اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے؟

حافظ خرم رشید  جمعـء 16 مارچ 2018
مذہب کی تبدیلی میں صرف دشمنوں کا ہاتھ نہیں، ہمارا اپنا کردار بھی بہت زیادہ ہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

مذہب کی تبدیلی میں صرف دشمنوں کا ہاتھ نہیں، ہمارا اپنا کردار بھی بہت زیادہ ہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے ساتویں جماعت پاس کرنے کے بعد محترم والد عبدالرشید سالک مرحوم مجھے ایک مدرسے میں قرآن پاک حفظ کروانے کےلیے لے گئے۔ قاری صاحب نے میرا معمولی سا ٹیسٹ لینے کے بعد محترم والد صاحب سے ذریعہ معاش کے حوالے سے استفسار فرمایا۔ والد صاحب چونکہ عرصہ دراز سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے اور ایک ذاتی اسکول کی سرپرستی بھی فرمارہے تھے تو انہوں نے تمام حوالے قاری صاحب کے گوش گزار کردیئے۔ قاری صاحب نے نجی اسکول کا نام پوچھا جس پر والد صاحب نے نام کے ساتھ پتا بھی بتادیا۔ والد صاحب کا یہ نام بتانا اور قاری صاحب کا یک دم سکتے میں آکر کھڑے ہوجانا نہ صرف میرے لئے بلکہ والد صاحب کےلیے بھی باعث تشویش بنا۔

قاری صاحب نے والد محترم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ راز افشا کیا کہ آپ کے اسکول میں ایک اُستانی (جس کا نام بھی لیا) دیگر اساتذہ اور بچوں کو اسلام سے متنفر کررہی ہے اور اس کا سب سے بڑا ہتھیار پیسہ ہے جسے استعمال کرکے وہ غریب اور بھولے بھالے لوگوں کو اپنے نئے مذہب کی طرف آسانی سے مائل اور قائل کرلیتی ہے۔

والد صاحب بھی یک دم سکتے میں آگئے اور تھوڑی سی گفتگو کے بعد گھر واپس چلے گئے۔ اگلے ہی روز والد صاحب نے اس خاتون ٹیچر کو اپنے آفس بلایا اور سارا قصہ بیان کرکے اسے اسکول سے فارغ ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔ فیصلہ سننے کے بعد محترمہ نے اپنا ہینڈ بیگ لیا اور کلاسز میں جاکر اعلان کیا کہ میں آج سے اسکول چھوڑ کر جارہی ہوں۔ اس اعلان کے فوراً بعد 38 بچے اور 3 دیگر خاتون اساتذہ بھی اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ اور یوں پتا چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں وہ عورت دینِ اسلام سے خارج کرکے نئے دین میں داخل کرچکی تھی۔

یہ واقعہ والد صاحب کی طبیعت پر اتنا گراں گزرا کہ انہوں نے ایک ہفتے تک کھانا پینا اور سونا چھوڑ دیا اور رات بھر سجدے میں گر کر اللہ کے حضور سربسجود ہوکر معافیاں مانگتے رہے۔ ایک ہفتے بعد کھانے پینے کا معمول تو حسب عادت شروع ہوگیا لیکن رات کو جاگ کر عبادت اور رو رو کر معافی کی طلب تادمِ آخر معمولات میں شامل رہی۔

یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ والد صاحب بہت متقی و پرہیزگار تھے بلکہ اس کا مقصد اپنی کوتاہیوں کی نشاندہی ہے۔ اپنے مسلمان بھائی کی مدد نہ کرنا، اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر دوست احباب رشتہ داروں کی اصلاح کی کوشش نہ کرنا، ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہونا یقیناً انہیں کسی ہمدرد کی جانب بڑھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ وہ ہمدرد جو بظاہر اس کا خیرخواہ ہوتا ہے لیکن اس کے ایمان کی دولت لوٹ کر اسے جہنم کی جانب دھکیل دیتا ہے۔

گزشتہ دنوں بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں نادرا کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں انکشاف ہوا کہ 10 ہزار سے زائد مسلمان افراد نے اپنے قومی شناختی کارڈ میں دین اسلام کو ختم کرکے نئے دین کو شناخت بنانے کی درخواست کی ہے۔ یہ خبر میرے سینے پر تلوار کے وار سے زیادہ اثر کرگئی اور تقریباً 22 سال پرانا اسکول والا واقعہ یاد آگیا۔ مجھے وہ دوست یاد آنے لگے جو کسی نہ کسی طور پر حالات سے تنگ اور مجبور ہوکر لوگوں سے مدد طلب کرتے ہیں، میری آنکھوں  کے سامنے ان افراد کا چہرہ بھی رقصاں تھا جو ہاتھ پھیلائے کسی چوک، چوراہے، گلی کے نکڑ یا فٹ پاتھ پر بیٹھے اپنے مسیحا کے منتظر ہوتے ہیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: پارلیمنٹ عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ کو یقینی بنائے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس کے حوالے سے بہت اہم اور بحیثیت مسلمان دل جیت لینے والے فیصلے اور حکم صادر کئے تاہم ہمارے فرائض اور ذمہ داریاں اپنی جگہ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی نماز قائم کرنے کا حکم دیا وہیں زکوۃ دینے کی بھی تلقین کی گئی۔ ہمارا دین یقیناً امن و سلامتی کا دین ہے۔ محبت، بھائی چارہ، بھلائی اور حقوق العباد کو حقوق اللہ سے بھی زیادہ ترجیح دی گئی جس کی وجہ سے آج ہمارے دین کی مثال کسی دین و مذہب میں نہیں ملتی۔

محسنِ انسانیتﷺ  جابجا صحابہ کرامؓ کو دوسروں کی مدد کی تلفین کیا کرتے۔ حدیث پاک کے مفہوم کا مفہوم ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی سترپوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا) رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔

یہاں تک کہ ہمارے نبیﷺ نے تو اپنے غلاموں سے بھی صلہ رحمی اور محبت کی شفققت بھری نصحیت فرمائے ہوئے فرمایا کہ تمہارے خادم  تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ماتحت کردیا ہے۔ پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو تو جو کھانا خود کھائے اس میں سے اسے کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے وہی اسے پہنائے اور اس سے ایسی مشقت نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اوراگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی کام اس کے سپرد کرے تو خود بھی اس کی مدد کرے۔

حدیث کے مطابق یقیناً صدقہ اللہ ربّ العزت کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اوربری موت کو دور کرتا ہے، لیکن آج ہم اسلام کی روشن تعلیمات سے دور ہوکر اغیار کے طرزِ زندگی و طرزِ معاشرت کی مثالیں دینے پر مجبور ہیں اور بیشتر مواقع پر ہمارے سیاستدان، ہمارے بزرگ مغرب میں جانوروں سے کی جانے والی محبت کی مثال دے کر ہمیں انسانوں سے محبت کا درس دیتے ہیں۔ ہمیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہوتی جس کی وجہ معاشرے کا معمول بن جانے والی بے حسی، اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں اور دیگر ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس نہ ہونا ہے۔ ہم خود طرح طرح کے فضول لوازمات اور ضیافتوں کو اپنی کھانے کی میز کی زینت بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہم تو اپنی زبان کے ذائقے کےلیے ہزاروں روپے خرچ کرکے ایک وقت کے کھانے پر ضائع کردیتے ہیں لیکن ہمارے پڑوس میں کوئی بچہ بھوکا سونے پر مجبور ہے۔

ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا۔ اپنے نبیﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔ صحابہ کرامؓ کے طرزِ زندگی کو مشعل راہ بنانا ہوگا۔  ذاتی مسائل اور ذمہ داریاں اپنی جگہ لیکن ارد گرد موجود افراد کے حال سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے گرد و پیش میں موجود کوئی شخص آپ کی توجہ کا منتظر اور آپ کی مدد کا مستحق ہو جس کی مدد کرکے اسے ایمان بیچنے سے بچا لیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حافظ خرم رشید

حافظ خرم رشید

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔ ایک نجی چینل پر ریسرچر اور اسکرپٹ رائٹر رہے ہیں۔ اس وقت ایکسپریس نیوز میں بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔