ریا کاری کو کچل دو

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 3 اپريل 2013

پیرس میں اس کی عیسائی طریقے سے تدفین کی اجازت نہ دی گئی مگر اس کے دوستوں نے اس کو گا ڑی میں بٹھایا اور یہ کہہ کر شہر سے باہر لے گئے کہ وہ ابھی زندہ ہے اسکیلرز میں ان کو ایک ایسا پادری مل گیا جو سمجھتا تھا کہ قواعد طباعوں کے لیے نہیں ہیں اور لاش مقدس زمین میں دفن کر دی گئی ۔1791ء میں کامیاب انقلاب کی قومی مجلس نے لوئی شانزدہم کو مجبور کیا کہ وہ والٹیر کی لاش کو طلب کر کے پانتھیوں میں دفن کرائے۔

جب اس بڑے شعلے کی ٹھنڈی راکھ پیرس میں لائی گئی تو ایک لاکھ مرد و زن ساتھ تھے اور چھ لاکھ افراد قطاریں باندھے سٹرکوں پر کھڑے تھے جنازہ لانے والی گاڑی پر صرف یہ جملہ لکھا ہوا تھا ’’اس نے ذہن انسانی کو بہت تقویت پہنچائی ہے‘‘ اس کے لوح مزار پر صرف تین الفاظ ہیں یہاں والٹیر دفن ہے۔ وکٹر ہیوگو کا قول ہے والٹیر کا نام لینا گو یا اٹھارویں صدی کی خصوصیات بیان کر دینا ہے۔ اٹلی میں تحریک احیائے علوم پیدا ہوئی، جرمنی میں تحریک اصلا ح اور فرانس میں والٹیر۔

اس نے توہمات، مذہبی جنونیت اور فساد معاشرت کے خلاف ایسا شدید اور موثر محاذ قائم کیا کہ لوتھر، ایرسمس، کیلون فاکس کے کارنامے ماند پڑ گئے۔ اس نے وہ بارود تیار کر نے میں مدد دی جس سے کام لے کر میرالو مار، ڈاسن اور روبس پیرو نے حکومتوں کے پرخچے اڑا دیے۔ مسند ہائے شاہی اس کے سامنے کانپنے لگیں۔ آدھی دنیا اس کا ہر لفظ سننے کے لیے گو ش بر آواز ہو گئی۔ انقلاب فرانس کے بعد جب بادشاہ کو جیل بھیجا گیا تو وہ بار بار ہاتھ مل کر ایک بات افسوس سے کہتا تھا ’’مجھے روسو اور والٹیر کی تحریر یں لے ڈوبیں‘‘ والٹیر نے کہا دنیا پر تحریر کی حکومت ہے اور تعلیم سے آزادی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

والٹیر کو کسی دوست نے لکھا کہ ہوش کے ناخن لو خواہ مخواہ جان کیوں دیتے ہو اس کے جواب میں اس نے لکھا آپ پھانسی پر چڑھنا پسند نہیں کرتے تو خیر یہ اور بات ہے لیکن دوسروں کو اس کام سے کیوں روکتے ہو۔ اس نے قلم سے تلوار کا کام لیا۔ اس وقت مذہبی تعصب اپنے عروج پر تھا۔ فرانس کا قانون پروٹسٹنٹ طبقے کے لیے بے رحم تھا۔ ان کے کوئی سماجی حقوق نہ تھے۔ ٹولاوز میں جین کالاز نامی ایک پروٹسٹنٹ اپنے کبنے کے ساتھ رہتا تھا اس کی ایک دکان تھی۔ ایک دن کالاز کا بیٹا مایوسی کے عالم میں دکان میں گیا اور چھت سے رسہ باندھ کر خود کشی کر لی۔

اہل خانہ کو جب پتہ چلا تو انھوں نے اسے فوراً نیچے اتارا اور ڈاکٹر کو بلایا لیکن لڑکا ختم ہو چکا تھا۔ اس وقت خود کشی کرنے والے کے لیے فرانس کا قانون بہت سخت تھا خودکشی کرنے والے کی لاش کو ننگا کر کے گلیوں میں گھسیٹا جاتا تھا اور آخر میں لاش کو پھانسی دے دی جاتی تھی۔ بیٹے کی لاش کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے جین کالاز نے اس کو قدرتی موت بتا کر دفن کر نے کی کوشش کی لیکن معاملہ کھل گیا اور پولیس پہنچ گئی، کسی کیتھولک نے یہ افواہ پھیلا دی کہ لڑکا کیتھولک عقیدہ قبول کر چکا تھا لہذا اسے اس کے پروٹسٹنٹ گھرانے نے قتل کر دیا۔

بغیر کچھ سو چے سمجھے جین کالاز اور اس کے اہل خانہ کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس کے بیٹے کو کیتھولک سمجھتے ہوئے نہایت عزت کے ساتھ دفنایا گیا۔ عدالت کے لیے کالاز کا پروٹسٹنٹ ہونا ہی کافی تھا۔ سارے گھرانے کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اپیل کی گئی جس میں صرف جین کالاز کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی لیکن مکمل ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے یہ حکم دیا کہ تشدد کے ذریعے کالاز سے اقبال جر م کرایا جائے۔ کالاز پر انسانیت سوز بھیانک تشدد کیا گیا۔

اس کے بازوؤں اور ٹانگوں کو رسے سے باند ھ کر اس قدر کھینچا گیا کہ ہڈیوں کے سارے جوڑ ٹو ٹ گئے۔ پھر پانی کا مشکیزہ زبردستی اس کے حلق میں اتارا گیا۔ لیکن کالاز یہ کہتا رہا کہ وہ بے قصور ہے۔ پھر اسے عوام کے سامنے گر جا گھر کے آگے صلیب پر چڑھایا گیا اور اس کے ہر ہر جو ڑ میں لوہے کی میخیں ٹھو نکی گئیں۔ کالاز حضرت عیسیٰ کو پکارتا رہا اور عدالت کے نمایند ے قہقہے لگاتے رہے۔ پھر اس کی لاش کو پھانسی دی گئی اور آخر میں اسے جلا دیا گیا۔ کالاز کی جملہ جائیداد ضبط کر لی گئی۔ اس کا خاندان منتشر ہو گیا لیکن کالاز کی ایک بیٹی کسی طرح والٹیر تک پہنچ گئی، سارا قصہ سننے کے بعد والٹیر تڑپ اٹھا۔

اس کی ساری ظرافت ہوا بن کر اڑ گئی، مسکرانا بھی ترک کر دیا۔ مذہب کی آڑ میں بربریت کی انتہا اور لوگوں کی خاموش تما ش بینی دیکھ کر اس نے پختہ تہیہ کیا کہ وہ یورپ کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائے گا اور کالاز کو ’’ بے گناہ‘‘ قرار دلوائے گا۔ وہ اپنے قلم کی ساری توانائیاں استعمال کرتے ہوئے پمفلٹ لکھنے لگا اور تمام باضمیر لکھاریوں سے اپیل کی وہ اس کا ساتھ دیں۔ پوری دنیا سے چند ے کی اپیل بھی کی، جس کا اسے بھر پور رد عمل ملا۔ انگلستان کی رانی، روس کی شہزادی، پولینڈ کے با دشاہ وغیرہ نے بھی چندہ بھیجا اور بڑے بڑے وکیل بلا معاوضہ والٹیر کا ساتھ دینے لگے۔

والٹیر کے پمفلٹ آج بھی انسانی آزادی اور رواداری کی بہترین دستاویز ہیں۔ وہ لکھتا ہے ’’انسان کو حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی عقل کے مطابق زندگی گزارے اور عقل کے مطابق ایمان اختیار کرے۔ اگر آپ اقلیتی فرقے / مذہب کو غلط سمجھ کر مٹا دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ اپنے آباؤ اجداد اور ابتدائی عیسائیوں کی بے حرمتی کر تے ہیں۔ کیونکہ اس وقت یہ عیسائی بھی اقلیت میں تھے۔ مذہبی تعصب ایک جرم ہے اور اس کا علاج رواداری ہے‘‘ تین سال کی مسلسل اور ان تھک جدوجہد کے بعد اعلیٰ عدالت نے کالاز کو بے گنا ہ قرار دیا اور اس کی جائیداد لو ٹا دی۔ والٹیر خوشی سے رویا۔

اس کے بعد والٹیر نے مذہبی جنو نیت کے خلاف مسلسل جنگ جاری رکھی۔ وہ کہتا ہے کہ تاریخ سے بات ثابت ہو جاتی ہے کہ تاریخ سے بات ثابت کی جا سکتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسی تاریخ لکھوں جس میں لڑائیوں کا ذکر نہ ہو بلکہ معاشرے سے بحث ہو۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ذہن انسان کی تاریخ مرتب کی جائے۔ مجھے امراء، شرفا، بادشاہوں کی سوانح حیات سے بھی کوئی بحث نہیں۔ میں ان منازل اور مراحل سے بحث کر نا چاہتا ہوں جن سے گزر کر ذہن انسانی بربریت سے تہذیب تک پہنچا ہے۔

بقول بکل کے والٹیر کے تالیف موجودہ علم تاریخ کی بنیاد ہے والٹیر کے نزدیک تاریخ کا مقصد نسل انسانی کو جسمانی، ذہنی اور اخلاقی طور پر آزاد کر وانا ہے۔ اس آزادی اور اس نجات کو حاصل کر نے کا واحد ہتھیار انسانی عقل ہے۔ وہ کہتا تھا کہ عوام کی آواز خدا کی آواز ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب تم انسانوں کو بیلوں کی طرح ہانکتے ہو تو ہر شے سے محروم ہو جاتے ہو۔ جلد یا بدیر وہ تمہیں اپنے سینگوں سے چھید ڈالیں گے۔ اس کی عملی زندگی کی ابتدائی حصے کا ماٹو یہ رہا تھا کہ ہنسو اور ہنسنے دو۔ بعد میں اس نے یہ پرانا ماٹو بدل دیا اور جو اپنایا وہ یہ تھا کہ سوچو اور سو چنے دو۔ اس نے کہا تھا کہ میرا مسلک یہ ہے کہ ریاکاری کو کچل دو۔

آج صدیوں بعد پاکستان کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے اس میں مذہبی انتہا پسندی سر فہرست ہے۔ مذہبی انتہا پسندی محض ایک عمل یا کارروائیوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سو چ ہے جو پاکستانی معاشرے میں آہستہ آہستہ سرائیت کر رہی ہے۔ جو خودکش بم دھماکوں کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کی ثقافت نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی اسلامی عمل ہے کہ بیگناہ لوگوں، معصوم بچوں اور عورتوں کو بموں سے اڑا دیا جائے اور نہ ہی کسی کو اس بات کا حق ہونا چاہیے کہ وہ بندوق لے کر اپنے نظریات سب پر تھو پ دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔