الیکشن 2013ء پر اثرانداز ہونے والے ملکی مسائل کا جائزہ

غلام محی الدین  جمعرات 4 اپريل 2013
مہنگائی، کرپشن، دہشت گردی، اداروں کی تباہی، ناکام خارجہ پالیسی۔  فوٹو: فائل

مہنگائی، کرپشن، دہشت گردی، اداروں کی تباہی، ناکام خارجہ پالیسی۔ فوٹو: فائل

جمہوری نظام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ کسی ملک کے عوام کو اس بات کا موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ ایک معین عرصہ تک کے لئے برسراقتدار آنے والی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور حکومت مدت پوری ہونے کے بعد جب نئے انتخابات کا موقع آئے تو اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت کی کارکردگی پر اپنے رد عمل کا اظہار کر دیں۔

یعنی اگر حکومت نے لوگوں کو سکھ دیا ہے‘ عوام کے حالات کار بہتر ہوئے ہیں‘ بنیادی سہولتوں کی صورتحال میں بہتری آئی ہے‘ لوگوں کے معاشی حالات ٹھیک ہوئے ہیں‘ اور دنیا میں ملک کا وقار قائم ہے تو ظاہر ہے حکومت کی کارکردگی کو بہتر سمجھا جائے گا اور لوگ اسی حکومت پر دوبارہ اعتماد کرنے کا فیصلہ کریں گے لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہوتو پھر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ بری کارکردگی دکھانے والی حکومت اور اس کے امیدواروں کو مسترد کر دیں۔ ذہنی بلوغت کی اعلیٰ سطح حاصل کر لینے والے معاشروں میں انتخابات دراصل احتساب کے خود کار نظام کی طرح کام کرتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس رہتا ہے کہ ان کی کارکردگی کو بغوردیکھا جا رہا ہے اور انتخابات کے موقع پر عوام ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جس کے وہ مستحق ہیں۔ اس کے برعکس ذہنی بلوغت کی کمتر سطح رکھنے والے معاشروں میں جمہوری نظام لوگوں کو ممکن حد تک بااختیار بنانے میں کامیاب نظر نہیں آتا۔ پاکستان سمیت دیگر ایسے ممالک میں اس دور میں بھی ایسے حربوں کا استعمال عام ہے جن کے ذریعے عوام کا حقیقی رائے کو بدل دیا جاتا ہے اور ایسی حکومتوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے جن کو عوام پسند نہیں کرتے۔ جن ممالک میں جمہوری روایات مضبوط ہیں اور ہر سطح پر ان کا احترام کیا جاتاہے وہاں عوام کے فیصلے کو خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر 1930ء کی دہائی میں جرمنی میں ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے بعد حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ہٹلر کے ساتھ ایک غیر آبرومندانہ معاہدہ کرنے پر برطانیہ کے وزیراعظم چیمبر لین کو 10مئی 1940ء کو مستعفی ہونا پڑا اور ایوان نے سرونٹسن چرچل کو وزیراعظم چُن لیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ونسٹن چرچل کا کردار بہت اہم ہے۔ انہوں نے اس وقت برطانیہ کو میدان جنگ میں ثابت قدمی سے کھڑا رکھا جب یورپ کا کوئی ملک برطانیہ کے ساتھ نہیں تھا۔ تاریخ دان کہتے ہیںکہ جرمنی کو شکست دینے میں چرچل نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر اس موقع پر برطانیہ کمزوری دکھاتا تو دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

اتنے غیر موافق اور مشکل حالات میں ملک کی قیادت کرتے ہوئے ایک بڑی جنگ میں کامیابی دلانے کے باوجود 1945ء کے انتخابات میں کنزوریٹو پارٹی کو شکست ہوئی۔ برطانیہ کے لوگوں نے لیبر پارٹی کو کامیاب کرایا۔ لوگوں کے اس فیصلے کی وجوہات تھیں‘ کنزرویٹو پارٹی نے اس عوامی فیصلے کو قبول کیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ جنگ میں کامیابی دلانے والی پارٹی کو رد نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس شکست کے بعد چرچل ایوان میں قائد حزب اختلاف رہا۔ 1951ء میں جب پھر انتخابات ہوئے تو کنزرویٹو پارٹی جیت گئی اور چرچل 1955ء تک برطانیہ کے وزیراعظم رہے۔

ہمارا ملک پاکستان 1947ء میں اپنے قیام سے لے کر آنے والی چھ دہائیوں تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔ یہاں مختلف تجربات کئے جاتے رہے۔ مارشل لاء لگتے رہے اور جمہوری عمل کا تسلسل متاثر ہوتا رہا۔ ملک کے اندر آخری فوجی حکومت 2008ء میں ختم ہوئی اور اس کے بعد انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدار نصیب ہوا۔ اس جمہوری حکومت نے کسی نہ کسی طرح رو دھو کر اپنی آئینی مدت پوری کر لی ہے جس کے بعد ملک دوبارہ انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے، جو 11مئی کو منعقد ہو رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم ان بڑے مسائل‘ معاملات اور عوامی خواہشات اور تواقعات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے جو 2013ء کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی کی وجوہات میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی الیکشن میں دلچسپی صرف اس حد تک ہوتی ہے کہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاستدانوں کے ڈیر آباد ہو جاتے ہیں اور وہاں رونق میلہ‘ کھانا پینا وافر ہوتا ہے۔ ملک کے بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں لوگوں کو اپنی مرضی سے ووٹ دینے کی آزادی نہیں ہے۔ ان علاقوں میں بااثرافراد کا اتنا دبدبا ہے کہ کوئی ان کی مرضی کے خلاف جانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ بہر حال یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ پچھلے دس برسوں میں سیاسی آگاہی بڑھی ہے اور لوگوں میں اپنے حقوق کا شعور بیدار ہوا ہے۔ اگر تسلسل کے ساتھ انتخابات ہوتے رہے تو اگلے دس برس میں ہمارا جمہوری کلچر زیادہ باوقار شناخت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ذیل میں ہم ان اہم معاملات کا تذکرہ کریں گے جو انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

مہنگائی

رخصت ہونے والی پیپلزپارٹی کی اس حکومت نے اپنے 5 سالہ دور میں جتنی بدنامیاں سمیٹیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ قیمتوں میں اضافے کی تقابلی فہرست دیکھیں تو اس میں گزشتہ 4 برسوں کے دوران کم از کم 35.42 اور زیادہ سے زیادہ 170 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرول میں 55.48‘ ڈیزل 134.44‘ سی این جی 92‘ آٹا 106‘ مونگ کی دال170‘ گھی62‘ چینی 124گوشت83‘ دودھ75‘ اور چائے کی قیمت میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔ قیمتوں میں اس ہوشربا اضافے سے پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے تنخواہوں میں اضافہ سمیت جو دیگر ا قدامات کرنے کی ضرورت تھی وہ مؤثر طور پر سامنے نہیں آ سکے جس کے باعث لوگ پس کر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف اشیا صرف کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور دوسری جانب بجلی کی قلت اور دیگر مسائل نے کاروباری‘ تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کو بُری طرح سے متاثر کیا۔

اس بدحالی کے نتیجے میں سٹریٹ کرائم کی شرح میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس وقت ہر شہری مہنگائی کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابی میدان میں اترنے والی بڑی سیاسی قوتیں تاحال لوگوں کو اس بات کا یقین دلانے میں ناکام نظر آتی ہیں کہ برسراقتدار آ کر مہنگائی کے اس طوفان کا منہ موڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں کوئی بھی پارٹی برسراقتدار آ کر لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ نہیں کر سکی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران اگر کوئی سیاسی جماعت لوگوںکو اس بات کا یقین دلا دے کہ وہ برسراقتدار آ کر عوام کے اس مسئلے کو حل کر سکتی ہے تو عوام کی غالب ا کثریت کی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔

بجلی کا بحران

ملک میں جاری بجلی کے بحران کا سابقہ حکومت کے دور میں بدترین صورت اختیار کر لی تھی۔ حالات اس حد تک خراب ہو گئے تھے کہ موسم گرما میں مختلف علاقوں میں لوگوں نے واپڈا کے دفاتر پر حملے شروع کر دیئے تھے۔ سڑکوں پر احتجاج اور دفاتر میں توڑ پھوڑ روز کا معمول بن گیا تھا۔ لوڈشیڈنگ اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ صنعتی اور پیداواری سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔ ابھی تو موسم گرما کا آغاز ہو رہا ہے جب موسم میں شدت آئے گی تو صورتحال پھر ویسی ہی ہو جائے گی۔ پیداواری سرگرمیاں متاثر ہونے کے باعث روزگار کے مواقع بھی محدود ہو کر رہ گئے اور بے روز گاری میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس مسئلے کے حوالے سے بھی پیپلزپارٹی کو شدید عوامی غیض و غضب کا سامنا رہا ہے۔ پانی و بجلی کے وزیر اور بعدازاں ملک کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ایک سے زیادہ مرتبہ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی تاریخ کا علان کیا لیکن صورتحال سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی۔

انتخابات میں اترنے والی دیگر دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے ملک کے ایک ایک گرڈ اسٹیشن اور واپڈا کی تمام تنصیبات کی صلاحیت کا مکمل جائزہ لیا ہے ور ان کی پارٹی برسراقتدار آ کر پانچ سال کے اندر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دے گی۔ اس کام کے لئے پانچ سال کا عرصہ حقیقت پسندانہ نظر آتا ہے۔

 دہشت گردی

دہشت گردی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کی جڑیں افغانستان پر سوویت حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال میں ہیں۔ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’کسی کو ہتھیار دینا بہت آسان ہے، لیکن اس سے واپس لینا بہت مشکل ہوتا ہے‘‘۔ پاکستان اس وقت ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں کئی طرح کی قوتیں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں ملوث ہیں۔ عام طور پر دہشت گردی کا لفظ آتے ہی تحریک طالبان کا نام ذہن میں آتا ہے لیکن اس وقت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارت سمیت دیگر قوتیں بھی میدان میں اتر آئیں ہیں۔

2003ء سے 31 مارچ 2013ء تک کل 46976 پاکستانی شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان میں 16178 عام شہری، 4979 سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 25819 دہشت گرد شامل ہیں۔ دہشت گردی میں شدت پیدا ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2003ء میں مرنے والوں کی کل تعداد 189 تھی جبکہ 2013ء میں 1839 افراد دہشت گردی کی نذر ہوئے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے ملک کی سیاسی قوتوں میں مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے میں مشکلات رہی ہیں لیکن اس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ اگر جنگجو قوتیں سنجیدہ طرز عمل اختیار کریں تو ان سے مذاکرات کیے جانے چاہئیں۔ اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن اور اے این پی نے آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا جن میں تحریک انصاف کے سوا باقی تمام اہم سیاسی جماعتیں شریک ہوئیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا اس بارے میں مؤقف یہ تھا کہ مذکورہ کانفرنسیں سیاسی شعبدہ بازی ہے کیونکہ 5 برس تک برسراقتدار رہنے والی سیاسی قوتوں نے اس عرصے میں طالبان سے مذاکرات کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی حالانکہ یہ سارا عرصہ تحریک انصاف اس بات کا مطالبہ کرتی رہی۔ جب حکومت کی مدت ختم ہونے کو ہے اس وقت کانفرنس کرکے صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے نے پاکستان کے عوام کی معمول کی زندگی کو بُری طرح سے متاثر کیا ہے۔ ووٹ دیتے وقت اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا کہ کون سی پارٹی ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

فرقہ واریت

فرقہ واریت بھی دراصل دہشت گردی ہی کی ایک شاخ ہے جس نے ملک کے اتحاد اور یکجہتی کو بُری طرح سے متاثر کیا ہے۔ ان معاملات سے آگاہ ذرائع اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر فساد اور قتل و غارت گری میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں۔ پاکستان کے عوام اس مسئلے پردُکھی بھی ہیں اور خود کو شرمسار بھی محسوس کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوگی کہ ایسی حکومت منتخب ہوکر سامنے آئے جو فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کا خاتمہ کرنے کی اہل ہو۔

کراچی کی بدامنی

کراچی میں امن و امان کا مسئلہ ایک مستقل صورت اختیار کرچکا ہے۔ یہ ایک کثیر جہتی مسئلہ ہے اور یہاں پر بھی بہت سی قوتیں باہم دست و گریبان ہیں۔ کراچی کے اندر سیاسی برتری حاصل کرنے کی کشمکش کی تاریخ بہت پرانی ہے اوراس مقصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر جرائم پیشہ گروہوں اور مافیاز کے باہمی ٹکرائو نے بھی لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔

حالت یہ ہے کہ جرائم پیشہ گروہ فوج کی طرح مورچہ بند ہوکر لڑائی کرتے ہیں جس کے باعث عام شہریوں کی معمولی کی زندگی ٹھپ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس مارا ماری میں بیرونی قوتیں بھی اپنا ہاتھ صاف کررہی ہیں اور دہشت گردی کی بڑی بڑی کارروائیاں ہوتی ہیں جن کو اس طرح سے کیا جاتا ہے کہ فرقہ وارانہ تصادم کی صورتحال پیدا کی جاسکے۔ کراچی میں حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ شہر میں غیر معمولی اثرورسوخ رکھنے والی سیاسی قوتیں بھی خود کو بے بس محسوس کررہی ہیں۔

بلوچستان کا مسئلہ

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بدقسمتی سے مختلف سیاسی ادوار میں بھی اِس صوبے کی نمائندہ سیاسی قیادت کو پیچھے دھکیلنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس کے ردعمل میں پیدا ہونے والی مزاحمت کو فوجی کارروائیوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔ صوبہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ اِس ناگوار پس منظر سے عبارت ہے۔

ضیاء الحق کے مارشلاء کے بعد صوبے کے حالات میں بہتر ی کا عمل شروع ہوگیا تھا لیکن جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک مرتبہ پھر وہاں کی حقیقی سیاسی قیادت کو پیچھے دھکیل کر باوردی صد ر کی حمایتی حکومت کو زور زبردستی برسر اقتدار لایا گیا جس کے باعث ایک مرتبہ پھر صورتحال خراب سے خراب تر ہوگئی۔ جب مزاحمت زور پکڑ تی ہے تو سکیورٹی اداروں کو بھی کارورائی کرنا پڑتی ہے جس سے معاملات اور خراب ہوئے۔ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کی وجہ سے بہت سے ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں سرگرم عمل ہیں۔ صوبے سے سیاسی کارکنوں کا اغوا اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات انتظامیہ کے لئے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔

بلوچستان کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ صوبے کی تمام اہم سیاسی قوتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جس سے اُمید پیدا ہوئی ہے کہ عوام کی منتخب کردہ حقیقی قیادت برسراقتدار آگئی تو صوبے کے حالات میں مثبت تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے گا۔ بلوچستان کی سیاسی قیادت کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششوں کے حوالے سے مسلم لیگ ن کا کردار قابل تعریف رہا ہے۔ پاکستان کے عوام کی خواہش ہے کہ بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر امن و امان کی فضابحال ہو جائے۔

ماضی میں چھوٹے صوبے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر صدائے احتجاج بلند کرتے تو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی قیادت کو بھی ہدف تنقید بناتے، اس بار صورتحال مختلف ہے، پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف سے چھوٹے صوبوں کے قوم پرست رہنمائوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور ان میں برابر رابطہ بھی رہتا ہے۔ فیڈریشن سے ناراض حلقوں کا عدلیہ اور میڈیا پر اعتماد بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جو بڑی اہم پیش رفت ہے۔

کرپشن

بلاشبہ کسی معاشرے کی تباہی میں کرپشن بدعنوانی اور اقرباپروری سب سے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کا معاشرہ پوری طرح سے اِس لعنت میں ڈوب چکا ہے۔ اِس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش تو دور کی بات گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں آئے روز نیا کرپشن اسکینڈل میڈیا پر چھایا رہا۔ نہ صرف یہ کہ مالیاتی اسکینڈل منظر عام پر آتے رہے بلکہ حکومتی عہدیداران معاملات میں ملوث بااثر افراد کو کھلے عام تحفظ بھی فراہم کرتے رہے۔

یہ تک ہوا کہ حاجی بھی اِس سرکاری لوٹ مار سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ایسے ماحول میں حکومت اور سرکاری اداروں کو وہ اخلاقی برتری حاصل نہیں رہتی جو کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کی پارٹی برسر اقتدار آگئی تو 90 دن کے اندر اندر کرپشن پر بڑی حد تک قابو پالیا جائے گا۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ ملک سے کرپشن کی لعنت کا خاتمہ ہو۔

قومی اداروں کی تباہی

پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ قومی اداروں کی تباہی بھی ہے جس سے عوام بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کو اوگرا میں 90 ارب کی کرپشن کی خبر سہنا پڑی اور اِس واردات کا ملزم تو قیر صادق ملک سے باہر بیٹھا ہے جبکہ وفاقی حکومت عدالت عالیہ کی بار بار ہدایت کے باوجود اُسے وطن واپس نہیں لائی۔ پاکستان کی قومی ایئرلائنز کا یہ حال ہوچکا ہے کہ آئے دِن ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ ایندھن کی ادائیگی نہ کرسکنے کے باعث طیاروں کا ایندھن بند کر دیا گیا ہے۔

ادارے کے پاس اپنے طیاروں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لئے بھی سرمایہ موجود نہیں۔ اِسی برس فروری میں ایسا بھی ہوا کہ پی آئی اے کے 19 طیارے گرائونڈ کرنا پڑے ، یہ تاریخ کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔ اسی طرح ریلویز جو کہ عام لوگوں کو سستی سفری سہولتیں فراہم کرنے والا ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے انتہائی بُری حالت میں ہے اِس وقت سو سے بھی کم انجن درست حالت میں کام کر رہے ہیں جبکہ مال گاڑیاں بند کر دی گئی ہیں۔ واپڈا، گیس، پانی، صحت و صفائی اور صحت کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس سے ملک کے عوام مطمئن نظر آتے ہوں۔ پولیس،تھانہ کچہری ہو یا پھر پٹواری ہر جگہ عوام لوٹ مار کا شکار ہیں۔

خارجہ پالیسی

بیرونی دنیا سے تعلقات کے حوالے سے بھی پاکستان کے عوام پچھلے ادوار سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ ایک جانب ملک کو دہشت گردی کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ کے ڈرون حملے بھی جاری ہیں۔ اِس معاملے پر عوام کو شرمساری محسوس کرتے ہیں ۔ حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ ایسے حملوں کی کوئی اجازت نہیں دی گئی، دوسری جانب امریکی حکومت اور اہم امریکی شخصیات بارہا یہ کہہ چکی ہیں کہ حملے پاکستان کی اجازت سے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی شرمناک ہے۔

پرویز مشرف کے دور سے شروع ہونے والا امریکی رومانس بعد میں آنے والی پیپلزپارٹی کی سیاسی حکومت نے بھی اس منافقانہ پالیسی کے تحت جاری رکھا۔ اِس صورتحال سے اندرون ملک اوربیرونی دنیا میں یہ تاثر عام ہوا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں۔ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت یہ چاہتی ہے کہ امریکی غلامی کا تاثر ختم ہونا چاہئے۔ اپنے دور حکومت کے آخری مہینوں کے سابقہ حکومت نے گوادر بندرگاہ کو چین کے حوالے کیا اور ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی کیا گیا جنہیں ہر سطح پر مثبت اقدامات قرار دیا گیا۔ عوام کی خواہش ہے کہ آنے والی حکومت ان اقدامات کو تحفظ فراہم کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔