مسئلہ باہر نہیں اندر ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 10 مارچ 2018

ہمارے غصے، جھنجھلاہٹ، طیش میں آنے، احساس برتری کا شکار ہو جانے، نفرت، اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے، صرف اپنے آپ سے محبت کرنے کے پیچھے حالات و واقعات نہیں ہوتے بلکہ ہماری ذہنی و جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں۔ اگر ہم ذہنی و جسمانی طور صحت مند ہونگے تو ہمارے رویے بھی صحت مند ہونگے، جب رویے صحت مند ہونگے تو ان سے صحت مند حالات و واقعات کا جنم ہو گا، لیکن اگر ہم ذہنی و جسمانی طورپر بیمار ہونگے تو ہمارے رویے بھی بیمار ہونگے۔

جب رویے بیمار ہونگے تو پھر اس سے بیمار حالات و واقعات جنم لیں گے ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی صحت مند آدمی غصے، جھنجھلاہٹ، احساس بر تری یا صرف اپنے آپ سے محبت کرنے جیسی بیماریوں کا شکا ر ہو جائے۔ اس لیے اگر آپ کو کوئی شخص غصے، جھنجھلاہٹ، طیش میں بے تکی باتیں یا تقریر کرتے ہوئے نظر آئے تو آپ کا رویہ اس کے ساتھ وہ ہی ہونا چاہیے جو ایک بیمار آدمی کے ساتھ آپ کا ہوتا ہے۔

آئیں! سب سے پہلے تو ہم اپنے ملک کے لیے سب ذہنی و جسمانی بیماریوں کے لیے مل کر دعا کریں۔ یہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمار سخت بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں۔ سارتر لکھتا ہے کہ ’’میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو‘ جب کہ سیموئیل جانسن کہتاہے ’’اطمینان کے سوتے ذہن سے پھوٹتے ہیں اور انسانی فطرت کے بارے میں وہ کم علم جو اپنی بجائے دوسری چیزوں کو تبدیل کرکے خو شیوں کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں وہ نہ صرف اپنی تمام کوششوں کو ضایع کرتے ہیں بلکہ ان ہی غموں کو اپنے لیے بڑھا لیتے ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے وہ ساری جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں‘‘ یاد رہے جب ہم مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ مسئلہ کہیں باہر ہے تو دراصل یہ سوچ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ کہہ کر ہم اپنا کنٹرول اس باہر کے مسئلے کے ہاتھ میں دیتے ہیں لیکن کبھی بھی مسئلہ باہر نہیں ہوتا مسئلہ ہمیشہ اندر ہوتا ہے۔

اسی لیے ایمرسن کہتا تھا کہ ’’تم جوکچھ ہو اس ہونے کا شور میرے کانوں میں اسی قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا۔‘‘ اب ہمارے ملک کے اہم کرداروں کو ہی لے لیجیے جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی جا رہی ہے غصے، طیش اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں وہ سب کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں یہ سو چے سمجھے بغیرکہ مسئلہ باہر نہیں ہے بلکہ مسئلہ خود ان کے اندر ہے اور یہ وہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں حتیٰ کہ انھوں نے نا سمجھی میں اپنی ہر چیز داؤ پر لگا دی ہے نتیجے میں مسئلے نے تو کیا ختم ہونا تھا انھوں نے اپنی لیے ان گنت اور نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ نئے مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے اور وہ مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے اور پھر وہ وقت آ جائے گا کہ وہ اگر چاہیں گے بھی تو کبھی اپنے مسائل سے نکل ہی نہیں پائیں گے۔ اصل میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم اپنی دنیا کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس عینک پر بھی غور کر لیا کریں کہ جس کے ذریعے ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے بارے میں ہمارے خیالات کی ساری تشکیل کا اسی عینک پر انحصار ہے لیکن افسوس ہماری اکثریت ساری زندگی اپنی عینک کے بارے میں بھی سوچتی تک نہیں ہے۔

یاد رکھیں ہم جو کچھ ہیں اس کا سب کو پتہ ہوتا ہے سوائے خود ہمارے۔ نامور ماہر نفسیات اسٹیفن آرکو۔کووے لکھتا ہے ’’براہِ مہربانی کوشش کیجیے کہ اپنے ذہن سے ہر چیز نکال دیں اور اپنی پوری توجہ میری بات پر مرکوز رکھیں۔ اپنے وقت، بزنس، خاندان، احباب وغیرہ کسی کے بارے میں بھی فکر مند نہ ہوں اور اپنے ذہن کو حقیقتاً کھلا رکھیں۔ اب آپ اپنے ذہن کی آنکھ سے اپنے آپ کو اپنی کسی پیارے کے جنازے پر جاتا دیکھیں خود کو جنازے کی جگہ پر پہنچتا دیکھیں اور اپنی کار سے باہر آتا دیکھیں آپ جب عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو پھول دیکھتے ہیں اور دھیمی دھیمی سوگوار موسیقی آپ کے کانوں میں پڑتی ہے۔

آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں آپ کا احساس زیاں وہاں موجود ہر شخص کے دل سے بہہ رہا ہے اور شناسائی کے مہ و سال کی خوش کن یادوں میں بھی بڑھتا جاتا ہے۔ یہ احساس آپ کے دل میں بھر جاتا ہے جب آپ اس کمرے کے آخر پر پہنچتے ہیں اور تابوت میں جھانکتے ہیں تو اچانک آپ خود کو اپنے مقابل پاتے ہیں یہ آپ کی اپنی میت ہے اور آخری رسومات کی تقریب ہے جو کہ آج سے تین سال بعد منعقد ہو رہی ہے۔ اور یہ تمام لوگ آپ کے لیے اپنی عزت کا اظہار کرنے اپنی محبت نچھاور کرنے اور آپ کی بھر پور زندگی کی یاد میں یہاں اکٹھے ہوئے ہیں آپ رسومات کے شروع ہونے کے انتظار میں جب اپنی نشست پر بیٹھتے ہیں تو آپ کی نظر اپنے ہاتھ میں رسومات کے پروگرام کی کاپی پر پڑتی ہے۔

تقریب میں چار مقرر ہونگے پہلا، آپ کے خاندان سے قریبی یا دور کا، بچوں ، بھائیوں، بہنوں، بھانجے، بھتیجوں، چچاؤں میں سے کوئی جو سارے ملک کے طول وعرض سے آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ دوسرا مقرر،آپ کے دوستوں میں سے کوئی ہو گا جو کہ آپ کی شخصیت پر روشنی ڈال سکے۔ تیسرا مقرر، آپ کے پیشے سے متعلق ہو گا اور چوتھا آپ کے مذہبی یا پھر ایسے فلاحی ادارے سے کہ جہاں آپ اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔

اب آپ ذرا گہرائی سے سوچیئے آپ ان تمام مقررین کے منہ سے اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں کیسی باتیں سننا پسند کریں گے؟ تو پھر آپ کو اپنی کامیابی کی تعریف مل جائے گی اور یہ ممکن ہے کہ یہ تعریف آپ کے ذہن میں اس سے پہلے موجود تعریف سے مختلف ہو ہماری تمام جدوجہد کے مطمع ہائے نظر یعنی شہرت، کامیابی، دولت اور ایسی ہی دوسری چیزیں شاید صحیح دیوار کا حصہ بھی نہ نکلیں۔

آئیں! پہلی فرصت میں اپنی عینک کو بدل دیں تا کہ آپ دیکھ سکیں کہ مسائل باہر نہیں بلکہ آپ کے اندر ہیں اور آخر کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنا آج گزاریں۔ یاد رکھیں ایک نہ ایک دن ہم سب نے چلے جانا ہے یہ ہمارے آج پر منحصر ہے کہ کل لوگ ہمیں کس طرح یاد کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔