بلوچستان کے خستہ حالات: حکومتی دعوے اور وعدے

فروا بتول  اتوار 11 مارچ 2018
سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے دورہ بلوچستان کے موقعے پرسابق وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے ہمراہ۔ (فوٹو: فائل)

سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے دورہ بلوچستان کے موقعے پرسابق وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری اور پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے ہمراہ۔ (فوٹو: فائل)

آج سے 4 سال 9 ماہ قبل جب نئی حکومت آئی تو بلوچستان کی عوام کو بھی یقین دلایا گیا کہ انہیں ان کے تمام حقوق پورے ملیں گے، باقی صوبوں کی طرح۔ لیکن سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یہ سب باتیں الیکشن جیتنے کی حد تک ہوتی ہیں، الیکشن جیتنے کے بعد بلوچستان کو سب بھول جاتے ہیں۔

ہر حکومت اقتدار میں آنے کے بعد کہتی ہے کہ بلوچستان بھی باقی صوبوں کی طرح ہمیں بہت عزیز ہے، بلوچستان کے بغیر پاکستان نامکمل ہے؛ اور ہم پوری کوشش کریں گے کہ بلوچستان کی عوام کو خوش رکھا جائے۔ نجانے کیسے خوش رکھتے ہیں؟ یہ تو ابھی تک نظر نہیں آیا۔

سوئی گیس نکلتی تو بلوچستان کے علاقے ’’سوئی‘‘ سے ہے لیکن سب سے زیادہ گیس کی لوڈ شیڈنگ ہی بلوچستان میں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی ملک کے کسی علاقے میں گیس کی کمی ہوتی ہے یا ضرورت زیادہ ہوتی ہے تو وہ بلوچستان میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کرکے اس علاقے کو گیس فراہم کرتے ہیں چاہے بلوچستان کی عوام کو پریشانی کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

یہاں تک کہ بلوچستان کے خود کے دور دراز علاقوں میں گیس کی سہولت موجود نہیں کیونکہ بلوچستان کی حکومت کے پاس اتنا بجٹ ہی نہیں کہ وہ اپنے دور دراز علاقوں کو گیس فراہم کرسکے۔ سوئی گیس بلوچستان میں ہونے کے باوجود بلوچستان کی عوام اس نعمت سے محروم ہے۔

بجلی کی بات کی جائے تو وہ بھی بلوچستان کی عوام کےلیے نہیں، پورے ملک میں سب سے زیادہ لوڈ شیڈنگ بلوچستان کی عوام کو جھیلنی پڑتی ہے خواہ گرمیوں کا موسم ہو یا سردیوں کا۔ پاکستان کے کسی بھی صوبے میں بجلی کا کوئی مسئلہ ہو تو اس کی کمی بلوچستان سے پوری کی جاتی ہے۔ شہروں میں 10 سے 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 16 سے 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، مطلب بجلی نہ ہونے کے برابر!

زندگی گزارنے کےلیے سب سے اہم چیز پانی ہے؛ اور بدقسمتی سے بلوچستان کی عوام کو وہ بھی میسّرنہیں۔ پانی بھی پیسوں پر لینا پڑتا ہے۔ ہزاروں روپے کے پانی کے ٹینکر منگوا کر لوگ اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے بلوچستان کی بیشتر زمین بنجر پڑی ہے، حالانکہ اگر حکومت چاہے تو اس زمین پر کاشت کاری کرکے ملک کے سرمائے میں اضافہ کرسکتی ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔

تعلیم، جو ہر نسل اور ہر طبقے کےلیے ہمیشہ بہت اہمیت کی حامل رہی ہے، اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس کہ بلوچستان کو اس معاملے میں بھی سب سے پیچھے رکھا گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر خاص توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اسکول کم اور کھنڈر زیادہ لگتے ہیں۔ شہر کے اسکولوں میں بھی فرنیچر کی کمی کے باعث بچے زمین پر بیٹھ کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو اسکولوں کی چار دیواری بھی نہیں، بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کے پڑتے ہیں۔

پورے بلوچستان میں صرف ایک سرکاری میڈیکل کالج ہے (بولان میڈیکل کالج) جو کوئٹہ شہر میں واقع ہے اور جس کا قیام 1972 میں ہوا۔ پورے بلوچستان سے ڈاکٹر بننے کے خواہشمند طلباء اس ایک میڈیکل کالج میں ٹیسٹ دینے آتے ہیں اور نشستیں کم ہونے کے باعث اپنی خواہش واپس لے کر چلے جاتے ہیں۔ مگر بولان میڈیکل کالج بھی بہت ساری سہولیات سے محروم ہے۔ پرانا ہونے کے ساتھ طلباء کے سیکھنے کےلیے تمام چیزیں بھی میسّر نہیں۔ باقی شعبوں کی یونیورسٹیاں بھی کم ہونے کے باعث بلوچستان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کےلیے دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

سرکاری اسپتالوں کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ مجبور لوگ جب بیمار پڑتے ہیں تو سہولیات سے عاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک بیماری کا علاج کرنے جاتے ہیں اور اسپتالوں کی گندی حالت کے باعث ساتھ دس بیماریاں اور لے آتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں پر کوئی توجہ دینے والا نہیں، دیہی علاقوں میں اسپتال نہ ہونے کے باعث لوگ اپنے مریضوں کو لے کر شہر کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن کئی بار مریض شہر پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔

میڈیا کو چاہیے کہ جہاں ملک کے باقی مسائل پر بات کی جاتی ہے، وہاں بلوچستان کے مسائل کو بھی زیرِبحث لایا جائے تاکہ باقی صوبوں کی طرح بلوچستان بھی ترقی کرے اور بلوچستان کی عوام بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے مستفید ہوسکے، کیونکہ جو بات بھی میڈیا کے ذریعے آگے بڑھائی جاتی ہے، اس پر ضرور توجہ دی جاتی ہے۔

البتہ بلوچستان کی عوام کو بھی چاہیے کہ جب حکومت ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گی اورانہیں سہولیات فراہم کرے گی تو یہ ان فراہم کردہ سہولیات کی حفاظت کریں اور ہر سہولت کو طریقے سے استعمال کریں کیونکہ یہ ملک ہمارا سرمایہ ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

فروا بتول

فروا بتول

بلاگر کا تعلق لورالائی، بلوچستان سے ہے اور آپ آج کل یو سی پی لاہور سے جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن میں ایم ایس سی کررہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔