ہم نشیں کیسے ہوں۔۔۔۔۔!

ہمارے ہم نشین اور ہم جلیس کون لوگ ہونے چاہئیں اور ہم کن لوگوں کے ہم نشین اور ہم جلیس ہَوں۔ فوٹو : فائل

ہمارے ہم نشین اور ہم جلیس کون لوگ ہونے چاہئیں اور ہم کن لوگوں کے ہم نشین اور ہم جلیس ہَوں۔ فوٹو : فائل

اگر ’’ہم نشین‘‘ جسے عربی میں ’’المجالس‘‘ کہتے ہیں، نیک اور صالح ہو تو زندگی اچھائیوں اور نیکیوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ اچھی بھلی زندگی اچھے اور بھلے لوگوں ہی سے عبارت ہوتی ہے، اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔

جن شخصیات سے قدرتی طور پر ہمارے دِل کے تار ملتے ہیں، اُن سے لامحالہ ہماری رُوح کا معنوی رشتہ بھی جُڑ جاتا ہے۔ دِل چاہتا ہے کہ تاحیات اُن کا ساتھ نہ چُھوٹے۔ ہمارے ہم نشین اور ہم جلیس کون لوگ ہونے چاہئیں اور ہم کن لوگوں کے ہم نشین اور ہم جلیس ہَوں۔

فارسی زبان کے ایک شاعر کی نظم کا ترجمہ ہے۔

ایک روز حمام میں محبوب کے ہاتھ

مجھے کچھ مٹّی پہنچی

اُس مٹّی سے میں نے پوچھا، بتاؤ تم مُشک ہو یا عنبر

تمھاری دل آویز خوش بُو نے مجھے مست کردیا ہے

وہ مٹّی بولی میں تو محض حقیر سی مٹّی تھی

لیکن کچھ عرصہ میں نے پُھول کی ہم نشینی میں بِتایا

یہ اُس ہم نشینی کے کمال کا اثر ہے

ورنہ میں تو فقط مٹّی ہی ہُوں

حضرت آیت اللہ محمدی ری شہری اپنی معروف کتاب ’’ میزان الحکمت‘‘ جلد2، صفحہ112پر کیا عمدہ حقائق و لطائف ِزندگی رقم طراز ہیں:

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں: ’’خیر ( اچھائی) کا ہم نشین نعمت ہے اور شر ( بُرائی) کا ہم نشین عذاب ہے۔‘‘ ’’ بُرے ساتھی کا ساتھ تمام بُرائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔‘‘ ( غررالحکم)

ہم نشین کی صفات کے ضمن میں دِینی منابع سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا: ’’یا رُوح اللہ! اِس وقت کن لوگوں کے ساتھ بیٹھیں؟‘‘ آپؑ نے فرمایا : ’’جن کی زِیارت تمھیں یادِ خدا دِلائے، جن کی گفت گو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جن کا علم تمہیں آخرت کی طرف رغبت دِلائے۔‘‘(بحارالانوار۔ علّامہ مجلسیؒ)

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’صالح لوگوں کی مجلس (یا بہ قول اُصولِ کافی صالح لوگوں کی ہم نشینی) بہتری کی طرف بلاتی ہے۔‘‘

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی دُعا میں ہے: ’’یا شاید تُونے مجھے علماء کی مجالس سے غائب پایا، اسی لیے تُونے مجھے چھوڑ دیا۔ یا شاید تُونے مجھے غافلین (کی صف) میں دیکھا، اِس لیے تُونے مجھے اپنی رحمت سے مایوس کردیا۔ یا شاید تُونے مجھے نکمّے اور بے کار لوگوں سے اُلفت کرتے ہوئے دیکھ لیا، اسی لیے مجھے ان کے درمیان رہنے دیا۔‘‘ (بحار)

یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت لقمان ؑ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ’’ اے میرے پیارے بیٹے! علماء کے ساتھ اپنا اُٹھنا بیٹھنا رکھو اور اُن کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ دِلوں کو حکمت کے نور سے اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح (مردہ) زمینوں کو موسلا دھار بارش سے زندہ فرماتا ہے۔‘‘ (بحار)

امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ یوں ہدایت اور راہ نمائی فرماتے ہیں: ’’ بردبار لوگوں سے اپنی ہم نشینی رکھو۔ اِس طرح تمہارا حلم بڑھے گا۔‘‘ ( غررالحکم)

’’علماء کے ساتھ ہم نشینی رکھو کہ سعادت مند بنو گے۔‘‘ ( غررالحکم)

’’علماء کی ہم نشینی اختیار کرو کہ تمہارا علم بڑھے گا، تمہارا ادب سنورے گا اور تمہارا نفس پاکیزہ ہوگا۔‘‘ ( غررالحکم)

’’علماء کی ہم نشینی اختیار کرو، کیوں کہ اِس طرح تمہاری عقل کامل ہوگی، تمہارا نفس شریف بنے گا اور تمہاری جہالت دور ہوگی۔‘‘ ( غررالحکم)

شہہِ لولاک، سرورِ دو عالم، رسالت مآب آنحضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو، کیوں کہ اِس طرح تم نے اچھے کام کیے تو وہ تمہاری تعریف کریں گے اور اگر غلطی کے مرتکب ہوئے تو تمھیں اپنے سے دُور نہیں بھگائیں گے (بل کہ تمھاری اصلاح کریں گے)۔‘‘(تنبیہہ الخواطر)

’’علماء سے سوال کرو، حکماء سے خطاب کرو اور فقراء کے ساتھ بیٹھا کرو۔‘‘

’’ اگر تم کسی کی ہم نشینی اختیار کرنا چاہتے ہو تو ایسے علماء کی ہم نشینی اختیار کرو جو تمھیں پانچ چیزوں سے پانچ چیزوں کی طرف بُلائیں: شک سے یقین کی طرف۔ رِیا سے اِخلاص کی طرف۔ رغبت سے خوف کی طرف۔ تکبّر سے تواضع کی طرف اور کھوٹ سے خلوصِ نیّت کی طرف۔‘‘ (بحار )

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو گفت گُو کی، اُس میں یہ بھی فرمایا، مفہوم : ’’ اے موسی! اپنا کلام اُن لوگوں کے لیے پاکیزہ کرو جو گناہوں کو ترک کرچکے ہیں، اُن کی ہم نشینی اختیار کرو، انھیں اپنے غیب (غیر حاضری) کے لیے اپنا بھائی بناؤ اور ان کی دِلی قدر کرو کہ وہ تمہاری دِلی قدر کریں گے۔‘‘ (بحار )

نبی کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی سے منقول ہے کہ جناب لقمان ؑ نے اپنے فرزند سے فرمایا، مفہوم : ’’اے میرے پیارے بیٹے! جب تم کسی قوم کی محفل میں پہنچو تو اُن پر سلام کہو، پھر اُن لوگوں کے ساتھ ایک طرف ہوکر بیٹھ جاؤ۔ جب تک وہ کوئی بات نہ کریں اُس وقت تک تم بھی کلام نہ کرو اور اگر تم انھیں دیکھو کہ ذکرِ خدا پر مشتمل گفت گو کر رہے ہیں تو تم بھی اُن کے ساتھ شامل ہوجاؤ، یا وہاں سے منہ موڑ کر دوسرے لوگوں کی طرف سے چلے جاؤ۔‘‘ (تنبیہہ الخواطر)

’’ مسکینوں جیسی کیفیت بناؤ اور مسکینوں سے دوستی رکھو۔ ان کے ساتھ رہن سہن رکھو اور ان کی امداد کرو۔ مال داروں کی ہم نشینی سے کنارہ کشی کرو۔ ان کے حال پر رحم کرو اور ان کے مال سے دُور رہو۔‘‘ (تنبیہہ الخواطر)

’’ بابِ مدینۃ العلم، حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ مزید ہدایات سے یوں سرفراز فرماتے ہیں: ’’حکماء کی ہم نشینی عقلوں کی حیات اور نفسوں کی شِفا ہے۔‘‘

’’فقراء کے ساتھ بیٹھا کرو کہ اِس طرح سے تمہارا شُکر بڑھے گا۔‘‘

’’حکماء کی ہم نشینی اختیار کرو کہ اِس سے تمھاری عقل کامل ہوگی، تمھارے نفس کو شرف حاصل ہوگا اور جہالت تم سے دُور ہوگی۔‘‘ ( غررالحکم)

’’ صاحبانِ تقویٰ و حکمت کے ساتھ ہم نشینی رکھو اور ان سے (علمی) گفت گو جاری رکھو، کیوں کہ اگر تم جاہل ہوگے تو وہ تمھیں علم سِکھائیں گے اور اگر عالم ہوگے تو وہ تمھارے علم میں اضافہ کریں گے۔‘‘ ( غررالحکم)

ہم نشین، ہم جلیس کا حق کیا ہے؟ اِس بارے میں یہ دِینی شعور اور روِش ملتی ہے۔ آیت اللہ علّامہ محمدی ری شہری ’’میزان الحکمت‘‘ جلد 2، صفحہ 116پر تحریر کرتے ہیں: ’’ تمھارے ہم نشین کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اُس کے لیے گوشۂ دل نرم رکھو، گفت گُو میں اُس کے ساتھ انصاف سے کام لو، اُس کی اجازت کے بغیر اپنی جگہ سے نہ اٹھو، جو تمھارے پاس آبیٹھے وہ تمھاری اجازت کے بغیر اُٹھ سکتا ہے۔ اُس کی لغزشوں کو بھول جاؤ، اُس کی خوبیوں کو یاد رکھو اور اُسے اچھائی کے علاوہ کوئی اور بات نہ سُناؤ۔‘‘

ہمیں کن لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے۔۔۔۔ ؟

اِس کے متعلق سرکارِ ختمی مرتبت رسالت مآب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیثِ مُبارکہ راہ نمائی فراہم کررہی ہے، مفہوم : ’’ تین قسم کے لوگوں کی ہم نشینی دل کو مردہ کردیتی ہے: خسیس اور پست لوگ۔ اُمراء اور عورتوں کے ساتھ باتیں کرنا۔‘‘

’’ مُردوں کی ہم نشینی سے پرہیز کرو۔‘‘ آپؐ سے سوال کیا گیا: یا رسول اللہ ﷺ! مُردے کون لوگ ہوتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر تونگر جس کو اُس کی تونگری نے سرکش بنا دیا ہو۔‘‘ (تنبیہہ الخواطر)

حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ فرماتے ہیں: ’’ ہوس پرستوں کی ہم نشینی ایمان کو بُھلا دیتی ہے اور شیطان کو حاضر کردیتی ہے۔‘‘ (شرحِ نہج البلاغہ۔ ابنِ ابی الحدید معتزلی)

’’جاہل کے ساتھ ہم نشینی رکھنے والا معقول انسان نہیں ہوتا۔ جو شخص جاہل کا ہم نشین بنے گا اُسے ہر قسم کی قیل و قال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘ (بحار)

’’شریر لوگوں کی مجلسیں بَلا کی مصیبتوں سے محفوظ نہیں ہوتیں۔‘‘

( غررالحکم)

’’آنحضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسی گفت گُو کرنے سے منع فرمایا ہے جو غیرِ خدا کی طرف دعوت دے۔‘‘ (بحار)

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ارشاد ہے: ’’ اہلِ بدعت کے ساتھی بننے سے بچو اور اِن کی ہم نشینی سے بھی پرہیز کرو، ورنہ تم بھی لوگوں کے نزدیک اِن ہی میں سے ایک سمجھے جاؤ گے۔‘‘ ( اصولِ کافی۔ جلد 2 )

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کیا خوب رُشد و ہدایت عطا فرمائی ہے:

’’بادشاہوں اور دُنیا کے فرزندوں (دُنیا داروں) کی ہم نشینی سے بچو، کیوں کہ اِس سے تمہارا دِین تم سے رُخصت ہوجائے گا اور نفاق تمہارا پیچھا کرے گا۔ نفاق ایسی سُست رفتار بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں، بل کہ یہ سنگ دلی کا موجب ہوتی ہے اور خشوع کو سلب کرلیتی ہے۔ انسانوں کی شکل و صورت کے اور درمیانی قسم کے لوگوں کے ساتھ رہو، کیوں کہ تمھیں ان کے پاس جواہر کی کانیں ملیں گی۔‘‘ (مستدرک الوسائل )

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ شریروں سے کنارہ کشی کرو اور شریفوں کے ساتھ ہم نشینی رکھو۔‘‘ ( غررالحکم)

’’ دُنیا داروں کے ساتھ رہن سہن دِین کو داغ دار بنا دیتا ہے اور یقین کو کم زور کردیتا ہے۔‘‘ ( غررالحکم)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔