بھٹونواز اور بھٹومخالف سیاست نے نیا موڑ لے لیا

مظہر عباس  جمعرات 4 اپريل 2013
 بینظیر،شریف خاندان کے ساتھ مصالحت چاہتی تھیں،زرداری نے چوہدریوں کے ساتھ کرلی

بینظیر،شریف خاندان کے ساتھ مصالحت چاہتی تھیں،زرداری نے چوہدریوں کے ساتھ کرلی

کراچی: پاکستانی سیاست پر گزشتہ تین دہائیوں سے حاوی بھٹونواز اور بھٹومخالف سیاست نے گزشتہ 5برسوں میں ایک نیا موڑ لیا ہے۔

اب بھٹو مخالف جذبات زرداری مخالف جذبات میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ اگرچہ ’’جیے بھٹو‘‘ پیپلزپارٹی کیلیے بدستور محض ایک نعرہ ہے لیکن بھٹو کی جماعت ان کے انداز سیاست اور ویژن سے دور ہوگئی ہے۔ بھٹو کے نواسے اور کم عمر ترین پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو مرکزی دھارے کی سیاست میں اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کے برعکس اہمیت حاصل کرنے میں ابھی چند سال مزید لگ سکتے ہیں۔ مختلف متنازع معاملات کے باعث الیکشن2013کا مرکزنگاہ بھٹو نہیں آصف علی زرداری ہوں گے۔

انتخابی مہم کے دوران بھٹو مخالف تقریریں ہوں گی نہ ان کے سیاست میں برتر کردار پر حملے کیے جائیں گے بلکہ پیپلزپارٹی مخالف کیمپ میں سب سے نمایاں نعرہ ’’گوزرداری گو‘‘ ہونے کا امکان ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیاست تیزی سے نیا رخ اختیار کررہی ہے۔ لاڑکانہ کا بھٹو خاندان اور گجرات کا چوہدری خاندان جو قبل ازیں ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے اس انتخابات میں شانہ بشانہ آگے بڑھ رہے ہیں تاہم اس اتحاد سے (ق)لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں کی صفوں بالخصوص گجرات کی سیاست میں دراڑیں پڑرہی ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کے سوا پیپلزپارٹی کا فلسفہ بھی تبدیل ہوچکا ہے۔

بے نظیر کی مصالحت کی سیاست میں گجرات کے چوہدریوں کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ وہ شریف خاندان کے ساتھ مصالحت چاہتی تھیں۔ تاہم مسٹر زرداری کا ذہن کسی اور ہی انداز میں سوچ رہا ہے اور انھوں نے بینظیر کی خواہش کے بالکل برعکس عمل کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک اب بھی پارٹی حکومت کی خراب کارکردگی کے بجائے بھٹو کے رومان کے گرد گھومتا ہے لیکن پہلی بار پیپلزپارٹی نے اس چیز کی حدت محسوس کی ہے کہ بھٹوازم کے پیروکار اتنے بددل ہیں کہ اس سے پارٹی کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔5 سالہ اچھی یا بری حکومتی کارکردگی کو تو چھوڑیں پیپلزپارٹی نے اس عرصے کے دوران بھٹو کیس کے دوبارہ ٹرائل کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔

یہی معاملہ بینظیر قتل کیس میں بھی نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس مقدمے میں نمایاں پیشرفت کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن ایک سابق وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ہم اس کیس کا مقدمہ لڑنے پر وکیلوں کو2کروڑ روپے فیس ادا کرچکے ہیں لیکن جواب میں کچھ حاصل حصول نہیں ہوا، ہمارے پاس بھٹوکے ماننے والوں کو جواب دینے کیلیے کچھ نہیں‘‘۔ البتہ سیاسی رہنمائوں کی طرف سے بھٹو مخالف جذبات کم ہوئے ہیں اور قاضی حسین احمد مرحوم، پروفیسر غفوراحمد ، نوازشریف اور عمران خان بھی ماضی کے برعکس بھٹو کے فلسفے کی تائید کرتے نظر آئے ہیں۔

اب توپوں کا رخ زرداری کی طرف سے ہے جن پر پیپلزپارٹی کے منحرفین بھٹو کی جماعت تباہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ بھٹو اب بھی زندہ ہے لیکن بھٹو نواز اور بھٹو مخالف سیاست نے نیا موڑ لیا ہے، اگر پیپلزپارٹی چاہتی تو اس سے فائدہ اٹھاسکتی تھی۔ بدقسمتی سے اس جماعت نے خود بھی نئی سمت اختیار کرلی ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی تھی نہ بینظیر بھٹو کی۔ لہٰذا اگر اس مہم میں سرے سے کوئی بھٹو ہی نہیں تو بھٹو نواز اور بھٹو مخالف سیاست کا وجود کیسے ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔