس کا وہ عمل جو معاشرے کوآگے لے جانے یا جمودکا شکار کرنے کا سبب بنے ، اس کے روشن خیال یاقدامت پسند ہونے کی دلیل ہوتاہے۔سرسیداحمد خان،علامہ نیاز فتح پوری اور مولانا ابوالکلام آزاد اپنی ظاہری وضع قطع کے برخلاف روشن خیال، ترقی دوست اور جدیدیت کے حامی تھے ۔اس کے برعکس مغربی طرز حیات اورجدید لباس زیب تن کرنے والے کئی رہنماؤں نے برصغیر کے معاشرے کو فکری اور سماجی طورپر پسماندگی کی طرف دھکیلا۔

یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ ہمارے اکابرین نے گزشتہ کئی صدیوں سے صرف جذبات کی بنیاد پر جنونیت کی آبیاری کی ہے۔جب کہ عقل و دانش اور فہم وفراست کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی روایت کو حتیٰ الامکان کچلنے کی کوشش کی۔ہم جلال الدین اکبر کے دور میں جس فکری کنفیوژن کاشکار ہوئے، اس سے آج تک جان نہیں چھڑاسکے ہیں۔ان رویوںاور رجحانات نے مذہبی شدت پسندی کی شکل میں ایسی عفریت کو پروان چڑھایا، جو اپنے سوا ہردوسرے عقیدے اور مسلک کی تکفیرکرتے ہوئے ان کے ماننے والوں کی زندگیوں کے خاتمے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی ہے۔ یوں برداشت اور رواداری کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس سوچ کو شکست دینے کے لیے فکری کثرتیت اور اختلاف رائے کوبرداشت کرنے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، جو جمہوری عمل کے تسلسل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

میں اپنے شعور کے سن میں آنے سے آج تک 45 برسوں کی تاریخ پر نظر دوڑاتا ہوں تو تمامتر کوتاہیوں، کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجود مرے دل میں ان سیاسی جماعتوں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوتا ہے، جنہوں نے اقتدار تک پہنچنے کے لیے صرف جمہوریت کے زینے ہی کو استعمال کیا اور اس مقصد کے لیے قربانیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔مجھے آج بھی 1986ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر سبطِ حسن مرحوم کی وہ آخری تقریر یاد ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کا اولین مسئلہ سوشلزم کا نفاذ نہیں بلکہ جمہوریت کی بحالی ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جس ملک میں عوام کوآزادانہ حقِ رائے دہی حاصل نہیں،وہاں دیگر حقوق تک رسائی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ اس لیے ایک بہتراورمنصفانہ معاشرے کی طرف بڑھنے کے لیے جمہوریت کا استحکام ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔