حقوق  ِنسواں

 جمعـء 9 مارچ 2018
اسلام ہی نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دے کر عورت کی حیثیت مستحکم کی۔  فوٹو: سوشل میڈیا

اسلام ہی نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دے کر عورت کی حیثیت مستحکم کی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

عورت جو ہر دور میں مظلوم رہی، اس کے حقوق پامال کیے جاتے رہے، اسے فقط ایک چیز سمجھا گیا۔

اس کی عزت و ناموس کی کوئی وقعت نہیں تھی بل کہ وہ مردوں کی خدمت و دل بستگی کا سامان بن کر رہ گئی تھی۔ اس کی خرید و فروخت کی جاتی اور اسے منڈی کا مال سمجھا جاتا تھا۔ اسے چوپایوں کی طرح رکھا جاتا اور جب جی بھر جاتا یا وہ خدمت کے قابل نہیں رہتی تو اسے جانوروں کی طرح فروخت کردیا جاتا۔ لیکن اسلام نے ان سب پر روک لگا دیا اور خواتین کے حقوق متعین کیے۔

اسلام کو بہ حیثیت مذہب و قانون ماننے والی کوئی عورت مجبور ہے نہ بے بس۔ قرآن و احادیث سے، صحابیاتؓ کے واقعات سے یہ بات سورج کی طرح روشن ہے۔ مگر تُف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے آج عورت کو ان حقوق سے بھی محروم کردیا جس سے اسلام نے انہیں نوازا تھا۔

اگر ایک نظر تاریخ اسلام پر ڈالی جائے، تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے عورت کو ہر طرح سے اہل بنایا۔ قرآن کریم میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا، پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بہ کثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘     (النساء )

رب کائنات نے مرد و عورت کی تخلیق کے درجے کو برابر رکھا۔ واضح فرمان ہے کہ ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی کا جوڑ۔ اسلام نے عورت کو پیدائش سے لے کر موت تک کے حقوق سے نواز دیا۔ اسلام سے قبل عورتوں کی جو ناگفتہ حالت تھی وہ سب جانتے ہیں۔ اسلام نے لڑکی کو رحمت اور گھر کا سکون بنایا۔ اسلام کا سورج طلوع ہوا تو عورت کا استحصال بند ہوا۔ عورت کو دی جانے والی اذیت ختم ہوئی۔ عورت کو وقار، عصمت، عزت اور حرمت سے نوازا گیا، اور پھر زندہ عورت کی قبر کھودنا بند ہوا۔

اسلام ہی نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دے کر عورت کی حیثیت مستحکم کی۔ اسلام نے کس کس چیز سے عورت کو نہیں نوازا، مساوات، عزت و عصمت کا تحفظ، میراث، مہر، خلع کا حق، انفرادی حقوق، تعلیم و تربیت کا حق، علیحدگی کی صورت میں اولاد رکھنے کا حق، حق رائے دہی، مشاورت کا حق۔ مرد و زن کو برابر کہہ کر رشتۂ ازدواج سے منسلک کیا گیا، خانگی زندگی میں اس کے حقوق متعین کیے، نان نفقہ شوہر کے ذمے کیا گیا، اولا کی کفالت کا ذمہ مرد کو دیا گیا، عورتوں کی عزت و ناموس کے لیے قوانین بنائے اور سزائیں مقرر کیں۔

عورت اگر کمائے تب بھی اس کی ذمے داری یہ نہیں کہ وہ اپنی اولاد کی کفالت کرے، تب بھی یہ ذمے داری باپ کی ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی، اسلامی قوانین کی رُو سے ہر رشتے سے عورت کا ترکے میں حصہ ہے۔ اس کا نفقہ واجب ہے۔ اسے رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ اس کی پیدائش سے موت تک کے حقوق کو مقدم کیا گیا ہے۔ اسلام، ہمارا دین، ہمارا پیارا مذہب جس نے عورت کو مقدس بنا دیا۔ چار دیواری اور باہر بھی اس کے تحفظ کے حقوق مقرر کردیے گئے۔ ماں کا رتبہ عطا کر جنت کا مالک بنا دیا۔ اگر بیٹی بنایا تو گھر کی رحمت قرار دیا۔ اس شخص کو جنت کی ضمانت دے دی۔

محبوب کائنات حضور ﷺ نے فرما دیا کہ جس نے بیٹیوں کی اچھی پرورش کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ بہن کی صورت میں بھائی کا مان بنا دیا اور بیوی کی صورت میں مکمل گھر ہستی عطا کرکے باعث سکون اور ایک دوسرے کا لباس بنا دیا۔ تو کیا پھر یہ ہماری کم نصیبی نہیں ہے کہ ہم نے نہ ہی اچھی ماں بن کر اسلامی خطوط پر اولاد کی پرورش کی۔ نہ اچھی بیٹی بن کر اپنی رحمت کو ثابت کیا۔ نہ اچھی بہن بن کر بھائیوں کے مان کی لاج رکھی۔ اور نہ ہی اچھی بیوی بن کر شوہر کی تسکین کا باعث بن سکیں اور اس کے بہ جائے تلخی و عذاب بن گئیں۔

ہماری کم نصیبی کہ جب ہمارے مذہب نے اتنے حقوق عطا کردیے، اتنا احترام، اتنا مان، اتنی عزت و عرت عطا کردی تو ہم کسی اور سے کیوں متاثر ہوں۔ اسلام نے عورت کو ہر حق و نعمت سے نوازا ہے۔ اسے کسی چیز کے لیے کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو اس کی کہ اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے ہیں ان کی ہر حال میں پاس داری کی جائے۔

دُرّصدف ایمان-

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔