سینیٹ الیکشن 2018ء

جاوید قاضی  ہفتہ 10 مارچ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سینیٹ کی آدھی نشستوں پر الیکشن کے بعد سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب، یوں لگتا ہے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ کل فرحت الللہ بابرگرج پڑے، زرداری بھی چپ نہ رہ سکے اور فرما دیا کہ رضا ربانی سینیٹ چیئرمین شپ کے امیدوار نہیں۔ PML-N نے بھی خوب پتا کھیلا، رضا ربانی کو اپنا امیدوار بنا دیا۔

وہاں بلوچستان ممبران سینیٹ کی بھی اوپر والے نے سن لی اور اس دفعہ کچھ ایسا لگتا ہے کہ PML-N کا سینیٹ چیئرمین بلوچستان سے ہو گا وہ کچھ اس طرح کہ بلوچستان کے تمام آزاد ممبران سینیٹ کہیں دوسرے کیمپ میں نہ چلے جائیں۔ یہ بات تو ماننے کی ہے کہ زرداری صاحب سینیٹ ممبران کے انتخاب تک بہت خوبی سے کھیلے مگرکیا وہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب تک بھی اسی خوبی سے کھیلیں گے۔

کل سینیٹ میں PTI چوتھے نمبر پر تھی اور اب تیسرے نمبر پر ہے۔ PML-N جو دوسرے نمبر پر تھی وہ اب پہلے نمبر پر ہے اور اس طرح اب پیپلزپارٹی دونوں ایوانوں میں دوسرے نمبر پر ہے، مگر پیپلز پارٹی ایوان زیریں میں 2018ء کے الیکشن میں بہت ممکن ہے کہ اپنی دوسری پوزیشن بھی برقرار نہیں رکھ سکے۔

ایسا لگتا ہے کہ رضا ربانی کو اگر پیپلزپارٹی نے اپنا امیدوار سینیٹ کے لیے نامزد نہیں کیا تو رضا ربانی کے چیئرمین سینیٹ بننے کے امکانات نہیں ہیں اور اگر پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹ کا چیئرمین نہیں منتخب ہوتا تو پیپلز پارٹی کو سال 2018ء کے الیکشن میں اپنا Narrative  بنانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی شاید کے پی کے میں اپنے قدم کسی حد تک جما سکے لیکن صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنا مقام کھوچکی ہے۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو جس کے پاس گھوڑے ہونگے وہ ہی دوڑیں گے اور الو شاخ پر بیٹھے رہیں گے۔

جب پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت سنبھالی تو یہ دن بھی ہمیں دیکھنا تھا کہ وہ بلوچستان میں اپنا وزیراعلیٰ لے کر آئے میاں صاحب نے وفاق میں حکومت بنائی تو ممبران اسمبلی PML-Q نے PML-Q سے Q ہٹا دیا۔ پہلے ڈاکٹر مالک کو اپنا اتحادی وزیر اعلیٰ بنایا اور پھر ثناء اللہ زہری کو اپنا وزیر اعلیٰ مقررکیا۔ جب میاں صاحب وفاق میں وزیر اعظم نہ رہے تو زہری صاحب بھی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نہ رہے، لیکن بلوچستان کی سیاسی روایات وہ ہی ہیں اس بات کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ان علاقہ جات میں جتنی پسماندگی ہوگی، اتنے ہی گھوڑے دوڑیں گے۔

ہمارے دیہی سندھ میں بھی Quid pro  Quo ہی ہے یعنی مال کے بدلے مال یعنی ہارس ٹریڈنگ۔ آصف زرداری گھوڑے پالنا خوب جانتے ہیں۔ بڑی کوشش کی میاں صاحب اورکپتان نے کہ دیہی سندھ کی وکٹ پے کھیلیں مگر وہ جم کے کھیل نہ سکے، وہ پویلین میں چلے گئے۔ کمال یہ کیا زرداری نے کہ کراچی کی سیاسی روایات میں بھی اپنے گھوڑے دوڑائے۔ اب کی بار جتنی دھول اڑی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ جیسے ماضی ہو چکی ہو۔

کراچی کی سیاست قبائلی یا جرگے کی نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ ان کے Narrative  میں ہے وہ شاید جلد ہی درست ہو جائے اور جہاں زرداری اپنے گھوڑے دوڑا نہ سکے۔ ہاں مگر پیپلز پارٹی اگر بینظیر بھٹو کی زیر قیادت ہوتی تو کراچی کی سوچ کچھ اور ہوتی۔ ایک دن کراچی کوٹہ سسٹم فوبیا سے آزاد ہو گا اور دیہی سندھ وڈیروں سے اور اس طرح سے جو دیوار دیہی اور شہری سندھ کے درمیان حائل ہے وہ گرجائے گی کیونکہ اس دیوارکے پیچھے آدھی حقیقت ہے اور آدھا فسانہ۔

چلتے ہیں آگے۔ فرحت اللہ بابرکل ایوان میں جوکچھ فرما رہے تھے اگر سیاسی زاویہ سے دیکھا جائے تو فطری ہے مگر قانون اور آئین کی لغت میں غلط ہے۔ بہت ہی بلیک اینڈ وائٹ کرکے یہ بات کہتا چلوں کہ آئین ہر پارلیمنٹ نہیں بناتی، آئین بنانا ون ٹائم گیم ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کو آئین بنانے کا موقعہ . GI Act ء1947 میں ملا انھوں نے آئین بنایا اور ہم نے وہ موقعہ گنوا دیا۔ہم برسوں سرزمینِ ِ بے آئین رہے۔

اس موقعے کو گنوانے کے بعد ہم اپنے ملک کا آدھا حصہ کھویا تو ہمیں آئین کی ضرورت محسوس ہوئی اس ملک کو مضبوط کرنے کے لیے پھر اسی اسمبلی نے 1973ء کا آئین بنایا۔ آئین بنانا اور ترمیم کرنا دومختلف حقوق ہیں۔ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم تو کر سکتی ہے مگر بنا نہیں سکتی۔ آئین میں ترمیم کرنے کا حق بھی خود آئین بنانے والوں نے دیا ہے۔

پارلیمنٹ جب قانون بناتی ہے اسی وقت اس کی تشریح کا حق عدلیہ کو دیتی ہے اسی طرح آئین کو تشکیل دینے والوں نے اس کی تشریح کا حق بھی عدلیہ کو دے دیا تھا۔ اب یہ عدلیہ کا عندیہ ہے کہ وہ اس حق میں کتنی ایماندار ثابت ہوتی ہے۔

یہ بحث اب ایک الگ بحث ہے کہ اپنے پاورز کو کون ایمانداری سے استعمال کرتا ہے اور کون اس امانت میں خیانت کرتا ہے۔ کیا یہ پارلیمنٹ کی ذمے داری نہیں کہ وہ آرٹیکل 62 (1)(f) کو ختم کر دے جو کہ براہ راست پاکستان کے آئین کے تصادم میں ہے، جب پارلیمنٹ اس شق کو ختم نہیں کرتی تو کورٹ Construe Narrow  کیوں کرے جب کہ پہلے کورٹ کرتی تھی۔

اس شق کا آئین میں ہونا، اس کی تشریح کرنا دونوں میں پارلیمنٹ بھی غیر ذمے دار ہے اور کورٹ بھی۔ مگر یہ کونسی جمہوری روایات ہیں ملک کے وزیر اعظم کے خلاف پناما کا اسکینڈل منظر عام پر آئے اور وزیر اعظم اپنی کرسی پر قائم رہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ گھی جب سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی کو ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے۔ جب نظریہ ضرورت پرکورٹ مہر لگا رہی تھی تو پارلیمنٹ کا کیا کردار تھا؟ پارلیمنٹ آٹھویں اور سترہویں ترمیم کے ذریعے کورٹ کے نظریہ ضرورت کے فیصلوں کو آئین کا حصہ بنا رہی تھی۔

فرحت اللہ بابر ، رضا ربانی، بلاول بھٹو یا پھر چوہدری اعتزاز احسن، بیانیےNarrative  کے حوالے سے پارٹی کے چند مخصوص چہرے ہیں۔ شیری رحمٰن کا بھی شاید کچھ حصہ ہو مگر باقی تمام پارٹی electable کی پارٹی ہے۔ اب یہ پیپلز پارٹی بینظیر کی پیپلز پارٹی نہیں ہے۔ یہ پارٹی اپنی ماہیت کو تبدیل کرچکی ہے۔ جس طرح پنجاب نے اپنے آپ کوکنزرویٹو سیاست کے حوالے کیا ہے۔ اسی طرح زرداری نے جمہوریت کا علمبردار ہونے سے اپنے آپ کو دستبردار کیا ہے۔

2018ء کے الیکشن آتے آتے بہت کچھ منظر عام پر آنے لگا ہے، وہ کچھ جو اب تک آنکھوں سے پوشیدہ تھا۔ دو بیلٹ باکس تو ہوگئے تیسرے بیلٹ باکس کے ہوتے ہوئے ہماری جمہوریت جس کو بہتری کی طرف آنا تھا وہ مزید کمزوریوں کا شکار ہوگئی ہے۔ کسی ایک ادارے میں نہیں اداروں کے اندر بحران ہے، پارٹیوں کے اندر بحران ہے، ووٹرز پریشان ہیں کہ کس پارٹی کی طرف رجوع کریں؟ کس کو ووٹ دیں۔

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔