بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن

رئیس فاطمہ  بدھ 3 اپريل 2013

کیا کبھی کسی خاندانی اور پڑھے لکھے آدمی نے سوچا ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب شرافت، انسانیت اور ایمانداری جرم بن جائے گی، ان خصوصیات کے حامل کو احمق اور بے وقوف کہا جائے گا، لٹیرے،غاصب، قاتل اور خائن بڑے بڑے مرتبے پائیں گے۔ اہل علم و دانش رسوا ہوں گے ۔ 30 مارچ کا اخبار میرے سامنے پڑا ہے، صفحہ اول پر تین تصاویر چھپی ہیں۔ ایک تصویر میں سرگودھا میں اسکول ٹیچر نفیس احمد خان کو تشدد کا نشانہ بنانے والے کو پی پی نے صوبائی اسمبلی کے الیکشن کا ٹکٹ دے دیا ہے۔

موصوف نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے 60 سالہ اسکول ٹیچر کو مارا پیٹا اور زخمی کیا تھا۔ دوسری تصویر وحیدہ شاہ کی ہے۔ ان خاتون کی وجہ شہرت یہ تھی کہ انھوں نے ضمنی انتخابات کے موقعے پر انتخابی عملے کو تھپڑ مارے تھے اور اس جرم کی پاداش میں الیکشن کمیشن کی جانب سے دو سال کی نااہلی کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن خودکش الیکشن کمیشن نے دو سال کی سزا معطل کرکے محترمہ کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی ہے۔ ان دونوں کی حرکات کو تمام ٹیلی ویژن اسکرین پر بار بار دکھایا گیا تھا۔

وحیدہ شاہ کس طرح انتخابی عملے کی خواتین پر تھپڑوں کی بارش کر رہی تھیں اور پولیس والے کس طرح ان کے ساتھ کھڑے اس بدتمیزی کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ وہ بھی سب نے بار بار دیکھا۔ اسی طرح سیاسی رہنما مارپیٹ کر رہے تھے وہ بھی سب نے دیکھا۔ اور یہ خبریں بھی دکھے دل کے ساتھ پڑھیںکہ ان دونوںبااثر لوگوں کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ مل گیا۔ لیکن تیسری تصویر حج کرپشن سے شہرت حاصل کرنے والے ایک عالم دین اور سیاسی لیڈر کی ہے جنہوں نے پی پی کی طرف سے پارٹی ٹکٹ نہ دینے پر بے وفائی کا الزام لگایا ہے۔

ایسا لگتا ہے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’’دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں‘‘۔ یعنی موصوف حج کرپشن میں صرف ’’فرنٹ مین‘‘ تھے۔ سارا مال ان لوگوں نے ہضم کیا جن کے سروں پر صوفیوں کے شہر کے رہنے والے طاقت ور لوگوں کی چھتری تھی اور موصوف کو یقین تھا کہ جن کے لیے انھوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈالی وہ انھیں یونہی بے یارومددگار نہیں چھوڑیں گے اور۔۔۔۔اور پارٹی ٹکٹ بھی نہ دیں گے؟

65 سال پہلے کے وہ زمانے خواب ہوئے جب سیاست میں شرافت اور ایمان داری کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ مغربی ممالک میں تو یہ روایت اب بھی زندہ و تابندہ ہے۔ اسی لیے سیاست میں کردار کو اولین حیثیت دی جاتی ہے کسی بھی منتخب صدر کو الزام ثابت ہونے پر عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل یہ لوگ اپنا جرم بھی قبول کرلیتے ہیں اور شرمندہ ہوکر معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔ کیونکہ جھوٹ بولنا ان کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے۔ان کے لیڈر خود کو ’’پبلک سرونٹ‘‘ سمجھتے ہیں اور اسی قومی احساس کے ساتھ اپنے اپنے دور اقتدار میں انسانیت اور قوم کی خدمت کرتے ہیں۔

ریٹائر ہوتے ہیں یا اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو عیاشی کے لیے ان کے پاس عوام کا لوٹا ہوا مال نہیں ہوتا۔ وہ واپس اپنے پرانے گھروں میں آجاتے ہیں، ٹیوب میں سفر کرتے ہیں اور ان کے بچے عام بچوں کے ساتھ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔زیادہ دور نہ جائیے ، ابھی کی بات ہے کہ تین اعلیٰ امریکی فوجی افسروں اور چند یورپی وزرا نے ذاتی اسکینڈلز کے باعث معافی مانگی اور مستعفی بھی ہوئے۔

جس عظیم انسان کا لقب صادق اور امین ہو، جس کے نزدیک بہترین انسان وہ ہو جس کا اخلاق اچھا ہو، جو دوسروں کی مدد پر یقین رکھتا ہو، اس کے ماننے والوں، خصوصاً پاکستانیوں کا حال دیکھیے کہ اخلاقی زوال کا یہ عالم کہ کسی پر جوتا مارتے ہیں، کسی پر لاتوں اور گھونسوں کے وار کرتے ہیں، کسی پر تھپڑوں کی بارش کردیتے ہیں ، بے چہرہ ٹارگٹ کلرز ہیں کہ کسی کو گھر کے اندر،کسی کو باہر سڑک پر اور کسی کو حالت نماز میں گولیوں سے بھون دیتے ہیں، خود کش حملے کرکے اسلام کا پرچم ہوا میں لہراتے نظرآتے ہیں، اور پھر بھی مسلمان کہلواتے ہیں۔

دراصل ہر عمل کے پیچھے خاندانی نجابت اور تہذیب ہوتی ہے۔ شرفاء میں تو کسی کو گالی دینا بھی بے حد معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے کبھی اپنے گھر میں یا خاندان میں کسی کو گالیاں دیتے نہیں دیکھا۔ ہمارے ہاں تو گھریلو ملازمین سے بھی تو تکار سے بات نہیں کی جاتی، کیونکہ ہمیں تربیت یہی ملی ہے کہ ہر شخص کی عزت کرو، اور کسی کی عزت نفس کو مجروح مت کرو۔ لیکن جن لوگوں کا ماحول مختلف ہوگا، جن کے پیچھے کوئی تہذیب نہ ہو، کوئی خاندانی پس منظر نہ ہو، جن کے پاس اچانک کہیں سے پیسہ آگیا ہو، خواہ دو نمبر کے کاروبار سے؟ کسی سیاست دان کی جوتیاں سیدھی کرنے سے؟ کسی پارٹی کے پے رول پر قتل و غارت گری اور دہشت گردی کرنے سے؟ غریب، مفلس و لاچار لوگوں کو زبردستی کسی نشان پر مہر لگوانے کے عوض ملنے والی رقم سے؟ عورتوں کی دلالی سے یا کسی مخالف کو اپنے امیدوار کے راستے سے ہٹانے سے؟ ان کا دین ایمان صرف پیسہ ہوتا ہے۔

اخلاقی اقدار کے معاملے میں یہ بانجھ ہوتے ہیں لیکن آج ایسے ہی کم ظرف لوگ معاشرے میں عزت پاتے ہیں، پیٹھ پیچھے لوگ ان پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن سامنے جھک کر سلام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔کیونکہ یہ رسہ گیروں کا معاشرہ ہے۔ جو اسلام کا پاک نام استعمال کرکے ہر غلط کام کرتے ہیں، یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضے کرکے بزنس ٹائیکون بن جاتے ہیں۔ قلم کاروں، تجزیہ نگاروں اور سرکاری افسران کو خرید کر اپنی ذات طلسماتی بنالیتے ہیں۔ ان کے عشرت کدوں میں صرف اقتدار کی بندربانٹ کرنے والے باریابی پاتے ہیں۔

جو مزاروں کے مجاور بن کے ووٹ خریدتے ہیں، لاشوں کا کاروبار کرتے ہیں، مذہب ،نسل،قومیت کے نام پر بیگناہ انسانوں کے خون کی ہولی کھیلتے ہیں۔انگوٹھا چھاپ جعلی ڈگریوں کی بدولت اسمبلیوں کے ممبر بن جاتے ہیں اور الیکشن کمیشن ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ کچھ مکار لوگوں کو جعلی ڈگری کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسمبلی میں بیٹھے جعلی ڈگری ہولڈر انھیں سر کا تاج بناکر مسند اقتدار پر بٹھا دیتے ہیں اور پھر کچھ ’’بابے‘‘ اپنے غلیظ وجود اور غلیظ حرکتوں سے ان کے اقتدار کو طول دینے کے طریقے بتاتے ہیں۔

یہی منظرنامہ اس بدنصیب ملک کا رہے گا۔ کہیں سے کوئی روشنی کی کرن نہیں پھوٹے گی، کیونکہ کالی بلاؤں نے اس ملک میں ایسی تاریکی پھیلادی ہے جس کے چھٹنے کے کوئی امکانات نہیں۔ بہت ساری بلاؤں اور کالی آندھیوں نے سمجھوتہ کرکے روشنی کا داخلہ بند کردیا ہے۔ اس اندھیرے گھپ ماحول میں صرف ان کے عشرت کدے جگمگاتے ہیں۔

جنہوں نے عام آدمی کے منہ کا نوالہ چھین لیا ہے۔ لوگ بھوک، بے روزگاری اور غربت سے مر رہے ہیں۔ لیکن شوگر ملیں بن رہی ہیں، محلات بن رہے ہیں، شان و شوکت کے مظاہروں کے لیے عوام کی لاشوں پر رقص ہورہے ہیں، حج کے مقدس نام پر کرپشن کی گند نے پوری دنیا میں بدنام کردیا ہے۔ لیکن انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اگر ملک اور قوم کو بیچ کھائیں تو تعجب کیسا؟ یہ تو ان کا آبائی پیشہ ہے۔چاہے وہ لاکھ دعوی کریں ۔

سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ہی ذریعہ عزت نہیں مجھے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔